"حسرت دل"
اپنے
پیارے وطن پاکستان اور اس کی عوام کا شمار کھیل سے محبت کرنے والوں میں کیا جاتا ہے
کیا جاتا ہے۔ بیٹھے بیٹھے یہی سوچ میرے ذہن میں آئی تو میں
نے
ماضی کے کچھ پردے چاک کیے اور اپنے وطن کے ماضی میں جھانک کر دیکھا تو اس بات کے کامل
ثبوت کے طور پر پاکستان کی شاندار اور تابناک تاریخ سامنے آئی جس کے اندر مختلف کھلاڑیوں
نے مختلف کھیلوں کے اندر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہوئے بہت سارے ریکارڈ، سونے,
چاندی کے تمغے اور ورلڈ کپ جیسے اعزازات اپنے نام کئے اور اپنے وطن کا نام پوری دنیا
میں روشن کیا۔
اگر
بات یہاں مختلف کھیلوں کی کی جائے تو پاکستانی ٹیم نے 1952 میں اپنا پہلا ٹیسٹ ڈیبیو
کیا اور تب سے لے کر اب تک پاکستان کرکٹ میں ورلڈ کپ٫ چیمپئنز ٹرافی٫ایشیا کپ اور ٹی
ٹونٹی ورلڈکپ سمیت مختلف طرح کے ٹائٹل اپنے نام کر چکا ہے.
یہی
پر اگر ہم پاکستان کے قومی کھیل ہاکی کو پکڑ لیں تو پاکستان ہاکی میں 1971, 1978,
1982 اور 1994 میں ورلڈ چیمپیئن رہ چکا ہے اور اس کے بعد سے لے کر اب تک ہاکی کے میدانوں
میں مسلسل خاموشی چھائی ہوئی ہے اور ہر طرف سے شرمناک شکست کی آواز ہی آرہی ہے۔
پاکستان
نے ایشین گیمز میں سیکنڈ ایڈیشن 1954 سے حصہ لینا شروع کیا اور شروع شروع میں پاکستان
کے کھلاڑی اس کے میدانوں میں چھائے رہے۔ اتھلیٹس نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا
اور ایشین گیمز میں پاکستان نے سونے کے 44، چاندی کے 63 اور برونز کے 97 تمغے ملاکر
ٹوٹل اب تک 204 تمغے حاصل کئے اور اب ہماری حالت زار یہ ہے کہ اب حال ہی میں منعقد
ہوئی ایشین گیمز میں ہماری رینکنگ 35 نمبر پر رہی اور یاد رہے کہ ٹوٹل 37 ممالک ان
گیمز کے اندر شامل تھے یعنی ہم نیچے والی سائڈ سے ٹاپ سکورر رہے۔
اسی
طرح پاکستان سکواش کے میدانوں میں جان شیر خان جیسے کھلاڑیوں کی موجودگی میں 90 کی
دہائی میں عالمی چیمپیئن رہ چکا ہے
الغرض
اگر پاکستان کا نام ماضی کے میدانوں میں اتنا روشن تھا تو اب تو اس میں اور بھی اضافہ
ہونا چاہیے تھا کیونکہ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے ویسے ویسے تجربہ بڑھتا ہے اور کارکردگی
میں نکھار آتا ہے مگر ہماری بدقسمتی ملاحظہ کیجئے کہ ہمارے ساتھ اسکے برعکس ہوا ہے۔
ہمارے میدانوں میں بجائے عروج آنے کے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زوال آتا گیا۔آخر اس کی
وجہ کیا ہے۔ ہمارا زوال کب شروع ہوا۔ کیسے ہم اول سے آخر میں چلے گے۔ آئیے ان چند وجوہات
کا سرسری سا جائزہ لیتے ہیں۔
اس
سب وجوہات کو سمجھنے کے لیے کسی افلاطون کی عقل اور ارسطو کا دماغ ہونے کی ضرورت نہیں
بلکہ اس کی وجوہات نہایت سادہ ہے جو کہ حقیقت میں ہماری اپنی غفلتوں کا نتیجہ ہے۔
کھیل
میں زوال کی ابتدا کا سہرا کچھ تو ہمارے معاشرے کو ہی جاتا ہے۔ یہاں پر بہت سارے ایسے
کے سامنے آتے ہیں جن میں والدین خود ہی اپنے نہایت ٹیلنٹڈ بچے کو کسی نہ کسی وجہ سے
کھیلنے سے روک دیتے ہیں اور بچے کا تمام ٹیلنٹ ضائع ہو جاتا ہے۔
اور
یہیں پر ہمارے ملک کا ایک المیہ اور بھی ہے کہ یہاں پر عوام کی زیادہ تعداد سفید پوش
طبقے سے تعلق رکھتی ہے اور ان کی آمدنی صرف اتنی ہوتی ہے کہ وہ اپنا گزر بسر سفید پوشی
کا بھرم رکھتے ہوئے بہت مشکل سے کرتے ہیں تو وہاں پر وہ اپنے بچے کو کھیل کے ضروری
اور بنیادی لوازمات لے کے دینے کی استطاعت نہیں رکھ پاتے اور یوں بے تحاشہ ٹیلینٹ اندر
ہی اندر دفن ہو جاتا ہے۔
اس
زوال کی دوسری وجہ ضلعی لیول پر بنیادی پلیٹ فارم کی عدم دستیابی اور مناسب رہنمائی
کا فقدان ہے۔
کسی
بھی کھیل کے اندر کھلاڑی میں پختگی صرف اسی وقت نہیں آتی کہ جب وہ انٹرنیشنل سطح پر
کھیلتا ہے بلکہ وہ کھلاڑی صحیح معنوں میں پختہ اپنے بنیادی پلیٹ فارم پر ہوتا ہے۔ اگر
ہمارے یہاں پر بچوں کو ایک ایسا مناسب پلیٹ فارم مہیا کیا جائے اورممکن مناسب سہولیات
دی جائیں آج بھی گلی محلے ایسے ٹیلنٹ سے بھرے پڑے ہیں کہ جو مستقبل میں ہمارا نام روشن
کر سکتے ہیں۔
آخری
وجہ ہمارے سپورٹس بورڈز کے اندر سیاسی اور نااہل بھرتیاں ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ
ہمارے ہر ادارے کے اندر بہت سے نااہل افراد ڈیرہ ڈالے بیٹھے ہیں جو بجائے اپنی اہلیت
کے کسی طاقتور کے ریفرنس پر آئے ہوتے ہیں اور ساتھ ہی افسوس کی بات یہ ہے کہ اصل طاقت
بھی ان نااہلوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور وہ پھر آگے بھی اپنے جیسے سفارشی اور نااہل
لوگوں کو سلیکٹ کرتے ہیں اور پھر آگے باقی رہی سہی کسر ہماری ڈریسنگ روم میں کھلاڑیوں
کی اپنی گروپ بندی پوری کر دیتی ہے اور ان کا دھیان کھیل سے زیادہ اپنے گروپوں اور
آپس کی جوڑ توڑ میں رہتا ہے۔
اگر
ہم کھیل کے میدانوں میں اپنا تابناک ماضی واپس لانا چاہتے ہیں تو اس میں ہم سب کو بحیثیت
قوم اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور میری اس تحریر کے ذریعے حکومت سے بھی مودبانہ گزارش
ہے کہ وہ اس سلسلے میں مناسب اقدامات کریں تاکہ ہم اپنے ماضی کو پھر سے زندہ کر سکے۔
موجودہ حکومت تو اسکی اہمیت کو اور بھی اچھی طرح سمجھتی ہے کیونکہ ہمارے موجودہ وزیر
اعظم خود ایک سپورٹس مین اور امید ہے کہ وہ ان تمام حالات کو سمجھتے ہوئے بہت مناسب
اقدامات کریں گے کیونکہ ابھی بھی وقت ہے ورنہ اللہ نہ کرے کہیں ہمیں ہوش اس وقت نہ
آئے کہ جب بقول شاعر
نہ
سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے
تمہاری
داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں
از
قلم۔ عام آدمی ( محمد عمران اشرف(
imranashraf444@gmail.com
آپ نے بالکل بجا فرمایا۔اللہ پاک ہمارے حکمرانوں کو بھی آپ جیسی سوچ عطا فرمائے۔آمین
ReplyDeleteImran bhai boht khub! Maa sha Allah
ReplyDeleteM khna chahon ga k
اللہ کرے زور قلم اور ذیادہ
MASHALLAH bhai.
ReplyDeleteAllah pak rehmat kre aur sb ko hidyat naseeb frmye. Aameen