۔۔۔۔۔۔جہیز۔۔۔۔۔۔۔
آج
کل ہمارے معاشرے کے اندر جن بے ہودہ، بیکار اور گھٹیا ترین رسم و رواج نے اپنا قبضہ
جمایا ہوا ہے ان میں ایک نہایت بری، بے ہودہ اور قبیح رسم "جہیز" کی ہے۔
یہ وہ غلیظ ترین رسم ہے جس کی وجہ سے اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں
ہر تیسرے سے چوتھے گھر میں شادی کے لائق ایک بچی بیٹھی ہوئی ہے۔ اس حساب سے اگر ہم
پاکستان کی موجودہ آبادی کو سامنے رکھ کر محتاط اندازہ لگائیں تو یہ تعداد ایک کروڑ
کے لگ بھگ جا نکلتی ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے کہ شادی کی عمر ہونے کے باوجود بھی لڑکیاں
ابھی تک کنواری بیٹھی ہیں اور وہ بھی اتنی بڑی تعداد میں تو اس میں سب سے بڑا مسئلہ
جہیز کا ہی سامنے آتا ہے۔
یہ
وہ لعنت ہے جس کی وجہ سے کئی کلیاں، پھول بنے بغیر ہی مرجھا گئیں۔ یہ وہ رسم ہے کہ
جس کی وجہ سے ہزاروں حسین سپنے تعبیر بننے سے پہلے ہی ٹوٹ گئے۔ یہ وہ غلط روایت ہے
جس کی وجہ سے ہزاروں معصوم دلوں میں ارمانوں کی ٹوٹی کرچیاں برچھی بن کر پیوست ہوئیں۔
اس
بیہودہ رسم کی وجہ سے کتنے ماں باپ کسی کے سامنے سر اٹھا کر چلنے کے قابل نہیں رہے۔
کتنے بھائیوں نے اپنی بہنوں کی سسکیوں کو برداشت نہ کر سکنے پر اپنی زندگیوں کے چراغ
خود گل کر دیے۔ ہزاروں معصوم بچیاں لوگوں کے طعنے سن کر ایک نارمل انسان سے نفسیاتی
مریض میں بدل گئیں۔
آخر
اس کی وجہ کیا ہے کہ انتہائی قبیح رسم ہونے کے باوجود یہ معاشرے میں نہایت تیزی سے
پھیلتی جا رہی ہے۔
اس کی وجہ ہمارا دن بدن بڑھتا ہوا
لالچ اور طمع ہے۔
تاریخ
کے کچھ صفحات پیچھے کی طرف الٹیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ کچھ عرصہ قبل مسلمانوں میں
یہ گھناؤنی عادات عنقاء تھی۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب ہم لوگ اپنی دینی روایات کو سینے
سے لگائے ہوئے تھے۔
اس
طرح کا منہ مانگے جہیز اصل میں برصغیر میں بسنے والے ہندوئوں کا وطیرہ تھا جس کو اب
ہم مسلمانوں نے بھی اپنے سماج کا لازمی حصہ بنا لیا ہے۔
ہم
جہیز کا منہ پھاڑ کر مطالبہ کرتے وقت یہ بات کیوں ہو جاتے ہیں کہ دنیا کے سب سے بڑے
انسان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی بیٹی کی شادی کی تھی۔ یہ وہ ہستی تھی
کہ جو دعا کرتے تو احد پہاڑ بھی سونے کا بن جاتا اور اپنی بیٹی کو جہیز میں وہ پہاڑ
دے دیتے۔ مگر کیا دیا۔ ایک آٹا پیسنے والی چکی، پانی کیلئے ایک برتن۔ مگر نعوذباللہ
کیا ہم ان سے بھی عظیم ہوگے جو ٹرکوں کے حساب سے جہیز کا مطالبہ شروع کردیتے ہیں۔
ہماری
کتنی معصوم بہنیں اور بیٹیاں ایک بار دلہن بننے کا خواب دل میں لیے قبروں میں جا سوئیں۔
کتنی
معصوم کلیوں کی جہیز نہ ہونے کی وجہ سے ڈولی نہ اٹھی مگر جنازے اٹھ گئے۔
ان
معصوم کلیوں کا خون کس کے سر پر ہے۔ جو بچیاں اس وقت کنواری بیٹھی ہیں وہ اپنے ارمانوں
کا خون کس کے ہاتھ پر تلاش کریں۔ اپنے ماں باپ کے ہاتھ پر جو انکیلیے جہیز اکٹھا نہ
کر سکے یا اس بھائی کے ہاتھ پر جو جان توڑ کر محنت کرنے کے بعد بھی ٹرک بھر کر جہیز
کے پیسے نہ اکٹھے کر پایا یا پھر ان لوگوں کے ہاتھوں پر جو فرعونی لہجے میں ٹرک بھر
کر جہیز کی مانگ کرتے ہیں۔
یہاں
پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ آیا اس کی کوئی روک تھام ہو سکتی ہے تو اس کا جواب ہے کہ بالکل
ہو سکتی ہے مگر اس کے لئے ہمیں چند درج ذیل اقدامات کرنے ہوں گے۔
سب
سے پہلے اپنی سوچ کو تبدیل کرنا ہوگا اور لڑکی کے جہیز پر نظر رکھنے کی بجائے اپنے
زور بازو پر بھروسہ کرنا ہوگا۔
جہیز
مانگنے والے عناصر کی حوصلہ شکنی کی جائے اور ان کو معاشرے میں بے نقاب کرکے انکا سماجی
بائیکاٹ کیا جائے۔
حکومتی
سطح پر اس سلسلے میں مناسب قانون سازی کی جائے اور ان قوانین پر فی الفور عملدرآمد
کرایا جائے۔
اپنی
جاہلانہ رسومات کا خاتمہ کرکے اپنی زندگی کو اسلام کے دائرے میں لایا جائے۔
جی
نوجوانوں کے رشتے ہو رہے ہیں یا ہونے والے ہیں وہ اپنے بڑوں سے کہہ کر اس لعنتی رسم
کو ختم کروائیں اور لڑکی کو دو کپڑوں میں اپنے گھر جانے کا حوصلہ پیدا کریں۔
آج
کل سوشل میڈیا ایک بہت اچھا پلیٹ فارم ہے۔ اس پر بھرپور انداز میں مہم چلا کر لوگوں
کی ذہن سازی کی جائے۔
سکول،
کالج اور یونیورسٹی کے اندر اسلامی تعلیمات کو فروغ دیا جائے۔
اور
سب سے خاص بات ھے کہ جو لوگ خود منہ پھاڑ کر جہیز کا مطالبہ کرتے ہیں انہیں اس وقت
اپنی بچی کو بھی اس کی جگہ پر رکھ کر سوچنا چاہیے کہ کل اس طرح کا وقت انکی بچی پر
بھی آسکتا ہے۔
جو
لوگ استطاعت ہونے کی وجہ سے اتنا جہیز آسانی سے دے سکتے ہیں وہ بھی میانہ روی اختیار
کریں تاکہ ان کی طرف دیکھ کر کسی غریب کے دل میں حسرت نہ جاگے۔
اگر
ہم یہ سب اقدامات کر لیں تو میرا خیال ہے معاشرے کے اندر ایک مثبت بدلائو لایا جاسکتا
ہے جس کے بعد اس معاشرے میں معصوم کلیوں کے ارمانوں کے لاشے اٹھنے ختم نہیں ہوں گے
تب بھی بہت کم ضرور ہو جائیں گے۔
اللہ
پاک عمل کی توفیق دیں
ازقلم:- محمد عمران اشرف
Comments
Post a Comment