میڈیا کو لگام دو
کہنے کو تو میڈیا دورِحاضر کی بہت بڑی ضرورت ہے۔جسکی بدولت نہ صرف انسان اپنے ملک بلکہ پوری دنیا کے تمام معاملات سے باخبر رہتا ہے۔میڈیا سے وابسطہ تمام لوگ اپنے فرائض کی انجام دہی میں بہت مشغول ہیں اور اپنے ملک کو باخبر رکھنے کیلئے مختلف طریقے اپناتے ہیں۔ اسی سلسلے میں ہر ایک صحافی ایک دوسرے سے بڑھ کر اپنے چینل یا اپنے پروگرام کو چار چاند لگانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے جو کہ ان کے کام کی ضرورت بھی ہے۔ مانا کہ بہت سے پروگرام ایسے ہیں جن کے میزبان اپنی صحافتی صلاحیتوں کا بہت خوبصورتی اور ایمانداری سے استعمال کر رہے ہیں لیکن افسوس کہ کچھ عناصر نے اسکا غلط استعمال کرنا شروع کر دیا ہے ۔ جن کا مقصد صرف اپنے پروگرامز کو بڑہاوا دینا ہے اور کچھ نہیں اور ان پروگرامز نے تمام چینلز پہ ایک طوفانِ بدتمیزی برپا کر رکھا ہے جسکی وجہ سے عوام کی اصلاح ہونے کی بجائے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔ آپ انٹرٹینمنٹ چینلز کو دیکھیں تو وہاں مارننگ شوز کہ نام سے فحاشی و عریانی کا دور دوراں ہے چھوٹے بچوں کو نازیبا لباس پہنا کر ان کے ڈانس مقابلے کروائے جاتے ہیں ماڈلز اور اداکارائیں اپنی ذاتی زندگی کی سکرپٹڈ کہانیاں سناتی ہیں انہی شوز میں کھیلوں کی شکل میں آئے ہوئے مہمانوں کی تذلیل کی جاتی ہے اور اسی وجہ سے بہت سی لڑائیاں بھی منظرِ عام پر آتی رہی ہیں ۔ اور جب یہ ساری واحیاتی کو دیکھ کر عمران جیسے کچھ کم ظرف اور ناعاقبت اندیش لوگ اپنا ضبط کھو بیٹھتے ہیں تو پھر قصور کی سڑٖکوں پر زینب جیسی کم سن رول دی جاتی ہے۔ اور پھر انہی پروگرامز میں چیخ چیخ کر زینب کے لیئے انصاف مانگا جاتا ہے فحاشی اورعریانی سے پیدا ہونے والی معاشرتی برائیوں کا درس دیا جاتا ہے یہ کیسا دوہرا معیار ہے؟؟؟ اور اگر کوئی انکی اس واحیاتی پر پابندی عائد کرنے کیلئے آواز اُٹھاتا ہے تو اسے تنگ نظرہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے اسکی ذاتی زندگی پر کیچڑ اُچھالا جاتا ہے تاکہ وہ آئندہ سے اس برائی کے خلاف آواز نہ اُٹھا سکے۔ اب دوسری طرف آپ نیوز چینلز ز پر نظر دوڑائیں تو آپکو ایک الگ ہی دنیا نظر آئے گی آپ جس چینل کو بھی دیکھیں گے وہی ملک کا نمبر ون چینل ہونے کا دعویٗ کرتا دکھائی دے گا۔ ہر چینل اپنی اپنی پسندیدہ بلکہ یوں کہوں کہ اپنی اپنی سپانسر سیاسی پارٹیوں کی عکاسی کرتا دکھائی دے گا جس وجہ سے ایک خاندان کے لوگ اپنے گھر میں بیٹھ کر ایک ہی ٹی ۔وی پر ایک ہی چینل نہیں دیکھ سکتے اور دوسری طرف بچاری عوام بھی اپنے بنیادی ایشوز کی بجائے سیاست پر تبصرہ کرتی دکھائی دے گی اور ان تبصروں کا اختتام اکثر لڑائیوں پر ہی ہوتا ہے اور پھر ہر چینل آپکو محبِ وطن ،وطن پرست نظر آئے گا اور ان کے ٹاک شوز میں بیٹھے صحافی خود کودنیا کا سب سے پڑا لکھا ، قانون کا پاسدار ، عقلمند اور ایک مکلمل انسان ہونے کا دعویٗ کرتا دکھائی دے گا کہ جس کی زندگی میں برائی کا نام دور دور تک نہیں ہے لیکن اس کے ملک کا ہر باشندہ حتیٗ کہ حکومتی ارکان بھی اسکی نظر میں بیوقوف اور لاشعورہیں۔ یہ صحافی حضرات اپنے شوز میں تمام سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں کو بلوا کر انکی پتلون اتارتے ہیں اور انکی آپس میں لڑائی کروا کے خود آرام سے بیٹھ کے انکی لٖڑائی سے محفوظ ہوتے ہیں اور جب یہ سیاسی لوگ اپنے ضبط کھوتے ہیں تو بات ہاتھا پائی تک جا پہنچتی ہے اور پھر نعیم الحق دانیال عزیز کو تھپڑ مارتا نظر آتا ہے۔ لیکن افسوس کہ بیچارے سیاست دان میڈیا سے لاکھ اختلاف ہونے کے باوجود بھی اس کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بول سکتے کیونکہ اگر انہوں نے کچھ کہہ دیا تو ان کے منفی پہلوؤں کو خبروں کی زینت بنا کہ انکی سیاسی ساکھ کو کمزور کیا جاتاہے۔ معذرت کے ساتھاپنی ادنیٗ سی رائے پیش کرتا ہوں کہ آج کا صحافی بجائے معاشرے کی اصلاح کرے وہ معاشرے میں بگاڑ پیدا کر رہا ہے میری حکومتِ وقت سے درخواست ہے کہ مہربانی فرما کہ اس طرف بھی دھیان دیا جائے۔ تاکہ اس ملک میں یہ بگاڑ ختم ہو سکے ۔اسی طرح کسی دن سوشل میڈیا کے نقصانات پر بھی لکھنے کی جسارت کروں گا۔ انشا اللہ
Comments
Post a Comment