Aab e pusht short story by Sara Anjum

Aab e pusht short story by Sara Anjum

افسانہ’’ آبِ پُشت‘‘
از سارہ انجم

آج کی رات فیصلے کی رات تھی آج اس کے مقدر کا فیصلہ کیا جا رہا تھا۔ جو زخم برسوں بعد بھی نہیں بھر پائے تھے وہ آج بھرنے جا رہے تھے۔ ہسپتال کے بیڈ پر لیٹی وہ مسلسل رب سے موت کی بھیک مانگ رہی تھی۔ مگر خدا کسی گنہگار کی موت سے خوش نہیں ہوتا بلکہ وہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی بری روش سے باز آجائیں اور زندہ رہیں۔ خدا کسی کو مجبور نہیں کرتا کہ وہ اس کے ما تحت ہو     جا ئے، پر اگر ہم اپنی مرضی سے اس کا انکار کرتے ہیں تو وہ ہمارے فیصلہ کو قبول کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ کے لئے ہم سے دور رہے۔ اس کا رب بھی اس سے دور ہو گیا تھا۔ جس موت کے لیے وہ پچھلے چوبیس کھنٹوں سے دعائیں مانگ رہی تھی وہ یوہی کیسے آ جاتی۔ موت روح کا بدن سے تعلق ختم ہونے کا اور انسان کا دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کرنے کا نام ہے۔ رب العزت تو انسان کو آزمانے کے لئے اسے بری اور اچھی حالتوں میں مبتلا کرتا ہے لیکن انسان بجائے اپنے گناہوں کی تلافی کرنے کے اس رب سے موت مانگتا ہے۔ مگر موت کا تو وقت متعین ہےاس کی مقررہ میعاد آتی ہے پھر انسان گھڑی بھر بھی اُس سے آگے پیچھے نہیں ہو سکتا۔
’’یا اللہ میں جانتی ہوں میں بہت گنہگار ہوں مگر توں تو رحیم و کریم ہے، میں اس دنیا میں اور نہیں جینا چاہتی، مجھے ان لوگوں سے وحشت ہوتی ہے، میرے صبر کو اور نا آزما یا اللہ مجے موت دے۔‘‘ آنسوؤں بہہ کر اس کی رخسار پر آ چکے تھے۔
’’ مس مشائل! آپ نے خود کی جان کیوں لینے کی کوشش کی؟ کیا آپ کو نہیں پتہ خود کشی حرام ہے؟؟؟‘‘ ڈاکڑ دانیال انجیکش کے ساتھ حاضر ہوئے۔
جب زندگی حرام ہو جائے تو خود کشی حلال ہو جاتی ہے اس کے چہرے پر کئی تلخ لہریں موجود تھی۔
’’ زندگی کبھی حرام نہیں ہوتی زندگی تو رب کی عظیم الشان نعمت ہے اور زندگی میں مصائب بس انسان کی آمائش ہوتے ہیں، ہمیں ان مصائب پر رنجیدہ ہونے کی بجائے صبر سے کام لینا چاہیے بیشک وہ رب صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
’’ آج تک صبر تو کیا ہے لیکن اس کا کیا اجر ملا۔ اگر یہ زندگی نعمت ہوتی تو بھلا کسی کو اتنی تکلیف کیوں ملتی؟ آج تک مجھے سکون میسر نہیں ہوا پھر بھی میں یہ زندگی جی رہی ہوں لیکن اب بس اب مجھے موت چاہیے بس موت۔‘‘ اب کی بار وہ چیخ کر بولی۔
’’ انسان ہر حال میں اپنے دل کی پیروی کرتا ہے جیسی کیفیت اس کے دل کی ہوتی ہے وہی جھلک اس کے مزاج اور دل میں ہوتی ہے اور یہ یاد رکھنا کہ تکلیف و پریشانی، صحت و بیماری سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے اور اس میں ہمارے لیے بعض اوقات بے شمار خیر پوشیدہ ہوتی ہے جس کو ہم سمجھتے نہیں۔کسی مسلمان کو کسی بیماری یا اس سے بھی کم تر چیز کی وجہ سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس شخص کے گناہوں کو اس طرح گرا دیتا ہے جیسے درخت اپنے پتوں کو گرا دیتا ہے۔ تمہیں پتہ ہے رب نے تمہیں تیسری دفعہ بھی موت کیوں نہیں دی؟؟
’’ کیوں؟؟‘‘ اس نے حیرانی سے پوچھا۔
’’ درحقیقت مرنے سے آنکھیں بند نہیں ہوتیں بلکہ آنکھیں تو اب کھلی ہیں ۔ موت کے بعد کے مراحل تو اس سے زیادہ سخت اور آنے والے مناظر تو اس سے زیادہ ہولناک ہیں
  اپنے اردگرد لوگوں کو دیکھو تم سے زیادہ تکلیف میں مبتلا ہے پھر بھی وہ صبر کا دامن تھامے ہوئے ہیں اور پر سکون موت بھی تو نیک لوگوں کو ہی آسانی سے  میسر آتی ہے۔ کیا تمہیں واقعی یقین ہے کہ تم پر سکون موت کی مستحق ہو؟ کیا تم نے آج تک کسی کا دل نہیں دکھایا انہیں تکلیف نہیں دی ہے؟ کبھی دوسروں میں خوشیاں بانٹی ہیں اداس چہروں پر مسکراہٹ کا سبب بنی ہو؟؟‘‘ انہوں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
وہ گہری سوچ میں ڈوبی یک ٹک نظروں سے کمرے کی چھت گھور رہی تھی۔
’’ نہیں۔‘‘ اس نے مختصرً کہا۔
’’ کبھی نماز پڑھ کر اس رب کے حضور دعا مانگی ہے کہ وہ تمہیں سکون دے تمہاری مشکلات دور کر دے تمہیں بخش دے؟؟؟‘‘
’’ میں نماز نہیں پڑھتی۔‘‘ ان نے دوسری طرف منہ پھیرا۔
’’ تم نے کبھی اپنے رب کو خوش نہیں کیا تو وہ تمہیں موت کیسے دے ۔ اللہ تعالیٰ احکم الحاکمین ہے۔ اس سے جب دعا کی جائے تو دعا کرتے ہوئے اچھے جملے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کرنا چاہیے نا کہ ہر وقت بس موت مانگنی چاہیے اور اس سے مانگتے ہوئے زبان کو احتیاط سے استعمال کرنا چاہیے۔ بے وزن، بے تکے اور پُر تکلف یا نا مناسب جملے دعا میں استعمال کرنا مکروہ اور خلافِ ادب ہے۔ اس وقت تک بندے کی دعا قبول ہوتی ہے جب تک وہ صلہ رحمی کے ختم کرنے کی اور کسی گناہ کی دعا نہ کرے لہذا ضروری ہے کہ ہم افسوس کرنے یا خون کے آنسو بہانے سے قبل اس دنیاوی فانی زندگی میں ہی ا پنے رب کو راضی کرنے کی کوشش کریں تا کہ ہماری روح ہمارے بدن سے اس حال میں جُدا ہو کہ ہمارا خالق و مالک و رازق ہم سے راضی ہو اور یہ دنیاوی زندگی تو دھوکے کے سامان کے سوا کچھ بھی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دار آخرت ہی اصل زندگی ہے، اگر یہ لوگ جانتے ہوتے۔‘‘ مشائل ابھی بھی منہ پھیرے دوسری طرف دیکھ رہی تھیں مگر اس کا دھیان یہی تھا۔ ڈاکڑ دانیال نے اپنی بات ختم کرنے ہی اسے بے ہوشی والا انجیکشن لگانا مناسب سمجھا۔
اختتام پذیر
نوٹ:
اس افسانے کو لکھتے ہوئے اور آپ سب قارئین کی نظر کرتے ہوئے میرے جذبات الفاظ کی بیساکھی کے محتاج نہیں کیوں کہ میں چاہ کر بھی انہیں بیان نہیں کر سکتی۔ آبِ پُشت فارسی زبان کا لفظ ہے جو کہ موت کا ہم معنی ہے۔ ایک صاحبِ ایمان اور مسلمان شخص کے لیے تکلیف و بیماری بھی اللہ کی طرف سے ایک نعمت ہی ہے، لہٰذا ہر تکلیف و مصیبت پر صبر کرنا چاہیے اور اس سے تنگ آکر موت کی تمنا اور دعا نہیں کرنی چاہیے ہاں اگر کوئی بہت ہی زیادہ آزمائش و مصیبت میں ہوا اور اس سے صبر نہ ہو سکے تو یہ دعا مانگے کہ اے اللہ! مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک میرے لیے زندگی بہتر ہو اور اس وقت مجھے موت دے دے جب میرے حق میں موت بہتر ہو۔ موت کو کثرت سے یاد کرنے والوں کو اللہ کی جانب سے مذکورہ اعمال کی توفیق ہوتی ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہم سب کو مرنے سے قبل مرنے کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں دونوں جہاں کی کامیابی و کامرانی سے نوازے، آمین۔
پڑھ کر اپنی قیمتی آراء کا اظہار ضرور کیجئے گا۔ انشاللہ ہمارا اور آپ کا ساتھ جاری رہے گا دعائیوں میں یاد رکھئے گا۔
********************************

Comments