ایک ہزار٠٠٠٠٠٠٠سو بیمار“
تحریر٠٠٠ملک محمداسلم ہمشیرا
Ges
kakis uch sharif w
03093774465
کل
بعد نماز مغرب مَیں فروٹلینے الشمس چوک پر گیا کیونکہ اگلے دن خراب ھونے کے خدشے کے
پیش نظر اس وقت مال ناصرف سستا مل جاتا ھے بلکہ ”مہرہ“ پر بھی دسترس حاصل ہوسکتی
ھے
وھاں
سے چند قدم آگے پنجند ھوٹل🍴
کی بنچ پر ایک صاحب بیٹھے ایک شامی اور چٹنی سے آتشِ شکم
بجھا رھے تھے ،ڈاڑھی اور سرکے بال خاک سے اٹےھوے تھے حُلیے سے اندازا ھو رھا تھا کہ
یہ موصوف یا تو کپاس کی ٹرالی میں ”لتَاڑا“ ھے یا پھر گورکن ھے جو ابھی ابھی قبر کشاٸی
کر کے آ رھا ھے ،
کھانے
کی سپیڈ اس بات کی غمازی کر رھی تھی کہ جناب کٸ
پہروں سے بھوکے ھیں تبھی تو ایسے تناول فرما رھے تھے جیسے بطخ گیلی مٹی کھاتی ھے،موصوف
دس روپے کی ایک شامی کے ساتھ تین دفعہ راٸتہ
سلاد منگوا چکے تھے،اس کے بعد پانی کے جگ سے اپنا کوٹہ پورا کیا اور بقیہ بچے ہوٸے
پانی سے اپنے منہ شریف کو چھینٹے مارے،اور کندھے پر رکھے فریدی رومال سے اپنا منہ صاف
کیا،
تو
جناب موصوف نے جیسے ھی صافی سے منہ صاف کیا تو نیچے سے ایک جانی پہچانی شخصیت کا ظہور
ھونے لگا تھوڑی دیر بعد ”ماسٹر حضور بخش“ کا اصلی چہرہ منظر عام پر آ چکا تھا،چنانچہ
اب سلام دعا کرنا ناگزیر ھو چکا تھا ،لہذا موجودہ حالت کی بابت پوچھا تو موصوف نے قصہ
ٕدل درد کی داستاں جو بیان کی ٠٠٠آٶ
آپ خود ھی اس کی زبانی سُن لیں٠٠٠٠
”ملک صاحب ہفتہ 16اکتوبر کی ایک روشن صبح تھی سکول میں سب کچھ ٹھیک
چل رھا تھا کہ اچانک ماسٹر فیاض فتنہ صاحب کو باوثوق ذراٸع
سے اطلاع ملی کہ
”
ایس ایے ھاٸی
سکول میں مبلغ ایک ھزار روپیہ اُن اساتذہ کو مل رھا ھے جنہوں نے اپنی جانوں پر کھیل
کر الیکشن ڈیوٹی کی ٹرینگ کی تھی“
اس
دھماکہ خیز خبر کے بریک ھوتے ھی پورے سکول میں سنسنی پھیل گٸ
تمام اساتذہ پر ہیجانی کیفیت طاری ھوگٸ
،تمام اساتذہ نے خبر کی صحت کے لیے اپنے اپنے موباٸل
سے تصدیقی رابطے شروع کر دیے ،کسی ایک مدرس کے آشنا نے چشم دید گواہی دی اور کہا کہ
واقعی رقم چلت ھو رھی ھے،یقین کامل ہوتے ہی اب٠٠٠٠سکول میں یک ھزاری منصب کی
فیض یابی کے لیے دو دو تین تین اساتذہ کی مشاوراتی کوٹھیاں (ٹولیاں) بننے لگیں ،بریک
تک پڑھاٸی
کی بجاۓ
ہزار روپیہ ہی زیرِ بحث رھا،بریک کے بعد فیاض فتنہ نے ایک اور خبر بریک کی کہ اپنی
ٹرینگ کی تاریخ بھی لازمی یاد ھونی چاہیے ، یہ ایک نیا چیلنج درپیش تھا کیونکہ اساتذہ
کو تو رات کا کھایا بھی یاد نہیں رہتا اور چار ماہ پہلے ٹرینگ ڈیٹ کہاں یاد ہوتی ،چنانچہ
سب مدرسین کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے اپنے ماضی کو کھنگھالنے لگے،اچانک ماسٹر اکرم
کی ویران آنکھوں میں چمک عود کر آ گٸ
اور پتلی مونچھیں پھڑپھڑانے لگیں یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ جناب کے شیطانی دماغ میں
کوٸی
ترکیب وارد ھو گٸ
ھے
چپٹی
بجا کراس نے رجسٹر حاضری مدرسین اٹھایا اور کسی گھاگ پٹواری کی طرح صفحے پلٹنے لگا،تمام
اساتذہ کی تاریخ ٹرینگ پل بھر میں دیکھ کر بتا دی،
تو
جناب ہم تمام اساتذہ سر پر کفن باندھے ،ہزار روپے کی شاپنگ کے خواب آنکھوں میں سجاٸے٠٠٠٠
چھٹی سے ٹھیک پندرہ منٹ پہلے تھری نٹ تھری کی گولی کی طرح نکلے اور آدھے گھنٹے سے بھی
کم وقت میں ایس اے ھاٸی
سکول جا دھمکے
تو
جناب وہاں تو منظر ہی عجیب تھا ،سکول کا گراٶنڈ
پانی پت کی پہلی جنگ کا منظر پیش کر رہا تھا ہزاروں کی تعداد میں مدرسین اپنی تشنگی
ٕ معاش کی آبیاری کیلیے کانٹوں پر چل کر آ گٸے
تھے،
یہاں
پر خواتین اساتذہ کی ہمت وجانفشانی کا ذکر نہ کرنا بھی زیادتی ہو گی جو ایک ہزار کی
خطیر رقم کیلیے گھر سے کشتیاں جلا کر نکلی تھیں اور کچھ تو دو ہزار بیوٹی پارلر کو
دے کر ایک ہزار لینے آ پہنچی تھیں ،کچھ اپنے بچوں کو روتا چھوڑ کر اس مقدس فرض کی تکمیل
کے لیے حاضر ہوٸیں
تھیں
اب
ذرا قوم کے معماروں کے بہانے بھی سُن لیں ٠٠٠٠جِس سے بھی پوچھا کیا کہ٠٠٠٠” تم بھی
ہزار کے چکر میں آٸے
ھو؟ تو فوراً جواب دیتا کہ ”نہیں یار میں تو ویسے احمد پور کسی ذاتی کام سے آیا تھا
تو میں نے سوچا چلو ہزار تو لیتا جاٶں،
تقریباً 99.99فیصد اساتذہ ہزار کیلیے نہیں بلکہ کسی اور کام سے احمد پور آۓ
تھے
کچھ
نے تو اپنی نقلی نوابی عزت کا مان رکھنے کی خاطر چار دوستوں کو بھی کہہ دیا کہ گولی
مارو ہزار کو آٶ
گھر چلیں ٠٠٠٠٠تاریخ گواہ ھے کہ سبھی سر ہلاتے ہاٸی
سکول سے تو باہر نکل آٸے
مگر بازار آتے ہی سب نے سلیمانی ٹوپی پہن لی اور غاٸب
ھو گٸے
اور دو گھنٹوں بعد دوبارہ اُسی گراٶنڈ
میں دیکھے گۓ
،یہ اور بات ہے کہ سب نے ایک دوسرے کو دیکھ کر نظریں چُرا لی ہوں
چنانچہ
رقم چلت کرنے والے عملے نے اساتذہ کے اس مثالی نظم و ضبط کودیکھتے ہوٸے
چار قطاروں میں تقسیم کیا اور ایسے چلت فرمانے لگے جیسے باڑے میں ”وچھوں“کو گل گھوٹو
سے بچاٶ
کیلیےٹیکے لگاٸے
جا رہے ہوں،
چنانچہ
اس گوہرِ نایاب کے حصول کے لیے مَیں اور ماسٹر حبیب نے بھی قسمت آزماٸی
کا فیصلہ کر لیا اور نعرہٕ تکبیر کی سدا بلند کرتے ہوٸےافراد
کے اس بحرِ بے کراں میں کود پڑے،ٕسینکڑوں اساتذہ کو چکمہ دیتے ھوٸے
ہم اگلی صفوں میں پہنچ گٸے
،چند نوجوان استادوں کو غنچا دے کر میں تو ایک قطار میں ضم ہوگیا ،تین گھنٹے ایک دوسرے
کے پیر لتاڑتے جیسے ہی کاٶنٹر
پر پہنچا انھوں نے ڈیٹ پوچھی جو مجھے طوطے کی طرح ازبر تھی اس کے بعد انھوں نے سیریل
نمبر پوچھا جس کا تو میرے فرشتوں کو پتہ بھی نہ تھا ،بس اسی ایک لا علمی نے ”ہزار
“کا ” مزار “ بنا دیا،میں نے لاکھ ترلے کیے مگر ٠٠٠٠٠مجھے دودھ سے مکھی کی طرح نکال
باہر کر دیا گیا،
چنانچہ”
بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے٠٠٠٠٠والا گانا گنگناتا ہوا سکول کی پتلی گلی
سے نکلا اور گھر کو روانہ ہو گیا٠٠٠٠٠٠“
ماسٹر
حضور بخش تو خاموش ہوچکے تھےمگر مجھے ایک نٸے
کالم کیلیے ایک مضمون دے گۓ
جناب
والا ہم پوری دنیا میں رونا روتے ہیں کہ” استاد کو عزت دو٠٠٠استاد کو عزت دو٠٠٠کیا
ہم نے کبھی اپنے گریباں میں جھانکا بھی ہیے کہ کیا ہماری عادات و حرکات اس قابل بھی
ہیں؟کہ ہمیں عزت دی جاۓ؟
جب.50
ہزار تنخواہ والا استاد صرف ایک ہزار کیلیے بن بلاٸے
مہمان کی طرح کھڈے لاٸن
جا لگے ۔۔۔۔۔۔۔یا کسی دعوت پر صرف ایک ایک
بوٹی کیلیے انصاف و ناپ تول پر مبنی احادیث
سناٸے
۔۔۔۔۔۔یا لنچ ٹاٸم
بچوں کے لنچ باکس پر نظریں جماۓ۔۔۔۔۔۔۔یا
پھر سکول میں ٹک شاپ لگا کر سکول میں پاپڑ اور پینسلیں بیچنا شروع کردے تو کیا اپنی عزت کا گلا ہم خود
تو نہیں گھونٹ رہے؟
اس
کے علاوہ جو اساتذہ ان عادات سے مبرا ہیں اُن کو عزت مانگنے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ
خدا پاک خود اُن کو عزت عطا کرتا ھے ہمارے اس محکمے میں اکثریت اُن اساتذہ کی ہے جو
صرف اللہ تعالی کی خوشنودی کیلیے تعلیم دیتے ہیں اور کسی صورت اپنا معیار نہیں گراتے٠٠٠٠
وَعَلَيْكُم
السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
اللہ
نگہبان ھو سب کا
دعاگو
ملک اسلم ہمشیرا
Comments
Post a Comment