Do bol afsana by Saher Kanwal



دو بول  از سحر کنول
کون کہتا ہے موت اور زندگی کی کشمکش صرف ICU کے اندر ہی ہوتی ہے زندگی موت کی کشمکش آئی سی یوکے باہر بھی ہو سکتی ہے اندر موجود انسان کی زندگی کی نوید ان آنکھوں کو حیات بخشتی ہے اور موت کی اطلاع ان آنکھوں کو بھی موت دیتی ہے ایسا ہی ایک منظر اس آئی سی یوکے باہر اور اندر بھی تھا آئی سی یومیں موجود ماں ایسی کے باہر موجود بیٹے کا اس بھری دنیا میں واحد سہارا دوست ماں باپ بھائی عرض ہر رشتہ تھا السی کے بعد کھڑے علی حیدر جو ہمیشہtoper کے نام سے جانا تھا اپنی ماں کی زندگی کے لئے دعائیں منتیں کر رہا تھا icu کا دروازہ کھلنے کی آواز پر علی حیدر نے مڑ کر دیکھا اور ڈاکٹر کی طرف بےبس نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا صاحب میری ماں ٹھیک تو ہو جائے گی دیکھئے ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا ان کا آپریشن کرنا پڑے گا جلد از جلد آپ پیمنٹ جمع کروا دی ڈاکٹر نے پیشہ وارانہ انداز میں جواب دیا جی ڈاکٹر آپ میری ماں کے آپریشن کی تیاری کریں میں پیسے میں پیسوں کا انتظام کرتا ہوں اس نے جواب دیا دیکھئے سر ہمارے ہاسپیٹل کے کچھ اصول اور ضوابط ہیں آپ پہلے فیس جمع کروائی جب بھی ہم ان کو آپریٹ کر سکیں گے امید ہے کہ آپ سمجھ گئے ہونگے یہ کہتے ہیں ڈاکٹر چلا گیا اور وہ بے چارہ پیسوں کے متعلق سوچنے لگا پھر اس سے اپنے تمام دوستوں کو فون کیا لیکن اس کے تمام دوست بھی اتنی بڑی رقم دینے کی حالت میں نہیں تھے اور کوئی امیر دوست بھی نہ تھا اور رشتہ دار تو کوئی تھا ہی نہیں بھلا غریبوں کے بھی رشتہ دار ہوا کرتے ہیں؟ اور دوسرے ذرائع سوچ سوچتے سوچتے وہ ہسپتال سے باہر نکل گیا اور آفس چلا گیا جہاں اس کو نوکری لگے فقط دو ہی مہینے ہوئے تھے بوس کے آفس کے باہر کھڑے ہو کر ایک لمبی سانس لیتے ہوئے اس نے دستک دی یس کم ان: اندر سے ایک مصروف سی آواز سنائی دی دروازے دکھیل کر وہ اندر داخل ہوا آئی اے ای اے جناب یہ آپ کا ہی بزنس امپائر ہے اس نے نہایت غصے اور طنز سے اس کو گھورتے ہوئے کہا سوری سر میری ماں کی طبیعت خراب تھی اس لیے چھٹیاں ہوں گی اس نے اپنی صفائی بیان کی چھٹی کرنے کے طریقے ہوتے ہیں مسٹر حیدر علی جو کہ افسوس کی بات آپ کو معلوم نہیں باس نے گزشتہ لہجے میں ہی جواب دیا جائے اور اگلی دفعہ ایسا نہیں ہونا چاہیے جی شکریہ سر اس نے شکریہ ادا کیا بعض ایک نظر ڈال کر دوبارہ لیپ ٹاپ کی طرف متوجہ ہو گیا اور جب وہ باہر کی طرف نہ نکلا تو اس نے سوال کیا اب کیا؟ سر دراصل میری معاصی و میں ہے مجھے دو لاکھ چاہیے اس نے اپنی پریشانی بیان کی سر میں آپ کو جلد از جلد ہی رقم لوٹا دوں گا میرا سے وعدہ ہے باس نے چشمہ اتار کر ٹیبل پر رکھا اور کرسی سے ٹیک لگاکر اس کو دیکھنے لگے مسٹر حیدر علی ع کو یہاں کام کیے ہوئے دو ماہ بھی بمشکل پورے نہیں ہوئے اور آپ دو لاکھ مانگ رہے ہیں سر نے نہایت غصے سے کہا سر میری والدہ ہسپتال میں ہیں اس سے دکھ سے جواب دیا میری پریشانی سمجھے سر میں نے کب کہا کہ تمہاری والدہ ہسپتال میں نہیں ہے دیکھو یہ کب بنی میری نہیں ہیں میں خود نوکر ہوں پانچ دس ہزار کی بات ہوتی تو میسر آپ کمپنی کے مالکان سے بات کرکے تو دیکھیں اس نے نھایت اس لئے ہوئے لہجے میں کہا سوری حیدر علی میں کچھ نہیں کر سکتاباس نے جواب دیا اب آپ جاسکتے ہیں آفس سے باہر نکل آیا وہ باہر ہلکی ہلکی شام شروع ہو چکی تھی بنا راستے کا تعین کرتے کرتے وہ چلتا رہا اور مسلسل الصرف ماں اور پیسوں کے متعلق سوچتا رہا فون کی گھنٹی نے اس کے قدموں کو روکنے پر مجبور کیا اس نے دیکھا ہسپتال سے فون ہے جلدی جلدی کان سے لگایا سر آپ کی والدہ کی طبیعت خراب ہو رہی ہے کیا آپ نے پیسوں کا انتظام کر لیا دوسری طرف جذبات سے عاری ایک پیشہ ورانہ آواز سنائی دی بس بس پلیز آپ میری ماں کا خیال رکھیں میں کچھ کرتا ہوں میں جلد ہی کچھ کرتا ہوں پلیز بس آپ میری ماں کا خیال رکھیں اس نے التجا کی اور فون بند کردیا فون بند کرتے ہیں وہ سڑک پر ہی بیٹھ گیا اور رونے لگا بے بسی اور مجبوری کی حالت میں وہ کر ہی کیا سکتا تھا اس کے بیٹھنے کو کسی نے بھی محسوس نہیں کیا دنیا رواں دواں ہیں تھی سڑکوں پر کام چل ہی رہے تھے سڑکوں پر لوگوں کی بے حسی پر صرف حیراںھی ہوسکا خدا سے ہی خدا سے ہی گلے شکوے کرنے لگا گا وہ انسانوں سے توکر نہیں سکتاتھا اتنے میں دو بائک سوار آکر اس کے پاس روکے عجیب سی وحشت تھی ان کے چہروں پر ابے او مرنا ہے تو سڑک کے درمیان میں بیٹھ کر مرنا راستہ کیوں روک کر بیٹھا ہے ان میں سے ایک نے کہا دوسرے نے اس کی آنکھوں کے آنسو دیکھ کر اپنے ساتھی کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اس کو چپ رہنے کا اشارہ کیا اور پھر دونوں چلتے ہوئے اس کے پاس آگئے اور اس کے پاس ہی زمین پر بیٹھ گئے کیا ہوا دوسرے والے نے اس سے پوچھا؟ میری ماں ہسپتال میں ہے ڈاکٹروں نے آپریشن کا بول رکھا ہے مجھے دو لاکھ روپے چاہئے میری ماں مر جائے گی پلیز میری مدد کریں اس نے روتے ہوئے ہاتھ جوڑ جوڑ کر ان سے درخواست کی ٹھیک ہے ہم تیری مدد کریں گے لیکن یہاں سے تجھے اٹھنا ہوگا انہوں نے کہا چند منٹوں کے بعد وہ ایک ڈھابے پر موجود تھے پلیز میری مدد کریں مجھے جلد از جلد یہاں پیسے چاہئیں صبح میری ماں کا آپریشن ہے میں آپکو جلدی ہی لوٹا دوں گا میرا آپ سے وعدہ ہے کہ در علی نے دوبارہ ان سے کہا اور ہے حیدر علی نے دوبارہ ان سے کہا ٹھنڈ رکھ بھائی پیسے تجھے آج رات میں ہی مل جائیں گے صبح جاکر ماں کا آپریشن کرا لیا ان میں سے پہلے والے نے اس سے کہا لیکن تجھے ہمارا ایک کام کرنا ہوگا دوسرے والے نے بھی گفتگو میں حصہ لیا کام کیسا کام بولیں اس نے سوال کیا کر سکتا ہے تو دوسرے والے نے کہا جی آپ بولیں میں ہر کام کرسکتا ہوں بس مجھے دو لاکھ روپے چاہیئے ہیں اوپر پہنچانا ہے کسی کو ہنستے ہوئے انہوں نے جواب دیا مطلب؟ اس نے حیرانگی سے سوال کیا؟ ابے مطلب کیا قتل کرنا ہے کسی کا مارنا ہے جان سے پانچ لاکھ روپے ایک جان کے بول منظور ہے یہ سنتے ہی دہشت سے اس کی آنکھیں باہر کو ابلنے لگی وہ حیران کیسے ان کو دیکھنے لگا یہ کیسی بات کر رہے ہیں میں یہ نہیں کر سکتا اس نے نہایت غصے سے جواب دیا ابھی وہ آٹھ ہی رہا تھا کہ اس کا فون دوبارہ سے بول اٹھا ان کو غصے سے دیکھتے ہوئے اس نے فون کان سے لگایا ہیلو مسٹر حیدر علی دوسری طرف سے آواز سنائی دی جی اسپیکنگ اس نے جواب دیا دیکھئے سر اس ہسپتال میں اور بھی بہت سے مریض ہیں اپنے آپ پیسوں کا انتظام نہیں کر سکے تو معذرت کے ساتھ ہمیں آپ کی ماں کا بیڈ خالی کرنا ہوگا آپ جلد از جلد پیسوں کا انتظام کرلیں ورنہ اگر اپنی والوں کو یہاں سے لے جائیں ہم ان کو مزید یہاں نہیں رکھ سکتے sorry کے سنتے ہی فون بند ہو گیا اس نے نہایت بے بسی اور تکلیف سے فون میز پر رکھتے ہوئے ان کو دیکھا وہ اب تک وہیں پر موجود تھے ان دونوں نے بھی سوالی نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا ایک قتل کے پانچ لاکھ؟اس نے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال کیا ہاں انہوں نے سر ہلا کر جواب دیا ایک قتل کے دو لاکھ بھی ہوئے تو بھی چلے گا یہ کہتے ہیں وہ اٹھ گیا اور وہ اس کے پیچھے پیچھے آنے لگے زندگی جب مہنگی ہو جائے تو جانیں سستی ہو جاتی ہیں
 ختم شد

Comments