عمل سے زندگی بنتی ہے
رومانہ گوندل
کسی بھی وقت اور معاشرے
میں کوئی نیا پیغام لانا اور لوگوں کو سمجھانا اور قائل کرنا ہمیشہ سے ایک مشکل
کام رہا ہے ، اس نئے پیغام کا تعلق مذہب اور عقیدے سے ہو تو وہ اور بھی مشکل ہو
جاتا ہے۔ آج سے چودہ سو سال پہلے آسمانوں سے دین حق کا پیغام لے کر حضرت جبرائیل
اتارے گئے اور حضرت محمد ﷺ تک وحی پہنچائی گئی ۔ جب نبی ﷺ نے یہ پیغام لوگوں تک
پہنچایا تو لوگوں کا رویہ وہی تھا جو ہر نئے پیغام کے ساتھ ہوتا ہے۔ شدید مخالفت
کا سامنا کرنا پڑا جس سے ایک مشکل ترین دور کا آغاز ہو گیا ۔ چند گنے چنے لوگ ایمان
لائے جن پر حلقہ حیات کفار نے تنگ کر رکھا تھا۔ ہر طرف سے مخالفت جاری تھی۔ مسلمان
تعداد میں تھوڑے اور کمزور تھے اور کفار ایک بڑی تعداد میں ہونے کے ساتھ ساتھ
طاقتور بھی تھے ۔ اس دور میں عرب میں دو با اثر لوگ عمر بن خطاب اور عمرو بن ہشام
تھے ۔ جن کا اس معاشرے میں ایک نام اور مقام تھا اور کفار کی بہت بڑی طاقت تھے ،
جہاں مسلمان پس رہے تھے ۔ تب نبی ﷺ نے دعا کی کہ ان دونوں میں سے کوئی مسلمان ہو
جائے۔ آپ ﷺ کی دعا قبول ہوئی اور عمر بن خطاب نے اسلام قبول کر لیا۔
عمر بن خطاب جن کو دنیا عمر فاروقؓ کے نام سے جانتی ہے ۔ جو صرف اسلام نہیں دنیا کی تاریخ میں ایک ہیرو ہیں ۔ وہ ایک بہادر اور نڈر انسان، بہترین مسلمان، بہترین حکمران تھے۔ ان کے دور حکومت ، انصاف، فتوحات کی کوئی دوسری مثال تاریخ میں نہیں ہے۔ کفر و شرک کے اس دور میں اسلام کا ایک مضبوط ہتھیار بنے جن سے نہ صرف کفار مرعوب رہتے تھے بلکہ وہ تو ایک ایسی شخصیت تھے کہ جس راستے سے وہ جاتے شیطان بھی وہ راستہ چھوڑ دیتا۔ ان کی بات کی تائید آسمانوں سے کی جاتی تھی۔ ان کی رائے رب ذوالجلال کا حکم بن جاتا ۔ اسلام کی سر بلندی میں حضرت عمرؓ کا اتنا کردار ہے کہ ان جیسی ایک شخصیت اور ہو جاتی تو پوری دنیا میں اسلام کا غلبہ ہوتا۔
حضرت عمرؓ عام انسان نہیں تھے ، جن کو نبی ﷺ نے اللہ سے مانگا ہو وہ عام ہو بھی کیسے سکتے تھے۔ لیکن ذرا غور کریں کہ نبی ﷺ کی دعا میں صرف عمر بن خطاب نہیں تھے عمرو بن ہشام بھی شامل تھا لیکن کس چیز نے عمر بن خطاب کو حضرت عمر فاروقؓ بنا دیا اور عمرو بن ہشام کو ابو جہل۔ یہ ہوتی ہے انسان کے اندر کی خیر اور شر۔ اندر خیر ہو تو عمر فاروق بنتے ہیں ورنہ اپنے اندر کفرو شرک بھرا ہو تو چاہے نبی کی دعا بھی ہو پھر بھی عمرو بن ہشام ابو جہل ہی بنتا ہے۔
آج ہم خود اللہ کی طرف نہیں موڑنا چاہتے جھوٹے سہارے تھام کے کھڑے ہیں۔ کبھی کسی پیر کے آستانے پہ بیٹھ کے ، کبھی کسی مزار پہ جا کے ہمیں لگتا ہے ہم کامیاب ہو جا ئیں گئے تو ایسا نہیں ہے۔ وجہ اس کا غلط یا صیحح ہونا نہیں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس دنیا میں نبی ﷺ سے ذیادہ معتبر اور نیک ہستی نہ آئی ہے ، نہ آئے گی ۔ عمرو بن ہشام آپﷺ کی دعا میں شا مل بھی تھا ۔لیکن وہ ابو جہل ہی رہا کیو نکہ اس کا اپنا عمل وہی تھا لیکن وہی دعا عمر بن خطاب کو فاروق بنا دیتی ہے۔ کیونکہ ان کے اپنے اندر خیر تھی ۔ ان دونوں میں بہت صلاحیتیں تھی لیکن فرق صرف استعمال کا تھا ۔ کفر میں وہ صلاحیتیں لگائی تو ابو جہل بن گیا اور حق میں لگائی تو عمر فاروق بن گئے۔
عمل سے زندگی بنتی ہے، جنت بھی ، جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
ہم ساری زندگی عروج کے خواب دیکھتے ہیں لیکن عمل کی اہمیت نہیں سمجھتے۔ اس لیے اپنی نا کامیوں کا ذمہ دار ارد گرد کے لوگوں یا پھر شیطان کو ٹھہراتے رہتے ہیں اور کبھی سیدھے راستے پہ نہیں آتے۔ یہ کبھی نہیں سوچتے کہ نا کامیوں کے پہلے قصور وار ہم خود ہیں ۔ لیکن یہی سچ ہے اس لیے پہلی خیر ہمارے اندر سے پھوٹے گی تو ہر طرف روشنی نظر آئے گی۔
ایویں روز شیطان نال لڑدا ایں
کدی نفس اپنے نال لڑیا ای نیءں
عمر بن خطاب جن کو دنیا عمر فاروقؓ کے نام سے جانتی ہے ۔ جو صرف اسلام نہیں دنیا کی تاریخ میں ایک ہیرو ہیں ۔ وہ ایک بہادر اور نڈر انسان، بہترین مسلمان، بہترین حکمران تھے۔ ان کے دور حکومت ، انصاف، فتوحات کی کوئی دوسری مثال تاریخ میں نہیں ہے۔ کفر و شرک کے اس دور میں اسلام کا ایک مضبوط ہتھیار بنے جن سے نہ صرف کفار مرعوب رہتے تھے بلکہ وہ تو ایک ایسی شخصیت تھے کہ جس راستے سے وہ جاتے شیطان بھی وہ راستہ چھوڑ دیتا۔ ان کی بات کی تائید آسمانوں سے کی جاتی تھی۔ ان کی رائے رب ذوالجلال کا حکم بن جاتا ۔ اسلام کی سر بلندی میں حضرت عمرؓ کا اتنا کردار ہے کہ ان جیسی ایک شخصیت اور ہو جاتی تو پوری دنیا میں اسلام کا غلبہ ہوتا۔
حضرت عمرؓ عام انسان نہیں تھے ، جن کو نبی ﷺ نے اللہ سے مانگا ہو وہ عام ہو بھی کیسے سکتے تھے۔ لیکن ذرا غور کریں کہ نبی ﷺ کی دعا میں صرف عمر بن خطاب نہیں تھے عمرو بن ہشام بھی شامل تھا لیکن کس چیز نے عمر بن خطاب کو حضرت عمر فاروقؓ بنا دیا اور عمرو بن ہشام کو ابو جہل۔ یہ ہوتی ہے انسان کے اندر کی خیر اور شر۔ اندر خیر ہو تو عمر فاروق بنتے ہیں ورنہ اپنے اندر کفرو شرک بھرا ہو تو چاہے نبی کی دعا بھی ہو پھر بھی عمرو بن ہشام ابو جہل ہی بنتا ہے۔
آج ہم خود اللہ کی طرف نہیں موڑنا چاہتے جھوٹے سہارے تھام کے کھڑے ہیں۔ کبھی کسی پیر کے آستانے پہ بیٹھ کے ، کبھی کسی مزار پہ جا کے ہمیں لگتا ہے ہم کامیاب ہو جا ئیں گئے تو ایسا نہیں ہے۔ وجہ اس کا غلط یا صیحح ہونا نہیں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس دنیا میں نبی ﷺ سے ذیادہ معتبر اور نیک ہستی نہ آئی ہے ، نہ آئے گی ۔ عمرو بن ہشام آپﷺ کی دعا میں شا مل بھی تھا ۔لیکن وہ ابو جہل ہی رہا کیو نکہ اس کا اپنا عمل وہی تھا لیکن وہی دعا عمر بن خطاب کو فاروق بنا دیتی ہے۔ کیونکہ ان کے اپنے اندر خیر تھی ۔ ان دونوں میں بہت صلاحیتیں تھی لیکن فرق صرف استعمال کا تھا ۔ کفر میں وہ صلاحیتیں لگائی تو ابو جہل بن گیا اور حق میں لگائی تو عمر فاروق بن گئے۔
عمل سے زندگی بنتی ہے، جنت بھی ، جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
ہم ساری زندگی عروج کے خواب دیکھتے ہیں لیکن عمل کی اہمیت نہیں سمجھتے۔ اس لیے اپنی نا کامیوں کا ذمہ دار ارد گرد کے لوگوں یا پھر شیطان کو ٹھہراتے رہتے ہیں اور کبھی سیدھے راستے پہ نہیں آتے۔ یہ کبھی نہیں سوچتے کہ نا کامیوں کے پہلے قصور وار ہم خود ہیں ۔ لیکن یہی سچ ہے اس لیے پہلی خیر ہمارے اندر سے پھوٹے گی تو ہر طرف روشنی نظر آئے گی۔
ایویں روز شیطان نال لڑدا ایں
کدی نفس اپنے نال لڑیا ای نیءں
**************************
Comments
Post a Comment