خلاصہ
مختصر ہے
رومانہ
گوندل
اللہ تعالی نے انسان کو
پیدا کیا اور ساتھ ہی اس کی ہدایت کا انتظام بھی کیا اس مقصد کے لیے ایک لاکھ
چوبیس ہزار انبیاء بھیجے ، چار آسمانی کتابیں اورکچھ صحیفے نازل کیئے ۔ ان میں سے
آخری کتاب قرآن مجید ہے۔ قرآن مجید اللہ کی کتاب ہے لیکن یہ صرف کتاب نہیں ہے،
بلکہ ایک نور ، ایک معجزہ ہے۔جس کا ہر لفظ رہنمائی ہے اور اس رہنمائی میں وقت اور
زمانے کی کوئی قید نہیں۔ چودہ سو سال سے رہنما ئی کرتا آرہاہے اور قیامت تک کے لیے
ہر دور، ہر زمانے ،ہر ملک وعلاقے اور ہر انسان کے لیے زندگی گزارنے کے اصول وہی
ہیں جو قرآن نے دیئے ہیں۔ ان سے ہٹ کے سوائے نا کامی اور تباہی کے کچھ نہیں ہے۔یہ
کتاب تمام انسانوں تک پہنچانا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے ۔ لیکن افسوس کے تمام
انسانوں تک یہ پیغام پہنچانا تو دور مسلمانوں کے پاس خود بھی اس کو پڑھنے کا وقت
نہیں رہا۔اس لیے مسلمانوں کے عمل میں بھی زندگی گزارنے کے وہ اصول نظر نہیں آتے جو
قرآن نے دیئے ہیں۔ آج دنیا میں ہر جگہ مسلمان زوال پذیر نظر آ تے ہیں ۔ حالانکہ
مسلمانوں کے پاس قرآن ہے وہ خوبصورت کتاب جس کا ہر لفظ روشنی اور ہدایت ہے ۔
دیکھا جائے تو کسی بھی کتاب ، تحریر اور کہانی میں شروع ،درمیان اور آخر کے الفاظ بہت اہم ہوتے ہیں کیونکہ ان الفاظ سے ایک مختصر خلاصہ سمجھ میں آجاتا ہے۔اس طرح قرآن کا بھی مختصر ترین خلاصہ شروع، درمیان اور آخر کے صرف تین الفاظ سے کیا جائے تو بھی زندگی گزارنے کا نمونہ مل جاتا ہے۔قرآن پاک کا آغاز سورہ فاتحہ کے پہلے لفظ’’ الحمداللہ ‘‘ سے ہوتا ہے جس کا مطلب ہے ’’تمام تعریفیں اللہ کے لیے‘‘ ہیں۔درمیان سورہ کہف کی آیت انیس کے لفظ ’’ ولیتلطف ‘‘ ،جس کا معنی ہے’’ نرمی کرے‘‘ اور قرآن کا آخری لفظی سورہ الناس کا لفظ ’’ والناس ‘‘ہے ، جس کا معنی ’’ لوگ‘‘ ہے۔ان تین الفاظ کو اکٹھا کیا جائے تو ایکْ مختصر خلاصہ ایسے بھی کیا جاسکتا ہے ۔
’’یعنی اپنے پروردگار کی عظمت کو تسلیم کر کے جھک جاؤ ،اس کے شکر گزار بندے بن جاؤ اور لوگوں سے نرمی کرو۔‘‘
قرآن کا پہلا لفظ الحمداللہ شکر ادا کرنا ہے۔الحمداللہ صرف ایک لفظ نہیں کہ لگے بندھے ذبان سے بول دیا اور چہرے پہ مایوسی چھائی ہوئی ہو اور عمل میں نا فرمانی ہو۔بلکہ یہ تو ایک مثبت سوچ اور کردار کا نام ہے۔جب انسان شکر گزار ہو جاتا ہے اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے رب کی عظمت کو تسلیم کر رہا ہے،اس ذات کی عطا کی ہوئی نعمتوں کا اعتراف کر رہا ہے۔ اپنے گناہ اور غلطیاں مان رہا ہے۔اسے احساس ہے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے وہ رب کا احسان ہے ورنہ وہ اس قابل نہیں ۔ اس لیے وہ دل اور عمل سے شکر گزار بن جاتا ہے ۔یہ احساس اس کے اندر سے کبراور مایوسی نکال دیتا ہے۔جب کبر اور مایوسی جیسے منفی جذبات نکل جاتے ہیں توایک خوش اخلاق اور پر امید انسان سامنے آتا ہے جو اپنے جیسے انسانوں کو سمجھنے لگتا ہے، ان کی خوبیوں کا اعتراف کرکے انہیں عزت دینے لگتا ہے۔دوسروں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں پہ جلنے کڑھنے کے بجائے ان کو کھلے دل سے معاف کر دیتا ہے۔اس کی ذبان اور دل میں خود بخود دوسروں کے لیے نرمی اور خیر خواہی آ جاتی ہے۔ کیو نکہ انسان جب اللہ کی عظمت کو دل سے تسلیم کر لے تو یہ ہو نہیں سکتا کہ اس کی ذبان اور دل میں نرمی پیدا نہ ہو ۔ پھر یہ نرمی اس کی قول اور عمل میں نظر نہ آئے اور لوگوں کو اس کی ذات سے فائدہ نہ پہنچے۔
یہ خلاصہ مختصر صرف الفاظ میں ہے۔عمل میں آئے تو انسان کی پوری شخیصت کو بدل دیتا ہے۔ایک ایسا شکرگزار اور نرم مزاج انسان بنتا ہے۔ جس کی عبادات اور معاملات میں عاجزی ہے، جس کی ذبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ حتی کہ عبادات ، معاشرتی تعلقات، حقوق و فرائض ہر معاملے میں ایک مثالی رویے والا انسان بن جاتا ہے۔
یہ قرآن کا سبق ہے۔ جو شروع ہوتا ہے توحید اور ایمان سے اور مکمل ہوتا ہے معاشرت پہ ۔ جب کسی کا رویہ انسانوں سے نرم ہو جاتا ہے تو تب پتا چلتا ہے کہ ایمان مکمل ہو گیا ہے اور یہ ہے میرے رب کی مہربانی کہ جو اس سے جڑتا ہے وہ اسے انسانوں سے جوڑ دیتا ہے ، ان کے لیے مفید بنا دیتا ہے اور ہم انسان کیا کرتے ہیں جو رب کے راستے پہ چلتا ہے اسے تنہا چھو ڑ دیتے ہیں ۔ اس کا مذاق اڑانے لگتے ہیں، ہمیں لگتا ہے کہ وہ اب ہمارے کام کا نہیں رہا۔ ہم خود بھی آج قرآن پہ عمل کرنے سے ڈرتے ہیں کیونکہ ہمیں اس دنیا میں رہنا ہے ، اس کے ساتھ چلنا ہے اور اس پہ عمل ہمیں دنیا کے لیے بے کار بنا دے گا۔ یہ سوچ صر ف اور صرف اس لیے ہے کہ ہم نے اس کتاب کو پڑھا اور سمجھا ہی نہیں ورنہ ہم اپنے رب سے باغی اور انسانوں کے لیے اذیت کا سبب نہ بنتے۔
ہم ایک انسان کا لکھا ہوا ناول بھی پڑھتے ہیں تو اس سے متاثر ہو جاتے ہیں، اس کے ہیرو، ہیروین کو پسند کرنے لگتے ہیں ، شعوری یا لا شعوری طور پر اس کی حرکتوں اور الفاظ کو اپنانے لگتے ہیں اور ولن سے نفرت کرنے لگتے ہیں ۔ ہم اچھے مسلمان نہیں بن سکے ، اپنے عمل کو بامقصد نہیں بنا سکے کیونکہ اللہ کی کتاب کو اتنا بھی نہیں پڑھا جتنا ایک انسان کی کتاب کو پڑھتے ہیں اگر پڑھا ہوتا تو اللہ تعالی اپنے نبیوں اور صالحین کا ذکر جتنے پیار سے کرتے ہیں ، ہمیں ان سے محبت ہوتی ، انبیاء کی خوبیوں کو اپنا لیتے ، ان سے محبت کرتے اور شیطان جس کو اللہ نے دھتکار دیا ہم اس کے یوں اہلکار نہ بنتے ، اس سے دور رہنے کی کچھ نہ کچھ کوشش ضرور کرتے لیکن افسوس ہم شیطان کے دوست بن گئے اور رحمن سے دور ہوتے گئے، وہ اعمال جن کی وجہ سے پچھلی قوموں پر عذاب آ یا ہم وہ کام کر تے ہیں اور بہت فخر سے کرتے ہیں ۔
یاد رکھیں کہ دنیا کی کوئی کتاب، کوئی ادارہ ، کوئی ڈگری آپ کی سوچ میں اتنا شعور اور وسعت پیدا نہیں کرتی ، جتنی قرآن کرتا ہے۔ ہم اس کتاب سے دور اس لیے رہتے ہیں کیونکہ ہمیں لگتا ہے کہ قرآ ن پابندیوں کا نام ہے، اس پہ عمل کرنا ہماری آزادی کو ختم کر دے گا ۔ ایک بار اسے کھول کے دیکھیں ، اسے سمجھنے کی کوشش کریں تو جان جائیں گئے کہ قرآن تو دکھوں اور پریشانیوں سے آ زادی کا نام ہے ، نئے راستے دکھانے کا نام ہے، اندھیروں میں روشنی ہے ، روشن مستقبل کی نوید ہے ۔
مجھ کو بھی پڑھ، کتاب ہوں، مضمونِ خاص ہوں
مانا تیرے نصاب میں شامل نہیں ہوں میں
دیکھا جائے تو کسی بھی کتاب ، تحریر اور کہانی میں شروع ،درمیان اور آخر کے الفاظ بہت اہم ہوتے ہیں کیونکہ ان الفاظ سے ایک مختصر خلاصہ سمجھ میں آجاتا ہے۔اس طرح قرآن کا بھی مختصر ترین خلاصہ شروع، درمیان اور آخر کے صرف تین الفاظ سے کیا جائے تو بھی زندگی گزارنے کا نمونہ مل جاتا ہے۔قرآن پاک کا آغاز سورہ فاتحہ کے پہلے لفظ’’ الحمداللہ ‘‘ سے ہوتا ہے جس کا مطلب ہے ’’تمام تعریفیں اللہ کے لیے‘‘ ہیں۔درمیان سورہ کہف کی آیت انیس کے لفظ ’’ ولیتلطف ‘‘ ،جس کا معنی ہے’’ نرمی کرے‘‘ اور قرآن کا آخری لفظی سورہ الناس کا لفظ ’’ والناس ‘‘ہے ، جس کا معنی ’’ لوگ‘‘ ہے۔ان تین الفاظ کو اکٹھا کیا جائے تو ایکْ مختصر خلاصہ ایسے بھی کیا جاسکتا ہے ۔
’’یعنی اپنے پروردگار کی عظمت کو تسلیم کر کے جھک جاؤ ،اس کے شکر گزار بندے بن جاؤ اور لوگوں سے نرمی کرو۔‘‘
قرآن کا پہلا لفظ الحمداللہ شکر ادا کرنا ہے۔الحمداللہ صرف ایک لفظ نہیں کہ لگے بندھے ذبان سے بول دیا اور چہرے پہ مایوسی چھائی ہوئی ہو اور عمل میں نا فرمانی ہو۔بلکہ یہ تو ایک مثبت سوچ اور کردار کا نام ہے۔جب انسان شکر گزار ہو جاتا ہے اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے رب کی عظمت کو تسلیم کر رہا ہے،اس ذات کی عطا کی ہوئی نعمتوں کا اعتراف کر رہا ہے۔ اپنے گناہ اور غلطیاں مان رہا ہے۔اسے احساس ہے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے وہ رب کا احسان ہے ورنہ وہ اس قابل نہیں ۔ اس لیے وہ دل اور عمل سے شکر گزار بن جاتا ہے ۔یہ احساس اس کے اندر سے کبراور مایوسی نکال دیتا ہے۔جب کبر اور مایوسی جیسے منفی جذبات نکل جاتے ہیں توایک خوش اخلاق اور پر امید انسان سامنے آتا ہے جو اپنے جیسے انسانوں کو سمجھنے لگتا ہے، ان کی خوبیوں کا اعتراف کرکے انہیں عزت دینے لگتا ہے۔دوسروں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں پہ جلنے کڑھنے کے بجائے ان کو کھلے دل سے معاف کر دیتا ہے۔اس کی ذبان اور دل میں خود بخود دوسروں کے لیے نرمی اور خیر خواہی آ جاتی ہے۔ کیو نکہ انسان جب اللہ کی عظمت کو دل سے تسلیم کر لے تو یہ ہو نہیں سکتا کہ اس کی ذبان اور دل میں نرمی پیدا نہ ہو ۔ پھر یہ نرمی اس کی قول اور عمل میں نظر نہ آئے اور لوگوں کو اس کی ذات سے فائدہ نہ پہنچے۔
یہ خلاصہ مختصر صرف الفاظ میں ہے۔عمل میں آئے تو انسان کی پوری شخیصت کو بدل دیتا ہے۔ایک ایسا شکرگزار اور نرم مزاج انسان بنتا ہے۔ جس کی عبادات اور معاملات میں عاجزی ہے، جس کی ذبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ حتی کہ عبادات ، معاشرتی تعلقات، حقوق و فرائض ہر معاملے میں ایک مثالی رویے والا انسان بن جاتا ہے۔
یہ قرآن کا سبق ہے۔ جو شروع ہوتا ہے توحید اور ایمان سے اور مکمل ہوتا ہے معاشرت پہ ۔ جب کسی کا رویہ انسانوں سے نرم ہو جاتا ہے تو تب پتا چلتا ہے کہ ایمان مکمل ہو گیا ہے اور یہ ہے میرے رب کی مہربانی کہ جو اس سے جڑتا ہے وہ اسے انسانوں سے جوڑ دیتا ہے ، ان کے لیے مفید بنا دیتا ہے اور ہم انسان کیا کرتے ہیں جو رب کے راستے پہ چلتا ہے اسے تنہا چھو ڑ دیتے ہیں ۔ اس کا مذاق اڑانے لگتے ہیں، ہمیں لگتا ہے کہ وہ اب ہمارے کام کا نہیں رہا۔ ہم خود بھی آج قرآن پہ عمل کرنے سے ڈرتے ہیں کیونکہ ہمیں اس دنیا میں رہنا ہے ، اس کے ساتھ چلنا ہے اور اس پہ عمل ہمیں دنیا کے لیے بے کار بنا دے گا۔ یہ سوچ صر ف اور صرف اس لیے ہے کہ ہم نے اس کتاب کو پڑھا اور سمجھا ہی نہیں ورنہ ہم اپنے رب سے باغی اور انسانوں کے لیے اذیت کا سبب نہ بنتے۔
ہم ایک انسان کا لکھا ہوا ناول بھی پڑھتے ہیں تو اس سے متاثر ہو جاتے ہیں، اس کے ہیرو، ہیروین کو پسند کرنے لگتے ہیں ، شعوری یا لا شعوری طور پر اس کی حرکتوں اور الفاظ کو اپنانے لگتے ہیں اور ولن سے نفرت کرنے لگتے ہیں ۔ ہم اچھے مسلمان نہیں بن سکے ، اپنے عمل کو بامقصد نہیں بنا سکے کیونکہ اللہ کی کتاب کو اتنا بھی نہیں پڑھا جتنا ایک انسان کی کتاب کو پڑھتے ہیں اگر پڑھا ہوتا تو اللہ تعالی اپنے نبیوں اور صالحین کا ذکر جتنے پیار سے کرتے ہیں ، ہمیں ان سے محبت ہوتی ، انبیاء کی خوبیوں کو اپنا لیتے ، ان سے محبت کرتے اور شیطان جس کو اللہ نے دھتکار دیا ہم اس کے یوں اہلکار نہ بنتے ، اس سے دور رہنے کی کچھ نہ کچھ کوشش ضرور کرتے لیکن افسوس ہم شیطان کے دوست بن گئے اور رحمن سے دور ہوتے گئے، وہ اعمال جن کی وجہ سے پچھلی قوموں پر عذاب آ یا ہم وہ کام کر تے ہیں اور بہت فخر سے کرتے ہیں ۔
یاد رکھیں کہ دنیا کی کوئی کتاب، کوئی ادارہ ، کوئی ڈگری آپ کی سوچ میں اتنا شعور اور وسعت پیدا نہیں کرتی ، جتنی قرآن کرتا ہے۔ ہم اس کتاب سے دور اس لیے رہتے ہیں کیونکہ ہمیں لگتا ہے کہ قرآ ن پابندیوں کا نام ہے، اس پہ عمل کرنا ہماری آزادی کو ختم کر دے گا ۔ ایک بار اسے کھول کے دیکھیں ، اسے سمجھنے کی کوشش کریں تو جان جائیں گئے کہ قرآن تو دکھوں اور پریشانیوں سے آ زادی کا نام ہے ، نئے راستے دکھانے کا نام ہے، اندھیروں میں روشنی ہے ، روشن مستقبل کی نوید ہے ۔
مجھ کو بھی پڑھ، کتاب ہوں، مضمونِ خاص ہوں
مانا تیرے نصاب میں شامل نہیں ہوں میں
***********************
Comments
Post a Comment