Thora sa sabar article by Romana Gondal

Thora sa sabar article by Romana Gondal

تھوڑا سا صبر
رومانہ گوندل
اللہ تعالی غفور و رحیم ہیں۔ انسان غلطیاں اور گناہ کرتے رہتے اور وہ ذات معاف کرتی رہتی ہے لیکن ا للہ تعالی کے نزدیک جو گناہ سب سے ذیادہ نا پسندیدہ ہے ۔ جس کے بارے میں ؒ فرمایا کہ اس گناہ کی معافی نہیں ہو گی، باقی ہر گناہ کو اللہ چاہے تو معاف کر دے گا۔ وہ گناہ ہے، شرک ۔
شرک یہ کہ انسان اللہ کے علاوہ کسی کو وہ مقام دے ، اس کی ذات اور صفات میں کسی کو شریک کرے، اپنی سوچ یا عمل سے۔ انسان کسی اور کو اس مقام پہ سوچے تو یہ ایسا گناہ ہے جس کی معافی نہیں اور کہاں یہ کہ کوئی انسان خدائی کا دعوی کر دے اور خود کو خدا کہلاوانے لگے، تو یہ کتنا بڑا گناہ ہے ؟ 
یہ گناہ فرعون نے کیا تھا۔اسے حکومت، بادشا ہت ، ملک، دولت ، طاقت سب کچھ ملا تھا ۔ جس کے زعم میں آ کے وہ متکبر ہو گیا اور اس کے تکبر کی انتہا تھی کہ اس نے خدائی کا دعوی کر دیا کیونکہ اس کے ذہن میں یہ تصور تھا ہی نہیں کہ اس کی باد شاہت کو کبھی زوال بھی آ سکتا ہے ۔ جب اسے خطرہ ہوا اپنے زوال کا تو اس نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے ہزاروں معصوم بچوں کا قتلِ عام کروایا ، تا کہ اس کے اقتدار کے لیے کوئی خطرہ نہ بن سکے۔ قرآن پاک کی آ یت کا مفہوم ہے کہ
’’ وہ اپنی چالیں چل رہے تھے ، اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔‘‘
(سورہ انفال)
ْجس بچے سے فرعون ڈر رہا تھا وہ حضرت موسی تھے لیکن اللہ تعالی نے فرعون کی تمام سازشوں کے با وجود حضرت موسی کو بچا لیا اور بچا بھی ایسے لیا کہ فرعون کے ہی محل میں ان کی پرورش ہوئی ۔ جب حضرت موسی بڑے ہوئے اور ان کو نبوت ملی تو حکم ملا کہ فرعون کو حق پہنچائیں، اس نے بڑی سرکشی مچا رکھی ہے ۔ اور نصیحت کی گئی کہ نرمی سے بات کرنی ہے، شاید کہ وہ نصیحت قبول کر لے ۔ لیکن اس نے تبلیغ کے جواب میں بھی غرور و تکبر کا مظاہرہ کیا ۔ معجزات کو جادو کہا اور جادو گروں کو بلا کے مقابلہ کروایا ۔ جادو گر سمجھ گئے کہ یہ جادو نہیں معجزات ہیں تو ایمان لے آئے ، لیکن فرعون پھر بھی نہیں مانا، الٹا جادو گروں کا بھی دشمن بن گیا۔ آخر کار اس سے تنگ آ کے بنی اسرائیل کو لے کے حضرت موسی مصر سے نکلے تو بھی اس نے پیچھا کیا اور وہ انتہا تھی، حضرت موسی اور ان کے ساتھی تو دریا عبور کر گئے ، لیکن فرعون غرق ہو گیا۔
فرعون اس دنیا کا سب سے ذیادہ متکبر انسان تھا، اس لیے اس کے وجود کو نشانِ عبرت بنا دیا گیا ۔ اس نے خدائی کا دعوی کیا ، حضرت موسی کی پیدائش سے پہلے وہ جتنا سر کش تھا کہ اپنے اقتدار کے لیے اس نے ہزاروں کی تعداد میں معصوم بچوں کا قتل کروایا اور جانے کتنے ظلم کئے ۔ اس کے خدائی کے دعوے اور بچوں کے قتل کے بعد ، حضرت موسی کو نبوت ملنے اور فرعون کے پاس بھیجنے تک ایک لمبا عرصہ گزرا ۔ اس دوران اس کا ظلم و تشدد جاری رہا۔ 
لیکن جب حضرت موسی کو تبلیغ کا حکم ملا تو نصیحت ہوئی کہ اس کو نرمی سے حق پہنچائے اور اتنا کچھ کرنے کے با وجود امید کی کہ ہو سکتا ہے وہ حق قبول کر لے۔ لیکن وہ اپنی سر کشی پہ ڈٹا رہا اور تبلیغ کے بدلے میں مذاق اڑاتا رہا اور معجزات کو جھٹلایا ، کسی نصیحت کو قبول نہیں کیا ، سر کشی جاری رکھی تب جا کے غرق کیا گیا، جب اس نے ثابت کر دیا کہ وہ نصیحت قبول نہیں کرے گا اور ا س ذمین پہ رہنے کے قابل نہیں۔ آج کے دور میں فرعون جیسا متکبر، سر کش شخص شاید کوئی نہ ہو اور نہ ہی کسی نے خدائی کا دعوی کیا ہے۔ لیکن ہم نصیحت کرنے سے پہلے ہی مایوس ہو جاتے ہیں کہ اس نے تو ماننا ہی نہیں۔ جب فرعون سے یہ امید کی جا سکتی ہے تو آ ج کے انسان سے کیوں نہیں۔ اگر کوئی زندہ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ان میں سے ہے جن کو ابھی نصیحت کی جا سکتی ہے اور حق قبول بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن آ ج کے مبلغ نے امید اور نرمی دونوں کو نصیحت کا حصہ نہیں سمجھتا ۔ بہت نرمی اور خیر خواہی سے دوسرے کو سمجھائیں اور پر امید رہیں کہ وہ مان جائے گا ، چاہے اس کے ماضی کے گناہ کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں ۔ جیسے اللہ رب العزت نے حضرت موسی کو امید دلائی تھی کہ نرمی سے بات کریں ، ہو سکتا ہے وہ مان جائے۔ کیا اللہ سے بہتر کوئی جانتا تھا کہ فرعون کتنا متکبر ہے اور کیسے کیسے گناہ کر چکا ہے اور ہو سکتا ہے کہ آ ج بھی لوگ اس کی کئی غلطیوں کو نہ جانتے ہوں جہنیں صرف اللہ جانتا ہے۔ دوسرا مہلت دیں ، کتنا وقت گزرا کہ فرعون نے خدائی کا دعوی کیا ، پھر اس نے ہزاروں کی تعداد میں بچے قتل کروائے ۔ حضرت موسی پیدا ہوئے ، انہیں نبوت ملی ، ایک لمبا عرصہ وہ نصیحت کرتے رہے پھر جا کے غرق ہوا ۔ کیا اللہ تعالی پہلے دن جب اس نے خدائی کا دعوی کیا اسے پکڑ نہیں سکتے تھے؟ لیکن اسے مہلت دی گئی تا کہ وہ اپنے اعمال کا جائزہ لے ، بدلنا چاہے تو بدل جائے اور ہم کیا کر رہے ہیں کسی سے غلطی سے ہو جانے والے عمل کا طعنہ بھی ساری عمر دیتے رہتے ہیں۔ اسے سمجھانے کا فرض اور تھوڑی سی مہلت سمجھنے کے لیے نہیں دیتے ۔
فرعون نے کتنے قتل کروائے اور وہ بھی معصوم بچے اور آج قتل کا جرم تو بہت بڑی بات ہے ، کوئی چھوٹا سا جرم بھی کر دے تو بھی اس کے طعنے تو دیتے ہیں لیکن اس کو نصیحت کرنا ضروری ہی نہیں سمجھتے ، کیونکہ ہمارے خیال میں وہ انتہا ہوتی ہے لیکن کوئی بھی جرم انتہا نہیں ، ابتدا ہوتی ہے ۔ جرم کی سزا الگ بات ہے لیکن کوئی مرنے سے پہلے توبہ تو کر سکتا ہے۔ دل سے نادم تو ہو سکتا ہے ۔ کوئی جرم میں جس مقام پہ بھی کھڑا ہے ہمیں بس یہ کوشش کرنی ہے کہ اس کا انجام سر کشی میں نہ ہو۔ توبہ کا موقع اسے ملنا چاہیے۔ جس نے غرق ہونا ہے وہ ہو جائے گا لیکن ہر فرعون کے سامنے موسی کھڑا ہو تو ہی اچھائی اور برائی کا فرق پتا چلتا ہے ۔ ہر گناہ کرنے والا فرعون نہیں ہوتا ، لوگ پلٹ بھی آتے ہیں۔ بہت سے لوگ جیلوں سے زندگیاں بدل کے نکلتے ہیں ۔ بس نصیحت کی ضرورت ہوتی ہے اور تھوڑا سا صبر چاہیے۔
********************************

Comments