عنوان :سسکتی
ہوئی شام
تحریر:اقرأ حفیظ(ہری پور)
تحریر:اقرأ حفیظ(ہری پور)
جب ہوا وہ پروردہ جواں
رنگ لائیں اس کی بے پرواہیاں
آگیا اس کا وہی آخر کو رنگ
لاڈلے بیٹوں کا ہوتا ہے جو ڈھنگ
چار سو گھپ اندھیرا تھا ۔چاند اپنی اختتامی منازل عبور کر رہا تھا گلی کے اُس گوشے پر آہستگی سے چلتے اس معمر شخص کا ہلکا ساسایہ بھی قدموں کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔اک اماوس تھی جو دل میں چھائی تھی۔۔۔اس کے نورِ نظر نے آج کس سفاکی سے باہر کا راستہ دکھایاتھا اس بوڑھے کا لاغروجود یہ سوچ سوچ کر لرز رہا تھا۔یہ اس کا وہی بیٹا تھا پچیس سال قبل جس کی ولادت پر باپ نے محلے بھر میں شیرینی تقسیم کی تھی۔ربِ کریم کی ودیعت کردہ نعمت پرسر بسجود ہوئے بنا رہا نہ جاتا تھا اور پھر ساری عمر اس کی خواہشات کی تکمیل کی خاطر شب و روز کی ریاضت میں کاٹ دی تھی آخر کل کو اسی نے باپ کاسہارا بننا تھا اس کے شانوں کا بار اپنے کندھوں پر لینا تھا اور باپ کی تمام عمر کی مشقت کا ازالہ بھی تو کرنا تھا۔اسے اچھی طرح یاد تھا کہ جب وہ جون جولائی کی تپتی دوپہروں میں بازاروں میں پھیری لگا کر اشیأ فروخت کرتا تو من میں اپنے عیال کیلئے اک بے لوث سا جذبہ ہوتا تھا۔اک ایسی محبت جس کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا تھا۔اولاد کی محبت کیا ہوتی ہے والدین سے بہتر کون جان سکتا ہے اور باپ تو وہ مخلص ہستی ہے کہ جو اولاد کی چھوٹی بڑی ہر خوشیکے حصول کیلئے ہر وقت کوشاں رہتا ہے اور جس کے جذبات ہمیشہ دل ہی میں چھپے رہتے ہیں،وہ اولاد کی خوشی میں خوش ہوتا ہے تو یہ خوشی شفقت کا روپ دھار لیتی ہے اور اگر اولاد پر کوئی دکھ آئے تو اس کا دل تو ضرور دکھتا ہے مگر وہ وسعتِ قلبی کے ساتھ اس کا حوصلہ بڑھاتا ہے۔ایسے ہی اس نے بھی کیا تھا ساری زندگی اپنے بڑھاپے کے سہارے کیلئے خوشیاں بٹورنے میں گزاری تھی اور آج جب اس کے بال سیم گوں ہوگئے وجود میں کمزوری کے پیوند لگ گئے اور اپنی نگاہوں کے کوکب سے نورِ راحت وصولنے کا وقت تھا تو اس کے پچیس سالہ بیٹے کے گھر میں اس کیلئے جگہ کم پڑ گئی تھی اور وہ محض اس لیے کہ اس کی چہیتی بیوی سال بھر سسر کی خدت کرتے ہوئے اکتا چکی تھی آج اس نے فیصلہ کیا تھا کہ باپ کو اولڈ ہاؤس منتقل کرا دیا جائے مگر نحیف بوڑھے باپ نے اس کا یہ احسان لینے سے انکار کر دیا یہ کہتے ہوئے کہ ’’اللہ کی زمین بہت بڑی ہے جو تنگ دل اولاد دیتا ہے وہ رہنے کو جگہ بھی دے دیتا ہے‘‘مگر بیٹے پر کوئی اثر نہ ہوا تھا نہ اسے پشیمانی تھی کہ بوڑھا باپ کہاں در در کی ٹھوکریں کھائے گا ۔وہ رات کی تاریکی میں لاٹھی کے سہارے سے چلتا جارہا تھا اسے معلوم تھا کہاں جانا ہے اسے،قریب چوراہے پر ہی تو مسجد تھی جہاں بیٹے کی خوشحالی کیلئے دعا بھی تو مانگنی تھی۔اس کا دل غموں سے سسکیاں لے رہا تھا ساتھ ہی ساتھ اندھیری شام بھی سسک رہی تھی۔باپ کی قسمت پر نہیں بیٹے کی نادانی پر ۔۔۔کیسے اس نے اللہ کی رحمت کوگھر سے بے دخل کر کے بد بختی کا در کھٹکھٹایا تھا مگر باپ کے دل میں امید کی کرن اب بھی روشن تھی کیونکہ دعا جیسا بڑا ہتھیار جو اس کے ہاتھ میں تھا۔والدین اللہ کی عظیم نعمت ہیں ہمیشہ ان کی قدر کیجئے!!!
رنگ لائیں اس کی بے پرواہیاں
آگیا اس کا وہی آخر کو رنگ
لاڈلے بیٹوں کا ہوتا ہے جو ڈھنگ
چار سو گھپ اندھیرا تھا ۔چاند اپنی اختتامی منازل عبور کر رہا تھا گلی کے اُس گوشے پر آہستگی سے چلتے اس معمر شخص کا ہلکا ساسایہ بھی قدموں کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔اک اماوس تھی جو دل میں چھائی تھی۔۔۔اس کے نورِ نظر نے آج کس سفاکی سے باہر کا راستہ دکھایاتھا اس بوڑھے کا لاغروجود یہ سوچ سوچ کر لرز رہا تھا۔یہ اس کا وہی بیٹا تھا پچیس سال قبل جس کی ولادت پر باپ نے محلے بھر میں شیرینی تقسیم کی تھی۔ربِ کریم کی ودیعت کردہ نعمت پرسر بسجود ہوئے بنا رہا نہ جاتا تھا اور پھر ساری عمر اس کی خواہشات کی تکمیل کی خاطر شب و روز کی ریاضت میں کاٹ دی تھی آخر کل کو اسی نے باپ کاسہارا بننا تھا اس کے شانوں کا بار اپنے کندھوں پر لینا تھا اور باپ کی تمام عمر کی مشقت کا ازالہ بھی تو کرنا تھا۔اسے اچھی طرح یاد تھا کہ جب وہ جون جولائی کی تپتی دوپہروں میں بازاروں میں پھیری لگا کر اشیأ فروخت کرتا تو من میں اپنے عیال کیلئے اک بے لوث سا جذبہ ہوتا تھا۔اک ایسی محبت جس کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا تھا۔اولاد کی محبت کیا ہوتی ہے والدین سے بہتر کون جان سکتا ہے اور باپ تو وہ مخلص ہستی ہے کہ جو اولاد کی چھوٹی بڑی ہر خوشیکے حصول کیلئے ہر وقت کوشاں رہتا ہے اور جس کے جذبات ہمیشہ دل ہی میں چھپے رہتے ہیں،وہ اولاد کی خوشی میں خوش ہوتا ہے تو یہ خوشی شفقت کا روپ دھار لیتی ہے اور اگر اولاد پر کوئی دکھ آئے تو اس کا دل تو ضرور دکھتا ہے مگر وہ وسعتِ قلبی کے ساتھ اس کا حوصلہ بڑھاتا ہے۔ایسے ہی اس نے بھی کیا تھا ساری زندگی اپنے بڑھاپے کے سہارے کیلئے خوشیاں بٹورنے میں گزاری تھی اور آج جب اس کے بال سیم گوں ہوگئے وجود میں کمزوری کے پیوند لگ گئے اور اپنی نگاہوں کے کوکب سے نورِ راحت وصولنے کا وقت تھا تو اس کے پچیس سالہ بیٹے کے گھر میں اس کیلئے جگہ کم پڑ گئی تھی اور وہ محض اس لیے کہ اس کی چہیتی بیوی سال بھر سسر کی خدت کرتے ہوئے اکتا چکی تھی آج اس نے فیصلہ کیا تھا کہ باپ کو اولڈ ہاؤس منتقل کرا دیا جائے مگر نحیف بوڑھے باپ نے اس کا یہ احسان لینے سے انکار کر دیا یہ کہتے ہوئے کہ ’’اللہ کی زمین بہت بڑی ہے جو تنگ دل اولاد دیتا ہے وہ رہنے کو جگہ بھی دے دیتا ہے‘‘مگر بیٹے پر کوئی اثر نہ ہوا تھا نہ اسے پشیمانی تھی کہ بوڑھا باپ کہاں در در کی ٹھوکریں کھائے گا ۔وہ رات کی تاریکی میں لاٹھی کے سہارے سے چلتا جارہا تھا اسے معلوم تھا کہاں جانا ہے اسے،قریب چوراہے پر ہی تو مسجد تھی جہاں بیٹے کی خوشحالی کیلئے دعا بھی تو مانگنی تھی۔اس کا دل غموں سے سسکیاں لے رہا تھا ساتھ ہی ساتھ اندھیری شام بھی سسک رہی تھی۔باپ کی قسمت پر نہیں بیٹے کی نادانی پر ۔۔۔کیسے اس نے اللہ کی رحمت کوگھر سے بے دخل کر کے بد بختی کا در کھٹکھٹایا تھا مگر باپ کے دل میں امید کی کرن اب بھی روشن تھی کیونکہ دعا جیسا بڑا ہتھیار جو اس کے ہاتھ میں تھا۔والدین اللہ کی عظیم نعمت ہیں ہمیشہ ان کی قدر کیجئے!!!
*******************
از قلم اقرأ
حفیظ(ہری پور)
Comments
Post a Comment