وقت کے تقاضے
اور ہماری مشکلات
پرانے وقتوں میں انسان کی زندگی بہت سادہ
ہوا کرتی تھی جس میں حضرت انسان کا مقصد صرف پیٹ کو بھرنا ہوتا تھا۔آہستہ آہستہ انسان
اپنی اشرف المخلوقات والی اس عقل کا استعمال کرتا گیا اور ارتقاء کی منازل طے کرتا
گیا۔ کچھ جان پہچان بڑھی انسان نے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہنا سیکھا۔ گروہ بنے اور
گروہ سے انسان نے بستیوں تک کا سفر طے کر لیا۔جب آپس میں تعلقات بڑھے تو انسان کو ایک
دوسرے کے ساتھ رابطہ کرنے اور اپنی خوشی اور غم کی خبریں دوسرے عزیزواقارب تک پہنچانے
کی ضرورت پیش آئی۔شروع میں اس مقصد کے لیے قاصد استعمال ہوئے اور اس کے بعد کبوتروں
کو بھی سدھا کر ان سے یہ کام لیا جاتا رہا۔
مگر انسان کی فطرت ہمیشہ سے جلدباز رہی
ہے اور اپنی اسی جلد بازی کی وجہ سے انسان جنت سے بھی نکل آیا اور یہاں زمین پر بھی
اسی جلد بازی کو خود پر سوار رکھا۔ اسی چکر میں انسان نے جلد از جلد اپنے پیغام دوسروں
تک پہنچانے کے نئے نئے طریقے اختیار کیے۔
بات قاصد سے چلی پھر کبوتر آئے مگر اس
جلدباز کی تسلی نہ ہوئی۔ پھر اسی جلد باز کی حس کی تسکین کی خاطر ڈاک کا نظام مرتب
کیا گیا جو کہ بلاشبہ پیغام رسانی کا بہت مئوثر طریقہ تھا۔ اس کے اندر مزید جدت ٹیلی
گرافی کی شکل میں آئی۔ ان دنوں میں ہمارے ڈاکیے کی بہت اہمیت ہوتی تھی کیونکہ پورے
گاؤں کے خطوط لانا ان کو پڑھنا اور پھر گاؤں والے اپنے جوابات بھی لکھنا اسی کے ذمہ ہوتا تھا۔ اس طرح پورے گاؤں کا
ڈاکیا راز دار ہوتا تھا اور ہندوستان میں گاؤں کے اندر ڈاکیے کی مسلم اہمیت ہوتی تھی۔
پھر آہستہ آہستہ پیغام رسانی کے نظام کو
مزید بہتر بنانے کے لئے تحقیقات کی جاتی رہیں اور آخرکار 1876 میں گراہم بیل نے ٹیلیفون
کی ابتدائی شکل ایجاد کی جس سے پیغام رسانی کا نظام انتہائی تیز ترین صورت اختیار کرگیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں مزید جدتیں
آتی گئیں اور آج کل میسنجر٫ واٹس ایپ٫ ایمو٫ وائیبر اور لائن وغیرہ کی شکل میں موجود
ایپس کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطہ انتہائی آسان اور تیز ترین ہو گیا. دنیا ایک گلوبل
ولیج کی شکل اختیار کرگئی اور انسان زندگی کے ہر معاملے میں انتہائی تیزی سے ترقی کرتا
گیا اور کوئی بھی خبر دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں پہنچنے کے لئے مہینوں کی
بجائے سیکنڈوں کی محتاج رہ گئی۔
بس اپنا فون اٹھائیں ایک بٹن دبائیں اور
دنیا کے جس مرضی کونے میں بات کریں اور جو دل کرے انٹرٹینمنٹ دیکھ لیں یعنی سب کچھ
بس آپ کی انگلی کے ایک اشارے کا محتاج رہ گیا۔
جہاں یہ سب سہولیات تو مل گئیں مگر وہاں
پر ہمارے کچھ مسائل میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور یہ ان سب سہولیات کا تاریک پہلو ہے۔
جہاں پیغام رسانی میں جدت سے دنیا 1 گلوبل
ولیج کی شکل اختیار کرگئی وہیں پر اس ترقی نے ہمارے دلوں میں موجود قربتیں ختم کردیں۔
انسان ظاہری طور پر تو اتنا نزدیک آگیا مگر حقیقی طور پر آپس کے فاصلے بہت بڑھ گے۔
اس کا سب سے دل سوز اور تاریک پہلو فحاشی
اور عریانی میں بے پناہ اضافہ ہے۔ حالیہ ریسرچ کے مطابق انٹرنیٹ پر لفظ سیکس سرچ کرنے
والوں میں پاکستان اور انڈیا اس وقت پہلے نمبر پر ہیں اور یہ سب بیہودگی دیکھ کر ہم
اخلاقی طور پر روز بروز پستی میں گرتے جارہے ہیں۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آرہی ہے
کہ بعض اوقات واقعی ہی میں سہولیات بھی گلے کا پھندا بن جاتی ہے۔
گلوبل ولیج کے قائم ہونے سے ترقی کی رفتار
بے پناہ تیز ہوگئی مگر وہی پر ایک گھر میں رہنے والے ایک دوسرے کے لیے اجنبی بن گئے۔
جہاں پر ایک دوسرے سے رابطہ کرنا صرف ایک انگلی ہلانے کی دوری پر رہ گیا وہیں پر بس
اس ایک انگلی کو ہلانے کا وقت بھی ہمارے پاس ختم ہوگیا۔ ایک گھر میں رہتے ہوئے اولاد
کے لیے ماں باپ کے پاس اور ماں باپ کے لئے اولاد کے پاس وقت ختم ہوگیا۔چلو بات یہیں
پر رہتی تو بھی ٹھیک تھا مگر ظلم یہ ہوا کہ ہم نے آج اپنی اولاد کے ہاتھ میں جدید موبائل
اور میڈیا تھما دیا اور خود ان کی تربیت سے غافل ہو گے اور آج تک دوبارہ کبھی ان کے
موبائل کھول کر چیک تک کرنے کی زحمت نہیں کی کہ وہ کیا دیکھ رہے ہیں اور کیا تربیت
لے رہے ہیں جس کا نتیجہ ہمیں آج نئی نسل میں فحاشی و عریانی اور بےحسی کی انتہا کے
طور پر مل رہا ہے۔
ابھی بھی وقت ہمارے ہاتھ میں ہے۔ہم اپنی
نسل کو اس زہر قاتل سے نجات دلاسکتے ہیں۔ ضرورت فقط تھوڑی سی رہنمائی٫ مناسب توجہ٫
پیار اور وقت کی ہے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں کہ جب پاکستان میں جگہ جگہ اولڈ ایج ہوم ہوں
گے۔ ہم جنس پرستی کے قوانین سر عام پاس ہونگے۔ عزتیں نیلام ہوں گی۔ اور فحاشی و عریانی
اپنے عروج پر پہنچ کر اس پاک وطن عظیم میں ایک ناپاک نسل اور معاشرہ پروان چڑھا دے
گی۔ خدارا ابھی بھی وقت ہے۔ آنکھیں کھول لیں۔ بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند نہ کریں۔ جانتے
بوجھتے ہوئے بھی کھائی میں مت چھلانگ لگائیں۔ سب مل کر اپنی اپنی انفرادی کوششوں سے
ایک ایسا معاشرہ جنم دیں کہ جسکا ہر فرد صلاح الدین ایوبی اور ٹیپو سلطان ہو۔
از قلم۔ عام آدمی (محمد عمران)
imranashraf444@gmail.com
Awesome
ReplyDelete