"ادھورے خواب ''
از"اقراءفیض"
کتنی حسین تھی وہ صبح ۔۔۔سڑک پر بارش
کے قطرے کچھ الگ طور سے اتر رہے تھے ۔۔۔سورج بھی غا یب تھا ۔۔۔ہواوں کا رخ بھی
بدلہ بدلہ سا تھا ۔۔۔کیا خبر تھی کے بہاریں تھوڑی دیر کے لیے ہیں ۔۔۔سب خواب
ادھورے رہ جایئں گے ۔۔۔اور دعایں بھی اثر
ہو جائیں گی ۔۔۔
مریم کالج کی سٹوڈنٹ تھی وہ اپنے کلاس
فیلو اقبال سے بہت متاثر تھی اس نے اقبال
سے دوستی کر لی ۔۔۔دوستی پیار میں بدل گئی ۔۔مریم کی دوست سویرا اس بات سے بے خبر
تھی ۔۔۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پیار اور بھی گہرا ہوتا گیا ۔۔۔مریم اور سویرا کا تعلق
اونچے گھرانوں سے تھا جبکہ اقبال غریب گھرانےسے تھا ۔۔۔مریم اپنے والدین کی اکلوتی
اولاد تھی اس لیے اسے لگتا تھا کے اسکے ماں باپ اس کی خوشی کے لیے اقبال کو قبول
کر لیں گے ۔۔
دوسری طرف اسکے ماں باپ کسی اونچے
گھرانے میں بیانے کے خواب دیکھ رہے تھے ۔۔۔اسکی ماں کو غریبوں سے سخت نفرت
تھی اسے اپنے جسے پیسے والے لوگ پسند تھے
۔۔۔مریم اقبال کو اپنی ماں سے ملوانے کے لیے گھر لے کر آئی اقبال کو دیکھنا تھا کے
اسکی ماں کا پارا ہائی ہو گیا
اقبال سے ملنے کے بعد وہ اسکے گھر گئی
اور انکی انسلٹ کرتے ہوئے کہا کے ہم سڑک پے پرے کوڑے سے اپنی بیٹی کو نہیں باندھے
گے ۔۔۔گھر آنے پر ماں نے مریم کو صاف لفظوں میں انکار کر دیا جس سے دونوں میں بحث
ہوئی مریم کا باپ سب سن رہا تھا کھڑا اسے ہارٹ اٹیک ہو گیا اور وہ اس دنیا سے پردہ
کر گیا ۔۔۔
اب مریم کی ماں نے تھان لی کے کسی بھی
صورت وہ اقبال سے رشتہ نہیں کرے گی
مریم نے بہت کوشیش کی مگر پھر ماں کی
ضد میں آ کر اس نے ایک ادھیڑ عمر شخص سے شادی کی ٹھان لی ۔۔۔وہ اقبال سے ملنے گئی
اور اسے سب بتا دیا کے اب وہ ضد میں ایسا کرے گی ۔۔
محبت میں ضد سوچ سمجھ کے کرنا
ضد کی جنگ میں اکثر جدائی جیت جاتی ہے
اور ایسا ہی ہوا دونوں کی محبت میں
جدائی جیت گئی ۔۔۔جس ادھیڑ عمر شخص سے وہ شادی کرنے جا رہی تھی وہ اسکی دوست سویرا
کا باپ تھا ۔۔۔اسکے سارے خواب ٹوٹ چکے تھے لیکن وہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے
خوابوں کو بھی ادھورا کر چکی تھی۔۔۔
وہ میرا خواب تھا
تعبیر نہیں بن پایا
جسے میں نے چاہا
وہ میری تقدیر نہیں بن پایا
سویرا کے باپ سے شادی کر کے وہ سویرا
کی نفرت کا بھی مرکز بن چکی تھی وہی دوست جو اسے جان سے زیادہ چاہتی تھی اب مریم
کو دیکھنا بھی نہیں چاہتی تھی ۔۔۔سویرا کے لیے جو ٹیوٹر رکھا گیا وہ اقبال تھا اس
بات کا علم سویرا اور اسکے باپ کو نہیں تھا کے مریم اور اقبال ایک دوسرے کو جانتے
ہیں ۔۔۔جب اقبال پڑھانے آیا تو اس نے مریم کو سلام کیا اسکی حیرت کی انتہا نہ رہی
جب اسے پتا چلا کے جس شخص سے شادی کی ہے وہ کوئی اور نہیں سویرا کا باپ ہے ۔۔۔مریم
نے اپنے شوہر سے کہا کے اس کی جگہ کوئی اور ٹیوٹر رکھا جائے مگر تب تک سویرا سب
جان چکی تھی اس نے اپنے باپ سے کہا اگر وہ پڑھے گی تو صرف اقبال کے پاس ۔۔۔مریم کے
پاس دولت عیش و عشرت سب تھا مگر سکون نہیں
تھا ۔۔۔ادھوری تھی زندگی ہر خواب ادھورا تھا ہر خوشی ادھوری تھی ۔۔۔
اقبال اور سویرا کی اندراسٹینڈنگ ہو
گئی اقبال نے سویرا کو پرپوز کیا سب کی مخالفت کے باوجود سویرا نے ہاں کر دی
۔۔۔اقبال بھی وہ سب مل گیا جو سب مریم کو
ملا ۔۔مگر کسی اور کے خواب کی تعبیر کوئی
اور بن گیا خواب ادھورے رہ گے ۔۔شاید کسی نے سچ ہی کہا ہے
Everyone cannot everything in this life
کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے
۔۔۔اپنے خواب ادھورے چھوڑنے پڑتے ہیں ۔۔۔اور شاید کبھی کبھار خود کو بھی
''اللہ حافظ ''
*******************************
Comments
Post a Comment