Shahoor e zaat afsana by Muhammad Arsalan


افسانہ؛ شعور ذات
از قلم: محمد ارسلان

رابعہ! بات سنو آج میرے سر میں شدید درد ہے کل شام سے کسی رانگ نمبر نے تنگ کر رکھا ہے منیبہ روتے ہوئے بولی( دونوں نیشنل ہسپتال کے سامنے بس سٹاپ پر وین کا انتظار کر رہی تھیں )
رابعہ: آپی کون ہے کیا چاہتا ہے؟
منیبہ: پتا نہیں زندگی جہنم بنی ہوئی ہے دو دن سے.... 3 دن سے وین والے کو نمبر دیا رابطہ کیلئے ....
رابعہ: کہیں ایسا تو نہیں اسی وین ڈرائیور نے کسی کو نمبر دیاہو.... میں کسی طرح پتا کرتی ہوں آپ نمبر بتائیں میں شوکت کو کہتی ہوں۔ وہ روز اپنے دوست کا کہتا رہتا ہے....
رابعہ : نہیں نہیں ایسا ہرگز نہیں کرسکتی ...... بات جتنی پھیلے گی میرے لیے اتنا عزاب بنے گا.... ابو میرا آنا جانا بند کروا دیں گے ... جب سے یہ نئی حکومت آئی ہے تب سے مہنگائی بڑھنے کی وجہ سے ابو جان نے ہمارے خرچ کم کر دئیے ( حکومت پیپلزپارٹی ، سال 2009 )۔ مجھے جاب کی اجازت بڑی مشکل سے ملی ہے.... کلثوم ابو کی منت نہ کرتیں تو شاید آج تمہارے ساتھ یہاں نہ ہوتی.....
منیبہ : آپی یہ ڈیفنس میں موجود ملٹی نیشنل کمپنیاں کبھی کبھی مشکوک محسوس ہوتی ہیں .... اللہ جانے کیا راز ہے کہ 2007 میں عائشہ نے جاب کی اس نے میٹرک کر رکھی ہے حیرت ہے اسکو کیسے پرموشن مل گئی اور اب تو باس نے اسے کرولا کار بھی دی ہے دوپہر کا لنچ بھی خصوصی ملتی ہے آخر ایسی سہولت ہمیں میسر کیوں نہیں ؟؟؟؟
رابعہ : منیبہ تمہیں نہیں پتا ہم شاید وہ سب پسند نہیں کرتی ہیں جو سٹاف عائشہ سے توقع رکھتا ہے۔ عائشہ فطرت کی حسین ہے انکے انداز اور طریقہ کو غلط تصور کیا جاتا ہے .......
وہ کیسے؟ آپی آپکو کیسے پتا؟ منیبہ نے دلچسپی سے پوچھا
کل رات اچانک اسکی کال آئی تھی قریبًا دو گھنٹے ہماری بات چیت ہوئی۔ نہ جانے اس کیا سوچ کر اپنی بات مجھ سے مخلصانہ انداز میں کہی ....
وہ بہت روئی ، کہتی ہے کہ میں بظاہر خوش اور سیر و تفریح کرنے والی لڑکی لگتی لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے. عائشہ نے بتایا اس کے والد 6 سال سے شدید بیمار ہیں اس ملازمت کے ابتدائی دنوں ابو جان "جناح ہسپتال " داخل تھے....
باس نے دلجوئی کی اور بہن کہہ کر بہت امداد کی جس کا تصور میرے گمان میں بھی نہ تھا
چند دنوں میں جب "ابو جان" بہتر ہوۓ اور انھوں نے اتنی بڑی معاشی آمدنی کی وجہ دریافت کی تو میں نے "ا سے ی"  تک سب بتا دیا۔
میرے دل میں کمپنی کیلئے احترام بڑھ چکا تھا انکے احسان تلے دبی ہوئی تھی۔
تو اسی دن ابو نے مجھے شفقت سے نصیحت کی بیٹا عورت کی عزت کا محافظ "بھائی باپ یا شوہر" ہوسکتا ہے نامحرم رشتے پر کبھی بھروسہ نہ کرو۔ اپنی ذات کو پہچانو ۔
ابھی تو آپ صرف 21 سال کی ہیں دنیا کے بدلتے رنگ نہیں دیکھے۔ اللہ رضا کی خاطر خود کو شعور کی طرف لاؤ ۔
آج احساس ہوا "ابو جان" درست کہتے تھے۔ رابعہ تم بھی یہ جاب چھوڑ دینا کیونکہ اس کمپنی کے 5 افراد مجھے اپنی حوس کا شکار بنانا چاہتے تھے۔
میں نے آخری 15 دن بڑی مشکل سے گزارے کل جب باس کے بنگلہ پر آئے تو انکے چال ڈھال سے بدی کی بو آرہی تھی۔ آتے ہی میرا ہاتھ پکڑا میرے گمان میں نہ تھا کہ وہ شراب کے نشے میں غرق ہیں۔ 35 منٹ تک اپنی آبرو بچانے کی کامیاب کوشش کرتی رہی ۔ مختلف کمروں میں چھپی ، گیٹ تک بھاگی لیکن سیکورٹی گارڈ  نے باس کی ہدایت کی وجہ سے دروازہ نہ کھولا ۔ 😢😢😢😢😢 جیسے تیسے گھر پہنچی ابو سے لپٹ کر خوب روئی۔ کلام پاک پڑھ کر اللہ پاک سے معافی مانگی ۔ اسی وقت سے مکمل پردے کا ارادہ کر لیا۔
4 دن بعد منیبہ ، رابعہ اور عائشہ مل کر ایک پورانے بنگلے کو صاف کرکے وہاں ٹیوشن سینٹر کھول رہی تھیں۔ 5 سال بعد وہی ٹیوشن سینٹر اسکول کی شکل کر چکا تھا جہاں تینوں مل کر بچیوں کو معاشرے کی شعوری تعلیم دے رہی تھیں۔ اس طرح ایک دردناک واقعہ کے بعد اسلام کی تین شہزادیوں نے مل باقی معصوم بیٹیوں محفوظ کرنے کا ذمہ لیا تاکہ آنے والے وقت میں ہر بیٹی شعور رکھتی ہو اور کسی جانور کی ہوس کا شکار نہ ہوں۔ آج ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کو اذیت دی جاتی ہے ان پر ڈھیروں الزام لگاۓ جاتے ہیں۔ مگر افسوس انکو حقوق فراہم نہیں کیے جاتے۔ اعلی افسران، سیاست دان اور سبھی دانی لڑکیوں کی عزت کے تحفظ کیلئے اب تک کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھا سکے۔ ایک ایسا قدم جو عبرت بنے اس سے مرد حضرات سبق سیکھ کر بیٹیوں کو محفوظ کرسکیں۔

*********************

Comments