"تھانیدار کا بنگلہ"
از"جاناں
مبین"
(ہمارے معاشرے کی ایک عبرت انگیز سچی داستان)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ چھوٹے سے محلے کی ایک تنگ سی گلی تھی جس کی نکڑ پر پچھلے
دو سالوں سے یہ بنگلہ تعمیر ہو رہا تھا سنا تھا کہ کسی تھانیدار کی ملکیت ہے جو وہ
اپنی بیٹی کو جہیز میں دینے کے لیے بنوا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔ دو چھوٹے کمرے کچی چار دیواری اور پکی لکڑ کے دروازے
والے گھروں کے مکینوں کے لیے باقاعدہ نقشے اور ماہر ٹھیکیدار کے زیر نگرانی تعمیر ہونے
والا یہ بنگلہ دنیا کا کوئی ساتواں عجوبہ تھا جو شاید انھوں نے اپنی زندگی میں پہلے
نہیں دیکھا ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دو کنال رقبے پر آٹھ کمرے اٹیچ باتھ بڑا سا ہال گھومتی
اوپر کی جانب جاتی ہوئی سیڑھیاں اور سب سے پرکشش چیز بنگلے کے سامنے بنی بالکونی جس
میں کھڑے ہو کر آ دھے سے زیادہ محلے کے گھر نظر آتے تھے۔۔۔ وسیع و عریض لان جس میں
لگے رنگ برنگے پھولوں کے پودے شاید محلے کے لوگوں نے خوابوں میں ہی ایسے پھول دیکھے
تھے انٹئریر ڈیکوریشن اور سنگ مرمر کا بے تحاشا استعمال بنگلے کے حسن کو چار چاند لگا
رہا تھا ان دنوں بنگلہ تعمیر کے آخری مراحل سے گزر رہا تھا پورے بنگلے میں سفید پینٹ
کروایا جا رہا تھا جس کی وجہ سے یہ بنگلہ رات کے اندھیرے میں چاند کی طرح چمکتا تھا بنگلے کے چار گیٹ تھے گلی کی طرف کھلنے والے گیٹ
کے سامنے بنی سیڑھیوں پر قیمتی پتھروں سے انتہائی نفیس کام کیا گیا تھا جس کے درمیان
میں ایک پھسلن سیڑھی بھی بنی ہوئی تھی جس پر محلے کے بچے سارا دن کسی بادشاہ کی سیر
گاہ کی طرح گھومتے رہتے اور اس پھسلن سیڑھی سے پھسل پھسل کر لطف اندوز ہوتے چند دن
بعد گھر والوں کے سامان کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا جیسے ہی کوئی سامان سے لدا ٹرک
گیٹ کے سامنے آ کر رکتا پورے محلے کی عورتیں دیکھنے کے لیے جمع ہو جاتیں اور دل ہی
دل میں سو سو بار اس بنگلے میں آنے والوں کی قسمت پر واری جاتیں ایسا عمدہ فرنیچر شاید
کسی بادشاہ کی بیٹی کے محل میں ہی ہو سکتا تھا اور چند دن بعد وہ خوش قسمت بنگلے کا
مالک خاندان بھی یہاں منتقل ہو گیا اتنے امیر کبیر خاندان سے غریبوں کے اس محلے میں
ہر کوئی راہ و رسم بڑھانے کے لیے بے چین تھا کوئی کسی بہانے کوئی کسی بہانے بنگلے کے
مالک حاجی صاحب کی قدم بوسی کے لیے چلا جاتا اور حاجی صاحب کی بیگم حاجن جی کے تو مزاج
ہی نہ ملتے تھے ہر وقت دماغ ساتویں آسمان پر رہتا لوگوں سے ہی سنا تھا کہ حاجن کا بھائی
جو پولیس میں تھانیدار ہے اس نے اپنی بہن کو اپنی اکلوتی بیٹی کے رشتے کے علاوہ یہ
بنگلہ بھی جہیز میں بنوا کر دیا ہے حاجی صاحب کا بیٹا امتیاز ایک شریف اور سیدھا سادھا
سا لڑکا تھا جو کسی سرکاری محکمے میں کلرک لگا ہوا تھا وہ تو پوری زندگی بھی کمائی
کر کے ایسا بنگلہ نہ بنوا سکتا تھا حاجی کے دو ہی بچے تھے ایک بیٹی اور ایک بیٹا تھا
اور حاجن کے تھانیدار بھائی کی بھی ایک بیٹی اور دو بیٹے تھے یوں ان دونوں بہن بھائی
نے آپس میں ہی وٹے سٹے سے رشتے داری کر لی تھی حاجن محلے کی ہر عورت کے سامنے اپنے
تھانیدار بھائی کی بے انت دولت کے قصیدے پڑھتی نہ تھکتی دس بارہ بڑے بڑے شہروں میں
کوٹھیاں زمین اور نئے نئے ماڈل کی گاڑیاں ہر آنے والی کو اپنے بھائی کی محنت کی داستان
ضرور سناتی کہ کیسے اس کے بھائی نے دن رات محنت کر کے یہ پیسہ اکھٹا کیا اور جائیداد
بنائی جس کی اب وہ بھی رشتے داری کے ذریعے حصے دار بننے والی تھی اس بنگلے کے بغل والے
اڑھائی مرلے کے مکان میں اس محلے کی مسجد کے امام صاحب اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ رہتے
تھے بڑی بیٹی مریم کوئی اٹھارہ سال کی اور
چھوٹی میمونہ سات آٹھ سال کی تھی پورے محلے میں یہ فیملی اپنی دین داری اور نیک عادات
کی وجہ سے بہت عزت کی نظر سے دیکھی جاتی تھی محلے کی مسجد ابھی زیر تعمیر تھی جس کی
وجہ سے امام صاحب اکثرو بیشتر قریب کے علاقوں میں مسجد کی تعمیر کے لیے چندہ مانگنے
نکل جاتے اور اکثر شام ڈھلے ہی گھر لوٹتے محلے کی بچیاں امام صاحب کی حافظ قرآن بیوی
اور بیٹی مریم سے قرآن پاک کی مفت تعلیم حاصل کرتی حاجن کی اکلوتی بیٹی شمسہ جلد ہی
اپنی ہم عمر مریم کی دوست بن گئی اور دونوں ایک دوسرے کے گھر آنے جانے لگ گئیں چند
ہی دنوں میں امتیاز کی اپنی ماموں زاد سعدیہ سے شادی کی تاریخ رکھی جانے والی تھی کہ
سعدیہ کی امی جان کی طبیعت اچانک بہت خراب ہو گئی جس کی وجہ سے ابھی دونوں گھرانوں
میں شادی کے بارے میں چپ سادھ لی تھی امام صاحب کی بیٹی مریم کے لیے یہ گھرانہ ایک
خواب جیسا تھا ایسا رہن سہن اور ٹھاٹ باٹ تو قصے کہانیوں میں ہی ملتا تھا ایک دن باتوں
باتوں میں مریم نے اپنے ابو جان سے شمسہ کے گھر کی امارت کا اپنے گھر کی غربت سے مقابلہ
کر نے لگ گئی امام صاحب کی جہاندیدہ نظریں بہت پہلے جان چکی تھی کہ یہ ساری دولت محنت
اور قسمت کی نہیں بلکہ رشوت اور حرام کی کمائی کا نتیجہ ہے آج اپنی بیٹی کے منہ سے
ان کی تعریف سن کر امام صاحب نے ضروری سمجھا کہ بیٹی کو حلال اور حرام کی دولت میں
فرق سمجھا دیں۔ مریم کی سمجھ میں یہ سب باتیں کتابی تھیں اور حقیقت یہ تھی کہ پیسے
میں بڑی طاقت تھی ۔شمسہ مریم کو اکثر اپنے منگیتر عابد کے بارے میں بتاتی رہتی اور
اس کے بھیجے ہوئے قیمتی گفٹ بھی اس کو دکھاتی جن کو دیکھ کر کچی عمر کی آنکھوں میں
بھی ایسے ہی کسی امیر شخص کی تصویر بننے لگی جو اس کی محبت میں اسے ایسے ہی قیمتی تحفے
بھیجتا ہو شام کو جب مریم شمسہ کے گھر گئی تو حاجن کا تھانیدار بھائی اپنی پوری فیملی
سمیت آیا ہوا تھا مریم نے بے دھیانی میں نقاب بھی چہرے سے اتار رکھا تھا جب اوپر جانے
والی سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے مریم کی ملاقات شمسہ کے تھانیدار ماموں سے سیڑھیوں میں
ہو گئی ساٹھ سال کا چھ فٹ سے زائد قد سیاہ رنگ بھاری بھرکم جسم بڑی بڑی مونچھیں چہرے
پر جیسے پھٹکار برس رہی ہو شمسہ کا ماموں کسی دہشت گرد غنڈے سے کم نہ تھا مریم کا دل
تو اس پر نظر پڑھتے ہی لرز گیا افف اس نے تو کبھی اپنی پوری زندگی میں ایسا ڈراؤنا
چہرہ نہیں دیکھا تھا جلدی سے چادر سے چہرے کو چھپا کر پیچھے ہٹ گئی مگر تھانیدار اسے
بڑی عجیب نظروں سے گھورتے ہوئے نیچے چلا گیا شمسہ نے مریم کو ماموں کی باقی فیملی سے
بھی ملوایا مریم کو اب سمجھ میں آیا تھا کہ اتنی دولت کے باوجود شمسہ کے ماموں نے ان
کے گھر اپنے بچوں کا رشتہ کیوں کیا تھا امتیاز کی مینگتر سعدیہ عجیب بھدی کالی موٹی
دانت باہر کو نکلے ہوئے ڈائن نما عورت لگ رہی تھی ایسی عورت جیسی مریم کی امی جب کبھی
مریم بچپن میں وہ ضد کرتی اور بات نہ مانتی تو امی ایسی شکل کی ڈائن کی تصویر کشی کر
کے اسے ڈراتی تھی اور اس کے دونوں ماموں زاد ہو بہو اپنے باپ کی بدصورتی کی جیتی جاگتی
تصویر تھے گھر آ کر مریم نے لاکھ بار اپنے رب کا شکر ادا کیا کہیں اس کے چاہنے کے باوجود
اس کے رب نے اسے ایسے کسی شخص کے پلے بندھنے سے بچا لیا چند دن بعد شمسہ کا ماموں رات
کے اندھیرے میں مریم کے دروازے کے سامنے کھڑا تھا مریم کے ابو نے اسے بڑے ادب سے اپنے
کچی بیٹھک میں بٹھایا پر تھوڑی دیر کے بعد اس کے ابو اور تھانیدار کے درمیان تلخ کلامی
کی آوازیں آ نے لگ گئیں اور پھر نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی مریم اور اس کی امی نے
بڑی مشکل سے درمیان میں آ کر اس چھ فٹ کے سانڈ کی گرفت سے امام صاحب کو آ زاد کروایا
اس سے پہلے کہ باہر لوگوں کے کانوں تک پہنچتی تھانیدار دھمکیاں دیتا ہوا اپنی نئی پجارو
میں بیٹھ کر روانہ ہو گیا شام تک مریم کے کا نوں میں یہ بات پہنچ چکی تھی کہ تھانیدار
مریم سے شادی کرنا چاہتا ہے اور اس کے ابو کے پاس اس کا رشتہ لے کر آیا تھا جس کا سن
کر امام صاحب کا خون کھول اٹھا اور اس نے صاف انکار کر دیا ۔تھانیدار کی جتنی گندی
شکل تھی اس سے کہیں گندی اور بدصورت اس کی نیت تھی مریم کو وہ ہر صورت حاصل کرنا چاہتا
تھا اور اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا تھا ۔یہ بات حاجن کے کا نوں
تک بھی جا چکی تھی اس سے پہلے کہ وہ امام صاحب کے گھر والوں کا جینا حرام کرتا حاجن
کی منت سماجت اور کچھ شرم دلانے سے تھانیدار کا غصہ کچھ سرد پڑھ گیا بہر حال ابھی اس
کی اپنی بیٹی کی شادی زیادہ اہم تھی جس کی اس نے پورے جاہ و جلال سے تیاریاں شروع کردیں
اور چند دنوں بعد سعدیہ دلہن بن کر امتیاز کے گھر آ گئی شمسہ کی شادی ابھی چند سالوں
کے بعد ہونا قرار پائی امام صاحب نے موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے مریم کے رشتے کی
تلاش شروع کر دی لیکن جو بھی رشتہ آتا چند دن بعد وہ جواب دے دیتے یا تھانیدار کی دھمکیوں
سے ڈر کر خود ہی بھاگ جاتے جان تو ہر کسی کو پیاری تھی اب مریم کوئی ایسی دنیا کی انوکھی
لڑکی بھی نہ تھی جس پر کوئی اپنے بیٹے کی جان قربان کر دیتا امام صاحب کی اس صورت حال
کے پیش نظر رات کی نیندیں حرام ہو چکیں تھیں اس کی تو کل کائنات یہی دو بیٹیاں تھیں
جن کو دیکھ دیکھ کر وہ جیتا تھا دوسری طرف مریم بھی ان حالات سے بہت دلبرداشتہ ہو چکی
تھی اور آخر کار مریم کے کسی شریف گھرانے میں رشتے کی ہر امید دم توڑنے لگی انھیں دنوں
امتیاز اور سعدیہ کے گھر بیٹی نے جنم لیا امتیاز نے اس کا نام مریم رکھا حالانکہ سعدیہ
کو یہ نام بالکل پسند نہ تھا لیکن امتیاز کو مریم کے سب حالات کی خبر تھی اور اس سے
دلی ہمدردی بھی لیکن وہ اس کے لیے کچھ کر نہ پارہا تھا شاید اسی ہمدردی کی وجہ سے ہی
اس نے اپنی بیٹی کا نام مریم رکھ لیا تھا وہ جمعے کا دن تھا جب امام صاحب مسجد سے جمعہ
کی نماز پڑھا کر واپس آ رہے تھے جب راستے میں انھیں پولیس کے چند آ دمیوں نے گرفتار
کر لیا مریم اور اس کی ماں نے ہر تھانے میں پتہ کروا لیا لیکن امام صاحب کا کہیں نام
ونشان نہیں تھا ساری رات پریشانی میں کٹ گئی آخر جاتی بھی وہ کہاں کس کے پاس فریاد
لے کر غریبوں کی اس زمانے میں سنتا ہی کون ہے مریم کی امی کا رو رو کے برا حال ہو رہا
تھا دن کے دس بجے کا وقت تھا جب پولیس کی گاڑی مریم کے مکان کے آ گے رکی اور پولیس
دونوں بیٹیوں اور ان کی ماں کو گھسیٹتے ہوئے
بغیر کسی جرم کے گاڑی بٹھا کر لے گئی
رات وہ تینوں ماں بیٹیاں شدید سردی میں تھانے کے ننگے فرش پر بیٹھی ہوئی تھی جب ایک
شخص نے دروازہ کھولا اور مریم کو بازو سے پکڑ کر اپنے ساتھ لے جانے لگا تینوں ماں بیٹیوں
نے چیخ وپکار شروع کر دی جس کی وجہ سے حفاظت پر معمور اہلکاروں کو اپنا ڈنڈا استعمال
کرنا پڑا مریم کی امی اور چھوٹی بہن مار کھا کھا کر لہو لہان ہو کر زمین پر بے ہوش
ہو کر گر پڑی اور جب ان کی آنکھ کھلی تو مریم ان کے ساتھ نہیں تھی ۔ایک پولیس اہلکار
نے مریم کو کھنیچ کر باہر کھڑی گاڑی میں موجود لوگوں کے حوالے کیا اور گاڑی نامعلوم
منزل کی طرف چل پڑی مریم کو دو بندوں نے اپنے قابو میں کیا ہوا تھا تقریباً دو گھنٹے
کی مسافت کے بعد گاڑی ایک بہت بڑے فارم کے گیٹ پر رک گئی تھوڑی دیر بعد گیٹ کھلا اور
مریم کو ایک کمرے میں پھینک کر باہر سے دروزہ بند کر دیا گیا مریم کی چیخیں اب ہچکیوں
میں بدل کر گلے میں دم توڑنے لگی تھیں آنے والا وقت ایک اژدہے کی طرح منہ کھولے اسے
ڈرا رہا تھا دس بارہ گھنٹے وہ صدمے سے نڈھال فرش پر پڑی رہی پھر بند دروازہ کھلا اور
دو عورتیں اندر داخل ہوئیں جنھوں نے مریم کو بالوں سے پکڑ کر زبردستی گھیسٹتے ہوئے
غسل خانے میں لے گئیں اس کے زبردستی کپڑے اتار کر اسے غسل دینے لگیں پھر اسے وہاں سے
اٹھا کر ایک بیڈ پہ لا کر پٹخ دیا اور نئے کپڑے پہنا کر بناؤ سنگھار کرنے لگیں مریم
کو ان کی حرکتیں اس وقت سمجھ آئیں جب وہ بیس تیس مردوں کے سامنے لا کر کھڑی کر دی گئی
ہاں جی چیک کر لیں مال حاضر ہے لگاؤ بولی
۔۔۔۔۔بالکل نواں نکور فریش پیس ہے یہ آواز تھانیدار کی تھی اور مریم کی کسی
جانور کی طرح بولی لگنے لگی دو لاکھ تین لاکھ پانچ لاکھ اور پھر سات بندوں نے مل کر
پچاس لاکھ میں اسے خرید لیا باقی گاہک اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے ۔تھانیدار نے پچاس
لاکھ اپنی جیب میں ٹھونسے اور مریم کو ان سات انسان نما درندوں کے سپرد کر کے باہر
چلا گیا کمرے کا دروزہ بند ہو گیا اور سات بھیڑیے ایک کم سن لڑکی کی درد اور اذیت سے
بھری چیخوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ساری رات اس کے نازک بدن سے کھال ادھیڑ کر اپنی
حیوانی ہوس پوری کرتے رہے ۔صبح کو محافظوں نے مریم کا نیم مردہ برہنہ جسم فرش سے اٹھایا
اور اسے کچرے کے ڈھیر پر پھینکنے کے لیے چل پڑے ان میں سے ایک محافظ کو تھوڑی سی غیرت
محسوس ہوئی اور اس نے ادھر ادھر کمرے کے کونوں کھدروں سے مریم کا تار تار لباس اکھٹا کر کے اس برہنہ جسم
کو پہنا دیا شام کے اخبار میں مریم کی چھوٹی سی تصویر ایک کونے میں نا معلوم لاش کے
نام سے چھپی جسے نا معلوم افراد نے اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا تھا۔اور اب
اسے لاوارث سمجھ کر دفن کر دیا گیا تھا
اسی اخبار کے فرنٹ صفحے پر تھانیدار کے بہادری اور بے مثال
جدو جہد کے قصے بڑی بڑی شہ سرخیوں میں چھپے
تھے کیونکہ اسے چھپوانے کے لیے اخبار کے مالک کو ایک خطیر رقم مل چکی تھی مریم چونکہ
ایک غریب اور غیر اہم طبقے سے تعلق رکھتی تھی جس طبقے کی بچیاں عموماً امیر زادوں کے
عشق میں مبتلا ہو کر اپنی غربت سے پیچھا چھڑانے کے لیے گھروں سے بھاگ جاتی ہیں اور
اکثر ان امیر زادوں کی ہوس کا نشانہ بن جاتی ہیں۔اور پھر ان کی لاشیں کچرے کے ڈھیر
سے نہروں کے پلوں کے نیچے سے، گندے نالوں سے ملتی ہیں۔ اخبار کے مالک کے نزدیک یہ تو
عام سی ڈیلی روٹین کی کہانی تھی جس کا عادی
اب ہر فرد ہو چکا تھا اور مزید وہ اس لاش کے بارے میں جان کر یا لکھ کر ان کو کوئی
خاص فائدہ حاصل نہ ہونے والا تھا جبکہ تھانیدار کا قصہ تو انسانی جدو جہد کی ایک زندہ مثال تھا کہ کیسے ایک عام سے شخص نے اپنی کوشش اور
ہمت سے اپنی زندگی صفر سے شروع کر کے کامیابی کی بلندیوں کو چھو لیا۔اور پھر چھپوانے
والے نے پوری قیمت سے زائد ہی ادائیگی بھی تو کی تھی ۔امام صاحب جیل سے بے گناہ ہونے
کی وجہ سے چھوٹ گئے ۔مریم کی امی اور بہن بھی محلے والوں کی ضمانت پر رہا ہو گئی لیکن
مریم کا کچھ پتہ نہ چل سکا ۔بشیر دکاندار نے گلی کے کسی بچے کو ایک دن اس اخبار میں سودا لپیٹ کر دیا تو اس بچے کے گھر
والوں کو مریم کی تصویر سے اس قصے کا علم ہوا بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی محلے
والے طرح طرح کی باتیں کرنے لگ پڑے امام صاحب نے اس بچے کے گھر سے اخبار کا وہ ٹکڑا
منگوایا اور ساری رات ہاتھوں میں لے کر مصلے پر بیٹھ کر روتے رہے۔لیکن کوئی جھوٹے منہ
انھیں دلاسہ دینے بھی ان کی چوکھٹ پر نہ آیا۔صبح گلی میں جشن کا سماں تھا امتیاز کے
ہاں بیٹے نے جنم لیا تھا اور ساتھ میں شمسہ کی شادی کی تاریخ بھی مقرر کر دی گئی تھی
سارے محلے والوں کو اس خوشی میں مٹھائی کھلائی جا رہی تھی شام کو پوری فیملی نے ان
لمحات کو یاد گار بنانے کے لیے سوات ٹرپ پر جانے کا پلان بنا لیا تھا نیدار اس کی بیوی
دونوں بیٹے داماد بیٹی دونوں نواسا اور نواسی اور شمسہ سمیت سب بالکل نئی لینڈ کروزر
میں سوات کی جانب ہنستے کھیلتے روانہ ہو گئے وہ پیر کا دن تھا شام کے پانچ چھ بجے تھے
جب محلے میں تھانیدار کی اس کوٹھی کے سامنے رش لگ گیا خبر تھی کہ تھانیدار کی کار کا
ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے اور اس ایکسیڈنٹ میں پوارا خاندان جاں بحق ہو گیا ہے اب یہ کسی
کو کنفرم نہیں تھا کہ خبر سچی تھی یا جھوٹی صبح کو پولیس کی گاڑی میں تھانیدار کی پوری
فیملی کی نو لاشیں اس بنگلے کے سامنے ایمبولینس سے اتاری جا رہی تھیں محلے میں یہ لاشیں
دیکھ کر کہرام مچ گیا ہر آ نکھ اشکبار تھی آہوں اور سسکیوں میں انھیں سپرد خاک کر دیا
گیا بڑے بڑے اخبارات میں حکومت کی نااہلی اور بد انتظامی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا
جا رہا تھا جس کی وجہ سے پورا خاندان حادثے کا شکار ہو کر جان کی بازی ہار گیا دوسرے
دن مرحومین کی روحوں کے ایصال ثواب کیلئے قل کا ختم تھا مگر کونسا ایصال ثواب سب رشتے
دار گھر میں جو کچھ موجود تھا اس کی بندر بانٹ میں مصروف تھے آخر کو وہ تھانیدار کی
اتنی بڑی جائیداد کے وارث تھے اب وارث تو کوئی زندہ بچا نہ تھا شام تک نوبت رشتے داروں
میں ہاتھا پائی تک پہنچ گئی کیونکہ بہت سے لوگ اپنے آ پ کو جائیداد کے اصل وارث قرار
دے رہے تھے دو تین ماہ کے بعد تھانیدار کے اس بنگلے سمیت ساری جائیداد اس کے رشتے داروں
نے کوڑیوں کے داموں اونے پونے بیچ دی اور جس کے جو ہاتھ لگا وہ مال غنیمت سمجھ کر ا
ٹھا کر چلتا بنا اور وہ مال و دولت جو تھانیدار نے پتا نہیں کتنی مریم جیسی معصوموں
کو بیچ کر گناہ ظلم اور زیادتی سے اپنی آنے والی
نسلوں کے لیے اکھٹی کی تھی تاکہ وہ عیش وعشرت کی زندگی بسر کر سکیں آج اس مال و دولت کا کوئی حقدار کوئی وارث تھانیدار کی نسل میں سے زندہ نہ بچا تھا۔امام صاحب نے ایک دن گلی سے گزرتے ہوئے تھانیدار کے بنگلے کے سامنےتھوڑی دیر کے لیے رک
کر اپنا منہ آسمان کی طرف اٹھایا اور کہا بے شک اے میرے مولا تو سب سے بڑھ کر بدلہ
لینے والا اور انصاف کرنے والا ہے۔اور اپنے نحیف قدم مسجد کی طرف بڑھا دئیے۔
*******************************
Comments
Post a Comment