"عید قربان اور جذبوں کی
قربانی"
ازقلم:"ابیحہ نور"
قربانی ایک عظیم فریضہ ہے، جسے سنت ابراہیمی
کو پورا کرنے کے لئے ادا کیا جاتا ہے لیکن آج کے پر فتن دور میں یہ فریضہ کم اور شہرت
کا ذریعہ ذیادہ بن گیا ہے. ہمارے معاشرے کے کچھ شہرت پسند لوگوں نے دین کو بهی رسم
بنا دیا ہے. اللہ اکبر کبیرا.
قربانی کے جانور کی خریداری میں ایک دوسرے
پر چڑھائی کی جاتی ہے. ایک دوسرے سے آگے بڑهنے کی کوشش کی جاتی ہے. جس کا اصل مقصد
نیکی کا حصول نہیں بلکہ معاشرے میں اپنا آپ منوانا اپنی دولت کی دهونس جمانا اور دوسروں
کی نظروں میں واہ واہ کر وانا ہے،
لیکن اس کے پیچهے چهپی حکمتیں تو سراسر
فراموش کر دی گئ ہیں اگر قربانی کر لی جاتی ہے تو اس کی تقسیم کے حقداروں میں بهی اپنا
گهر یا رشتہ داروں کے علاوہ کوئی نہیں ٹهہرتا. صد افسوس کہ جن کا ذیادہ حق ہوتا ہے
انہی کو دروازے سے دهتکار دیا جاتا ہے. شیخ صاحب کے گهر کے دروازے پر ایک معصوم سا
بچہ جس نے زندگی کو بہار کم اور خزاں کی تلخیوں میں ذیادہ محسوس کیا تها جس کے چہرے
سے ہی غربت عیاں تهی، جس کی نکلی ہوئی ہڈیاں اس بات کی چیخ چیخ کر وضاحت کر رہی تھیں کہ اس نے زندگی کے آدهے دن تو بهوک سے سلگتےاور
بلکتے ہی گزار دئیے ہیں. وہ بچہ قربانی کے گوشت کا سوال کرتا ہے اور دو چار ہڈی زدہ
بوٹیاں اس کی جهولی میں ڈال دی جاتی ہیں. دوبارہ سوال کرنے پر شیخ صاحب طیش کے عالم میں بچے کو دهکا دے کر گهر کا بڑا سا
گیٹ بند کر دیتے ہیں. بچہ دور جا کر گرجاتا ہے. ننھے سے جسم سے کراہ نکلتی ہے. اسی
اثناء میں ایک گاڑی والے کا گزر وہاں سے ہوتا ہے. یہ منظر دیکھ کر میرا دل لرز گیا، اگر کچھ اور دیر ہو جاتی تو یہ
بچہ آج دنیا سے ہی رخصت ہو جاتا. اے ظالم سفاک امیر زادے تجهے اللہ نےدولت سے تو نوازا
ہے لیکن تو اپنے دل کو رحم سے محروم کیوں کیے بیٹها ہے. جان رکھ ! تیری دولت پہ ان
غریبوں کا بهی حق ہے جن کے بچے تجھ سے سال میں ایک بار گوشت کا سوال کرتے ہیں. تجهے
اپنے بچوں کا تو خیال آتا ہے لیکن ان کا کیا جن کے سر سے والد کا سایہ ہی اٹھ گیا ہو؟
وہ تو ہر عید پہ یہی کہتے ہوں گے ناں اے
بابا! اے میرے پیارے بابا! آپ اس ظالم معاشرے کے حوالے کر کے کیوں چلے گئے ہو؟ یہاں انسان کے روپ میں بهیڑیے بستے
ہیں. یہاں لوگ رحم سے خالی ہیں. پیارے بابا! میں تو ابهی چهوٹا سا ہوں.گڑیا نے آج گوشت
والےچاول کهانے کی ضد کی.میں نے ان کے گهر دست سوال دراز کیا لیکن مجهےدهتکار دیا اگر
آپ ہمارےپاس ہوتے تو کوئی ہمیں نہ مارتا، نہ دهتکارتا.غریب دکهیاری ماں لوگوں کے طعنے
سنتی ہے.بابا جان! بہن کا سر ڈهکنے کیلئے میں باہر نکل آیا ہوں لیکن ان زخموں کا کیا
جو دل پہ ہیں. عید پهر سے آئی ہے. آپ کیوں نہ آئے؟بابا! آپ کیوں نہ آئے؟
جہاں بہت سی آسائشیں میسر ہوں وہاں انسان
اللہ کی مخلوق کو بهی آسانی مہیا کرنے کی کوشش کرے تو اللہ اس بندے سے راضی ہوتا ہے
ورنہ بہت سے بچے تو یہی کہتے گلیوں اور بازاروں میں نظر آئیں گے.
تم شہر اماں کے رہنے والے
درد ہمارا__ کیا جانو!!
*****************
ازقلم:"ابیحہ نور"
Comments
Post a Comment