ہجومِ بےقرار
غُلام شبیر
حُسین
بحیثیت معاشرہ ہم لوگ بیڑ بکریوں کے
اس ہجوم سے بھی بدتر ہیں جو ایک ساتھ مل کے چلتے ہیں. جناب حسن نثار کے یہ الفاظ
بہت قیمتی ہیں کہ آج ٹاور سے گھر کی طرف پیدل چلتے ہوئے راستے میں اپنے آس پاس نظر
کو پھرایا اور لوگوں کا ایک ایسا ہجوم دیکھنے کو ملا جو کمال کی جہالت رکھتا ہے
مطلب ایسی جہالت شاید کسی جنگل میں بھی نہ ملے تھوڑی سی منظر کشی کرتے ہیں کہیں
موٹر سائیکل سواروں کا ہجوم کہیں ٹھیلے والے تو کہیں جناب رکشے والے کہیں دکان کے
باہر پتھارے والے گلیوں کی ایسی حالت کر بیٹھتے ہیں کہ گزرنا محال ہے علاوہ ان کے
کراچی کی سڑکوں پر گداگری کا پیشہ بھی بہت طول اختیار کرتا نظر آتا ہے ایسا لگتا
ہے جیسے ہمارے پاس غرباء کا کوئی پرسان حال ہے ہی نہیں ایک طرف دفاتر میں جہاں
پیسے کی نمود و نمائش کا بازار گرم ہے وہی باہر نکلو تو سڑکوں پر سوتے ہوئے بیکاری
سمجھ سے بالاتر معاملہ غریب کہتا ہے گھر کا ایک دن کا چولہ پانچ سو روپے میں جلتا
ہے وہی ایک امیر دوست آکر کہتا ہے ہزار روپے کا پیزہ کھایا پر مزہ ہی نہیں آیا اور
دونوں ایک ہی دفتر میں کام کرتے ہیں بحیثیت مسلمان تو کوئی بات کرنا ہی فضول ہے
اچھا لگتا اگر ہم بھی لکھتے بحیثیت انگریز شاید لوگ پھر پڑھ لیتے کیونکہ آج کل
تہذیب کو وہاں سے لیا جاتا ہے. خیر میں یہ کہہ رہا ہوں کہ میرے دین میں غرباء کو
عزت بخشی ہے جو کہ نظر نہیں آتی تو ہم اس پر بات ہی نہیں کرتے جہاں تک ایک اشارہ
قرآن نے یہ دیا ہے کہ زکوٰۃ ادا کیا کریں تو میں یہاں بالکل حیران ہوں کہ اگر لوگ
زکوٰۃ ادا کرتے ہیں تو یہ غربت ختم تو چھوڑیں کم از کم کم ہی ہوتی نظر آئے مگر
ایسا کچھ نہیں پر افسوسناک بات یہ ہے کہ سب اپنے مال کو اپنے ساتھ لے جانے کی کسی
اعلا کوشش میں اتنے بےحس ہیں کہ کسی کو کچھ نظر ہی نہیں آتا سوائے اپنے. ایک
نفسانفسی کا عالم نظر آتا ہے ہر سمت ہر طبقے میں امیروں میں غرور انتہا کا اور
غریبوں میں بے صبری اور لالچ تو دونوں طرف اب آتے ہیں تھوڑا اخلاقیات کی طرف جو کہ
کبھی کہیں نظر آ بھی جائے تو حیران ہو جاتے ہیں اور عجیب و غریب بات لگتی ہے غریب
امیر کے آگے جتنا خوش اخلاق بنتا ہے اتنا تو وہ اپنے والد کے سامنے بھی نہیں بنتا
اور امیر صرف تب تک خوش اخلاق بنتا ہے جب تک غریب اس کا کوئی کام مفت میں یا سستے
میں کروا دیتا ہے اور اپنے اپنے گھروں میں انکے اخلاق کی کوئی گنجائش نہیں ملتی
ہوگی یقیناً تو یہ صرف میرا ایک اپنا نظریہ ہے جو میں اپنے ارد گرد دیکھتا ہوں
شاید آپ بھی دیکھتے ہوں گے میرا مقصد کسی کی دل آزاری کرنا نہیں ہوتا مگر یہ بات
بھی حقیقت ہے کہ اخلاقی طور پر ہم ایک درست قوم نہیں ہیں. اللہ توفیق عطا فرمائے
کہ ہم اچھی بہ اخلاق اور پر وقار قوم کے طور پر اپنا تعارف حاصل کر سکیں شکریہ.
غُلام شبیر حُسین.
**********************
Comments
Post a Comment