Husn kachy garhy ka shedai by Muhammad Arsalan

افسانہ:  حسن کچے کھڑے کا شیدائی
ازقلم: محمد ارسلان
"منظور منظور!
اٹھیں باہر کتوں کا شور ہے اللہ جانے آدھی رات کو گیدڑ آئے ہیں یا چور، میں شمائلہ کو آواز دے رہی ہوں وہ اپنے کمرے سے کوئی جواب نہیں دے رہی اللہ سے دعا ہے میری بیٹی محفوظ رہے" سکینہ قریب سوئے شوہر کو آواز دے رہی تھی ۔
   منظور تھکاوٹ سے نڈھال تھا نیند میں بُڑ بُڑاتے واپس سوگیا۔  ٹھنڈی ہوا کے جھونکے سردی میں اضافہ کر رہے تھے جنوری کا آخری عشرہ عروج پر تھا۔  شمائلہ خدا سے رو رو کر دعا کر رہی تھی "اے اللہ پاک میرے لاچار ابا کی عزت کی حفاظت فرما...... قریب آدھے گھنٹے سے وہ دعا میں گم سم تھی۔ اس کے کمرے کی ٹوٹی پھوٹی کھڑکی سے صفدر(چکدار کا بیٹا) آواز دے رہا تھا کہ " شمائلہ دروازہ کھول دو دیکھو باہر سخت سردی ہے اور میں تمہارے لیے سوٹ  ،مٹھائی اور جاۓ نماز بھی لایا ہوں" شمائلہ اس کے ناپاک ارادوں سے واقف ہوچکی تھی دو دن قبل ہی اسے قریبی پنڈ کی عاصیہ آگاہ کر گئی تھیں کہ کیسے صفدر اب تک آنے والے مجبور نوکروں کی بیٹیوں کو اذیت دے چکا ہے۔ "سوٹ اور مٹھائی" صفدر اپنی مرضی سے لایا تھا۔ مگر "جائے نماز" شمائلہ کی مرضی تھی۔ کیونکہ کچھ دن پہلے جب صفدر اسکو مجبور کر رہا تھا کہ تمہارے لیے کیا لاؤں تو شمائلہ نے روتےہوۓ کہا تھا "صفدر بھائی مجھے جاۓنماز چاہیئے  بھائی ہمارے گھر میں ہم سب چادر بچھا کر نماز پڑھتے ہیں" صفدر لگاتار ہلکی ہلکی آواز دے رہا تھا دوسری طرف منظور کا باوفا کتا صفدر کو رکنے کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔ آخر ڈیڈھ گھنٹہ ناکام کوشش کے بعد صبح صادق صفدر دوبارہ آپہنچا مگر اس بار اس نے منظور چچا کو آواز دی۔ منظور چچا نماز پڑھنے کی بجاۓ آواز سن کر باہر آۓ۔ صفدر نے جلدی سے بغیر سلام کیے کہا "چچا جلدی جاؤ "ابا جان" بلا رہے ہیں " ..... پندرہ منٹ بعد منظور  چکدار سے مل کر نہر کو کوچ کر رہا تھا ادھر صفدر شاید پوری شب سویا نہیں تھا اور دماغ میں غلیظ ارادہ رکھے منظور چچا کے گھر میں داخل ہوگیا جہاں شمائلہ حسب معمول بےفکر ہوکر کچے کمرے میں ناشتہ بنانے میں مشغول تھی۔ اسی کمرے کے ایک حصے میں جانور بھی بندھے ہوۓ تھے۔ صفدر داخل ہوتے ہی بولا: تمہیں ذرا ترس نہیں آیا مجھ پر پوری رات سردی میں رہا اور ساتھ تمہارے لیے یہ تحفے لایا ہوں۔ شمائلہ کی طرف بڑھا دیئے۔..... شمائلہ نے بغیر دیکھے کہا "مجھے تم سے کوئی غرض نہیں .... چکدار ہو تو کیا ہوا خدا نہیں ہو ہم محنت کش لوگ ہیں عزت کا رزق کھاتے ہیں .... اتنے میں سکینہ کمرے میں  داخل ہوئیں صفدر کو وہاں دیکھ کر حیران رہ گئیں وجہ پوچھی تو صفدر نے بغیر خوف کے کہہ دیا کہ "چچی جی" یہ کچھ چیزیں لایا ہوں مگر شمائلہ انکار کررہی ہے۔ سکینہ نے صبر سے جواب دیتے ہوۓ کہا بیٹا صفدر! یہ بات کسی اعتبار سے ہضم نہیں ہوتی تم یہ سب واپس لے جاؤ میری بیٹی نے سولہ آنے ٹھیک کیاہے ..... رات والے ماجرے کی حقیقت سےسکینہ  بےخبر تھی ادھر شمائلہ اپنے اللہ سے گفتگو کرنے میں مصروف تھی وہ اپنے آبائی علاقے "حاصل پور" میں کلام پاک ناظرہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ سورہ یٰس سمیت متعدد آیات حفظ کر رکھی تھیں ۔ دنیاوی تعلیم بےشک نہ ملی تھی مگر اخلاقی ،معاشرتی اور دینی تعلیم جتنی اس کے حصے میں ملی اس پر عمل پیرا تھی......... سکینہ بی بی کے منع کرنے کے باوجود صفدر اپنی ضد پر آڑا رہا۔ اسی کشمکش میں صفدر تمام چیزیں زبردستی چھوڑ گیا ....... قریب آٹھ بجے منظور واپس آیا تو کافی تھک چکا تھا کیونکہ اس کے گھر اور چکدار کے ڈیرے کا فاصلہ 25 ایکڑ تھا۔ نہر تقریباً 3 کلومیٹر دور تھی چولستان کا علاقہ میدانی ہے جہاں سردی کے ساتھ ساتھ گرمی بھی کثیر مقدار میں پڑتی ہے منظور سارا سفر پیدل کرکے کے تھک چکا تھا....... ناشتہ کرنے کے بعد منظور نے اپنی شال رکھنے کی غرض سے کمرے میں گیا تو وہاں صفدر کے سامان کی تھیلی ویسے بند پڑی تھی جسے وہ چھوڑ گیا تھا۔ شمائلہ برتن دھو رہی تھی سکینہ جانوروں کی دیکھ بھال کیلئے حویلی کے بار گئی ہوئی تھیں....... شمائلہ،سکینہ اس تھیلی میں کیا چیز ہے؟؟؟؟؟ منظور صحن میں آتے ہوۓ آواز لگاتاہے .... ابو جان! یہ صفدر رکھ گیا ہے امی کے منع کرنے کے باوجود زبردستی دےگیا۔ ....... منظور سوچ میں پڑ گیا ...... شمائلہ اٹھی پریشانی کی حالت میں اللہ سے رجوع کرنےکیلئے  چادر بجھاکر نفل پڑھنے لگی .... سجدے میں روتے روتے دو گھنٹے بیت گۓ خبر تک نہ ہوئی ..... سکینہ اور منظور دونوں میاں بیوی پڑوس والے پنڈ میں "اللہ ڈتا" کے گھر عیادت کیلئے چلے گئے ....... دور پگڈنڈی پر انھیں صفدر نے جاتے دیکھ لیا ...... شمائلہ والدین کی اکلوتی اولاد اور انتہائی فرمانبردار تھی....... ایسی اولاد کی طلب تمام والدین رکھتے ہیں....... شمائلہ دھوپ میں چارپائی بچھا کر لیٹنے لگی تھی کہ قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ یہ قدم امی ابو کے نہیں ہوسکتے شمائلہ نے دل میں سوچا..... چند لمحوں بعد صفدر اس کے سامنے تھا..... صفدر جو کافی حربے آزما چکا تھا آج وہ ایک نیا روپ لے کر آیا تھا جس سے شمائلہ بےخبر تھی .... شمائلہ سادگی کے باوجود بہت حسین اور اعلی سیرت کی مالک تھی ... چک کے کئی لڑکے ایک سال کے دوران اسے تنگ کرچکے تھے ... شمائلہ نے کبھی کسی کو انگلی اٹھانے کاموقع نہ دیا تھا... کھیتوں میں ماں بیٹی جب کام کرتیں تو اکثر شمائلہ اکیلی ہوتی تھی۔ اس بات کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کئی آوارہ بدکردار کرچکے تھے ...... کریم زات اپنے پیاروں کی حفاظت خود فرماتے ہیں......
صفدر بغیر کوئی بات کیے زمین پر نظر جھکا کر بیٹھ گیا۔ ناجانے کیسے جھوٹے آنسو نکال لیے اور شمائلہ کے سامنے جھوٹی داستان بیان کرکے اہنی الفت کا یقین دلانے کی کوشش کی...... شمائلہ کافی دیر چپ سہمی بیٹھی  رہی.... صفدر لگاتار بولتارہا.... تنگ آکر شمائلہ نے خاموشی توڑتے ہی اولے کی طرح برسنا شروع ہوگئی .... شمائلہ : اوّل تو میں کوئی حسین نہیں ، تم امیر میں غریب،تو مجھے جھوٹے خواب نہ دیکھاؤ اور نہ میں دیکھناچاہتی ہوں، خدا کا واسطہ مجھے پریشان کرنا چھوڑ دو۔ ہم کچھ عرصے کے تمہارے چک میں مہمان ہیں چین سے رہنے دو ہم غریب بدنامی کا داغ نہیں برداشت سکتے....... شمائلہ سسکیاں لیتی چہرا دوپٹے میں چپانے کی کوشش کررہی تھی ..... سامنے کلہاڑی پڑی تھی جسے صفدر نے اٹھایا اور فیصلہ کن بات کہی کہ 4 ماہ سے تمہیں یقین دلانے کوشش کررہا ہوں آج میں خود سے تمہیں نجات دلاتاہوں۔ میں خود کو ختم کرنے لگا ہوں۔ ایک احسان کرنا مجھے اپنے ہاتھوں سے دفن کردینا....... شمائلہ یہ سب سن کر گھبرا گئی ۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں.....  موجودہ حالت کو سنبھالنے کیلئے اس نے صفدر کے منت سماجت شروع کردی کہ اللہ کے واسطے یہ عزاب ہمارے اوپر مت ڈالو....... صفدر بےمروت اور بےحس انسان اسے صرف حسن کی ضرورت تھی ناپاک ارادے کو مزید پختہ کرنے کیلئے وہ کس قدر گر جاۓ گا کوئی سوچ بھی نہیں سکے گا..... مختصر صفدر نے شرط رکھ تھی کہ میری محبت تسلیم کرو یا مجھے مرتا دیکھو۔ شمائلہ واقف تھی کہ محبت میں شرائط یا معاہدے قابل قبول نہیں ........ دل رکھنے کیلئے اس نے ہاں تو کردی مگر کتنی بڑی مصیبت کو مول لے چکی تھی اسے شاید تصور کرنے سے بھی دل کا دورہ پڑجاتا۔ دوپہر 3 بجے شمائلہ کے والدین واپس آگۓ کانو کان کسی کو خبر نہ ہوئی کہ دوپہر کو گھر میں کیا ہوا ہے۔ صفدر شمائلہ کا دل جتنے کیلئے اکثر پگڈنڈی پر نماز یا تسبیح پڑھنے بیٹھ جاتا...... جس کا دل پاک ہو شاید وہ سبھی کو اچھا تصور کرتا ہے ، اچھائی تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ شمائلہ کو صفدر میں ظاہری تبدیلی محسوس ہو رہی تھی۔ دل کا راز تو اللہ پاک جانتے ہیں ۔ وہ معصوم دل میں اکثر سوچتی کہ 2 ماہ سے صفدر کی کوئی شکایت نہیں آئی اب کبھی گھر آکر تنگ بھی نہیں کرتا بلکہ کبھی آجاۓ تو ادب سے سلام کرتا ہے شمائلہ صفدر سے عمر کے اعتبار 15 سال چھوٹی تھی ، جون کی گرمی میں ایک دن شمائلہ کپاس کے کھیت سے گھاس لارہی رہی تھی شدید گرمی کے باعث پسینہ ماتھے پر چمک رہا تھا ہانپتی ہوئی جب کھالے پر پہنچی تو صفدر منظور کے ساتھ کھڑا باتیں کررہا تھا۔ شمائلہ کو سامنے آتے دیکھ کر اس نے تیزی اپنے ہاتھ بڑھاۓ کہ گھاس مجھے دےدو میں پہنچا دوں۔ ابو کے اصرار پر شمائلہ نے گھاس دے دیا۔ کچھ ہفتوں سے منظور سے بھی صفدر کا رویہ محبت بھرا تھا اس وجہ سے وہ الجھن میں بھی تھا...... دن گزرتے رہے کہ ستمبر کا مہینہ آیا صفدر سیکنہ کو منانے لگا چچی جی یہ کچھ تحفے لایا ہوں۔ قبول کریں۔ زیادہ اصرار کے بعد وہ یہ سب لینے پر مجبور ہوگئیں۔ دوسری طرف وہ شمائلہ کے دل میں جگہ بنا چکا تھا۔ نومبر میں شمائلہ اپنے امی ابو کے ساتھ "حاصل پور" ہمیشہ کیلئے واپس جانے تھی وہ جانتی کہ اس کی محبت پاکیزہ ہے کبھی ماں باپ کی عظمت قربان نہیں کرےگی...... 15 اکتوبر کی شب صفدر نے ایک بار پھر شمائلہ کو کھڑی سے آواز دی ...... اس بار تو وہ اسکی محبت میں گرفتار تھی .... ارادے تو پاک تھے شمائلہ کے اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ صفدر کی عبادت ریاضت اور تمام تر اچھائی جھوٹی ہے۔ شمائلہ نے اسکی پہلی آواز پر دروازہ تو کھول دیا مگر واپس پلٹ جانے کی درخواست کی...... آج کی رات بھیانک ثابت ہوگی یہ تصور ہی نہیں کیا تھا۔ قریب جاتے ہی شمائلہ چیخی: صفدر تم نے شراب پی رکھی ہے خدا کیلئے یہاں سے چلے جاؤ ۔ صفدر ناپاک افعال کی التجا کرنے لگا شمائلہ کانپنے لگی خود پر شرمندگی محسوس ہونے لگی کہ کیسے اس کی جھوٹی محبت پر یقین کرلیا۔ جب عاصیہ کو سمجھا چکی تھی کہ یہ شخص کئی بیٹیوں کی زندگی جہنم بنا چکا ہے۔ صفدر ہرحال میں ناپاک ارادہ پورا کرنے کی کوشش کرنے لگا تو شمائلہ نے منہ پر ایک تھپڑ رسید کیا اور ابو کے کمرے کی طرف لپکی۔ منظور اس وقت شاید گھر سے باہر تھا اس لیے کمرے کی کنڈی کھلی تھی۔ شمائلہ کے دل میں یہ خوف بھی تھا کہ جب ماں باپ کو پتا چلے گا کہ میں نے خود دروازہ کھولا تھا تو وہ اسی وقت شرم کے مارے ڈوب جائیں گے۔ کمرے میں اندھیرا تھا تو ایک کونے میں جاکر چھپنے کوشش کرنے لگی۔ صفدر گھبراہٹ میں گھر کو بھاگا۔ راستے میں منظور نے اسے دیکھا تو اس نے روک کر پوچھنے کی کوشش کی۔  کوشش ناکام ہوئی۔ منظور آتے ہی سو گیا۔ ساری رات شمائلہ اسی کونے میں بیٹھی روتی رہی۔ فجر کی اذان ہوئی وہ اٹھی اور وضو کے بعد اللہ سے شکایت کرنے بیٹھ گئی کہ اے اللہ مجھے کس بات کی سزا مل رہی ہے۔ میری مشکل آسان کر میری دعا قبول فرما میرے مولا....... آج کا سورج نیا پیغام لایا تھا اسکی محبت کانچ کی طرح ٹوٹنے والی تھی جس محبت کا مان رکھ کر اس نے رات والا منظر سینے میں دبایا تھا اسکا مثبت صلہ نہ ملا ..... کچے کمرے میں شمائلہ امی ابو کے ساتھ ناشتہ کررہی تھی کہ صفدر بغیر اجازت کمرے میں آیا آتے ہی منظور سے اسکی بیٹی کا ہاتھ مانگا۔ حکم دینے لگا اسکو تیار کرو 10 بجے نکاح پڑھایا جائے گا۔ شمائلہ جس کے دل میں آگ جل رہی تھی جس نے تمام عبیوں پر پردہ ڈالا تھا جس نے ساری غلطیاں معاف کرکے اپنی پاکیزہ محبت قربان کی تھی زوردار آواز میں چیخی اے بےغیرت یہاں سے چلا جا ہمیں غریب سمجھ کر کمزور نہ سمجھ...... صفدر مزاق اڑاتے ہوۓ ہنسا اسی لمحے چولہے میں پڑا لوہے کا راڈ اٹھا کر مارا جو اس کے کندھے پر جالگا۔ منظور اور سکینہ حیران پریشان دیکھ رہے تھے۔ صفدر حوس سے کو دباۓ کھڑا تھا باہر سے اس نے اپنے کچھ ساتھیوں کو آواز دیتے ہوۓ کلہاڑی اٹھائی اور وقفے وقفے سے شمائلہ کی کل دولت(ماں باپ) کو قتل کردیا۔ غم کے مارے شمائلہ زمین پر ڈھیر ہوگئی۔ صفدر اور اس کے ساتھی کھڈا کود کر لاشوں کو دفانے لگے۔ جس بات کی امید صفدر کو نہ تھی وہ سب ہوا کیسے شمائلہ صفدر کو اور اس کے ساتھیوں کو چند منٹوں میں قتل کرکے خون و خون کرکے گھر سے فرار ہوگئی۔ آج نہ جانے اس زندگی نے کیا فیصلہ کرنا تھا جب لوگ حویلی کے باہر پہنچے تو شمائلہ پانی کھالے میں گرکر اللہ کو پیاری ہوچکی تھی۔ تمام لاشوں کا پوسٹ مارٹم ہوا تو پتا چلا کہ شمائلہ کو دل کا شدید دورہ پڑنے کے باعث موت وقع ہوئی تھی۔ آج حسن اور کچا گھڑا دونوں خالق حقیقی سے جاملے تھے۔ یہ حسن کچے گھڑے کا شیدائی تو تھا مگر پاکیزہ محبت کا طالبگار بھی تھا۔ معاشرے میں اکثر عورت کو بہت سے مسائل کا ذمہ دار ٹہرایا جاتا ہے۔ یاد رکھیں معاشرے کو بگڑنے میں مرد کا اہم کردار ہے ۔ کیونکہ معاشرے کا منتظم مرد ہوتا ہے اس لیے تمام مسائل کا ذمہ دار مرد کو ٹھہرانا غلط نہ ہوگا۔
*********************

Comments