Naqli mohaziz by Malik Aslam Hamsheera


”نقلی معّزز“
تحریر ملک اسلم ہمشیرا
آج میں آپکو ملواتا ہوں معاشرے کے ایک ”ناسور“ سے ،ناسور اس لیے لکھا ھے کہ اگر خالی ”سور “ لکھوں تو بات گالیوں سے ھوتی ھوٸ ھاتھا پاٸی اور ہاتھا پاٸ سے گزر کر مارا ماری تک پہنچ سکتی ھے، تو جناب اس
 نا سور صاحب سے میری ملاقات حادثاتی ہوٸ ،حادثاتی اس لیے کہ اگر میرے موٹر ساٸیکل کی بریک نہ لگتی تو یقیناً حادثہ پیش آ ہی جانا تھا، کیونکہ موصوف میری سست ڈراٸیونگ کو دیکھتے ھوٸے ”چڈے پاڑ“کر میرے بھمبو موٹر ساٸیکل کے آگے کھڑے ھو گٸے تھے،حالانکہ میرے موٹر ساٸیکل کی بریک روہی ایکسپریس کی طرح رُکنے کیلیے ایک کلومیٹر کا فاصلہ لیتی ھے اس سے پہلے رُک جانا، ٹاٸر کے آگے کسی سلوٹے شلوٹے کے احتجاجی مظاھرے کے وقت ھوتا ھے ،المختصر آپ یوں سمجھ لیں کہ میرا موٹر ساٸیکل پیٹرول ،موبلآٸل کے علاوہ آیةالکُرسی سے چلتا ھے
 اس دِن بھی اس” ناسور“ صاحب کو ایک ایکڑ تک ساتھ گھسیٹتے ہوٸےمیرے موٹر ساٸیکل کا رُک جانا بھی ان مولانا ناسور کی کرامات کے زمرے میں آتا ھے
 تو جناب جیسے ہی میں رُکا موصوف نے اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ کہہ کر ایک چھوٹی سی آیت تلاوت کی اور اس کے بعد وہ بلا تمہیںد اپنی بلی کو تھیلےسے باہر نکالتے ھوٸے دست بستہ وہ کہانی سناٸی کہ میرے ساتھ ساتھ جنگل پہاڑ،چرند پرند حجر،شجر سب رونے لگے ،اورتواور ساتھ بہتی عباسیہ نہر اس کے اشکوں کی تاب نہ لاتے ھوٸے نالہ لٸی کی طرح ٹھاٹھیں مارنے لگی، ٠٠٠٠موصوف کا اعتماد اور ابتداٸیہ اور متاثر کُن لیکچر سن کر مجھے ایک دم خیال آیاکہ” اے ای او کی ماہانہ مینٹورنگ والے دن ماڈل لیسن کیلیے اپنی جگہ اِسے ھی بُلوا لیا کروں،
 بہتر ھوگا اِن ناسور صاحب کی کہانی تھوڑی سی آپ کے گوش و گزار کرا دوں تاکہ معاملے کی سنگینی کا آپ کو بھی احساس ھو سکے
 یہ موصوف الہ آباد سے سید جلال کی دربار پر پیادہ پا فاتحہ خوانی پڑھنے کیلیے تشریف لاٸے تھے کہ ایک مجزوب نے ان کی جیب کی فاتحہ خوانی پڑھ دی،اور تمام مال غنیمت بطور تبرک ساتھ لے گیا، لہذا صبح سے لے کر اب تک روزے کی حالت میں تھے،آنتیں بھوک سے قل ھو وللہ پڑھ رھیں تھیں،واپسی کا کرایہ بھی نہیں تھا،جناب باریش بھی تھے ،حاجیوں والا لال تنکوں والا رومال اور نیچے ویسکوٹ بند جوتی اور گھڑی سے ایک معزز انسان لگ رھے تھے،اوپر سے مانگتے ہوٸے ہچکچاھٹ اس بات کی غمازی کر رھی تھی کہ جناب درد و الم سے لبریز اور مجبوری کے اعلی مرتبے پر پہنچی ھوٸ ھستی ھیں،اوچ سول سوساٸٹی کو دیکھ کر آجکل مجھے بھی خدمتِ خلق کا بخار چڑھا ھوا تھا ،سو کھانا بھی کھلایا اور یک صد روپیہ سکہ راٸج الوقت جس کا نصف پچاس روپیہ بنتا ھے دے کر اس کو ایسے روانہ کیا جیسے یہ ابھی جا کر فوراً میرے لیے جنت کا ٹکٹ بزریعہ tcsبھجوا دے گا
اگلے دِن صبح میں سکول کی جانب رواں دواں تھا کہ عجوبہ پُل جہاں ماویش درویش دفن ھے وھاں کھڑا ایک انٹر نیشنل تعلیمی اسلامی یونیورسٹی بنوانے کا عزم لیے ھر ٹرک والے سے چندہ مانگ رھا تھا،مجھے دیکھتے ہی وہ میری طرف لپکا اور کیونکہ میں نے سردی کی وجہ سے ھیلمٹ پہنا ھوا تھا چنانچہ وہ ناسور صاحب ایک نٸ کہانی کی ایک نٸ نویلی قسط اور پوری باڈی لینگوٸج کے ساتھ پر اثر ماڈل لیسن شروع کر چکے تھے ،جیسے ھی وہ موصوف اس شعر تک پہنچے
”کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر٠٠٠
خدا شاد ھوگا عرشِ بریں پر٠٠٠٠
پھرمیں نے جیب میں ھاتھ ڈالا مگر اب کی بار جب میرا ھاتھ باھر نکلا تو سو کے نوٹ کی جگہ میرا سام سنگ کا تھکڑ موباٸل تھا ،وہ موصوف بھی اس معاملے میں گھاگ تھا وہ میرا ارادہ بھانپ چکا تھا سو اس نے منہ شریف کو عربی رومال میں چھپانے کی کوشیش کی مگر میں نے جلدی جلدی کیمرے سے کڑچ کڑچ شروع کر دی تاکہ معاشرے کے اس ناسور کی شان میں ایک کالم لکھ سکوں.
**************

Comments