محاسن عبد الله
آج سے ایک دوسال پہلے کی بات ہےجب میں
اللہﷻ سے مکمل دور اپنی دنیا میں مست خوش وخرم تھی۔ باقی دوستوں کے طرح ان کے ساتھ
موسیقی سننا ، من پسند فلمیں، ڈرامے دیکھنا اور ناولز پڑھنا میرے من پسند مشغلے
تھے۔ جیسے ہی کوئی نئی فلم ، ڈرامہ وغیرہ جو بھی آتا سب سے پہلے ہم نے دیکھاہوتا
اور پھر مزے مزے سے وہ ہی چٹ پٹی خبریں باقی دوستوں کو بتاتے۔ تعریفو کے اتنے پل
باندھتے کے وہ دیکھے بنا نہیں رہتے۔ ویسے تو ہمارے گھر میں کافی سہولیات موجود تھی
لیکن (ابی) میرے بابا چونکہ مجاہد تھے عالم دین تھے اس لیے ان کے ڈر سے دیکھنا تو
دور ان کے سامنے اس قسم کی کوئی بات بھولے سے بھی نہیں کرتے تھے۔ لہذا سہولیات ہونے
کے باوجود کوئی ذریعہ نہیں تھا تو ہم دوست مل کر موبائل فونز پر ایک دوسرے کی کافی
مدد کرتے تھے۔ کوئی سونگ سننے کے بعد اسے یاد کرکہ گا کے ایک دوسرے کو بھیجتے اور
ان کی واہ واہ سمیٹ کر خود کو بہت ہی خوش قسمت سمجھتے خاص اس وقت جب کوئی لقب دیتا
کے بلکل فلان سنگر کی بہن ہو تب تو ہم خود کوہواؤں میں رقص کرتے دیکھتے۔ باوجود اس
کے کہ ہم حافظات بھی تھے اور اس گناہ و ثواب کے بارے میں بھی پوری طرح سے آگاہ
تھے۔ہےنہ افسوس کی بات۔۔۔!!! ہمارا نفس ہم پر اتنا حاوی ہوچکا تھا کے خود تو گناہ
کرتے ہی تھے ساتھ میں دوسروں بھی ترغیب دیتے تھے۔ یعنی دوہرے گناہ کرتے تھے۔ اسی
طرح اللہ نماز و قرآن سے غافل اور نفس کی غلامی میں وقت گزرتا رہا۔
ایک دن کیاہوا کہ دوستوں میں شرط لگی
ایک سونگ کے حوالے سے جس نے یہ سانگ سب سے اچھے آواز و انداز میں گایا ہماری طرف
سے اسے جہاں وہ چاہے زبردست قسم کا ٹریٹ لے۔ مرتے کیا نہ کرتے ٹریٹ کی بات ہوتی
اور ہم پیچھے رہتے ایسا کب ممکن تھا۔ لہذا ہم جن دوستوں کا مقابلہ تھا بڑے زور و
شور سے تیاری میں مشغول ہو گئے۔ میں نے بھی تیاری ارادے سے اپنا موبائیل کھولا
پہلے گیلری میں گئی وہ سانگ ڈھونڈا نہیں ملا پھر آڈیوز سونگز میں ڈھونڈھنے لگی وہی
بھی نہ ملا میں حیران و پریشان رہ گئی جیتنا میری سرشت میں شامل تھا پھر ہار کیسے
مانتی۔۔!!
انٹرنٹ بھی نہیں چل رہا تھا ایک دوست
کو میسج کیا فلان سونگ چاہیے دوست بولی میرے پاس نہیں ہےبھائی کے پاس دیکھتی ہوں۔
10، 15 منٹ کے طویل انتظار کے بعد جب دوست کا میسج آیا تو کہنے لگی ”بھائی نے سینڈ کرنے سے منع کردیاہےوہ
نہیں بھیج رہے“ اور قسمت یہ کے جس کی آواز میں سونگ مجھے چاہیئے تھا وہ ہی تھا اس
کے پاس۔۔۔ میں نے دوست سے کہا ”بھائی سے پوچھو وہ کیوں نہیں بھیج رہا۔۔؟؟ “ چند
منٹ بعد جب دوست اون لائن آئی تو بتانے لگی کہ ”بھائی کہہ رہے تھے میں آپ کا گناہ
بھی اپنے سر نہیں لینا چاھتا میں خود سنتاہوں یہی میرے اپنے گناہ کا بوجھ میرے لیے
کافی ہے“ میری دوست کے بھائی کی بات نے مجھے میرے ضمیر کو اندر تک لرزا دیا تھا۔
میں مقابلہ بھول کر اس سوچ میں پڑھ گئی کے مجھ سے تو ہزار گناہ بہتر وہ تھا۔ کم از کم دنیا میں فساد تو نا پھیلاتا تھا خود
وہ جو بھی تھا جیسے بھی اس کے اعمال تھے کم از کم دوسروں کو تو اپنے ساتھ گناہ میں
شریک نہیں کرتا تھا دوسروں کے گناہ اپنے سر نہیں لیتا تھا۔۔!! ابھی اسی حال ندامت
میں ہی تھی کہ اسی دوست نے یہ بات فرینڈز واٹس ایپ گروپ میں کی۔ ہر دوست اپنی اپنی
طرف سے کچھ نہ کچھ بول رہی تھی میں نے ایک دوست سے پوچھا ”ایمو تم کیوں خاموش ہو۔۔؟؟
تم بھی کچھ بولو نہ۔“ آگے سے جو اس نے جواب دیا شاید وہی میرے ضمیر کے لیے لمحہ
آگہی تھی۔ وہ بولنے لگی ” زینی مشے کے بھائی نے بلکل صحیح تو کہاہےکیا تم نے کبھی
دیکھاہےمیں نے اپنے کسی بھی سوشل اکاؤنٹ پر کسی بھی قسم کی کوئی خلاف شرعی ،غیر
مہذب کوئی پوسٹ لگائی ہو۔“ میں نے سوچا واقعی ایسا نہیں تھا جب بھی ہم اس سے کسی
بھی قسم کے سونگز ، فلموں وغیرہ کے بارے میں پوچھتے وہ ہمیں ایسے ٹال دیتی کے
سکنڈز میں ہم وہ بات ہی بھول جاتے۔ میں میں نے کبھی اس اس کو سٹیٹس یا پروفائل وغیرہ پر سونگز یا گناہ سے
قریب کچھ بھی لگاتے نہیں دیکھا تھا۔ اور اسی وجہ سے ہم دوست اسے مزاق کا نشانہ
بناتے تھے۔ وہ مزید بتانے لگی ”زینی تمھیں پتہ ہےہمارے اپنے گناہ اتنے زیادہ ہےکے
شاید ہی ہم قیامت کے دن اللہﷻ کے سامنے گناہوں کے بوجھ کی وجہ سے سر بھی اٹھا سکے
میں نہیں چاہتی کل جب ابلیس اللہﷻ کے سامنے اپنے پیروکاروں کے نام لے جو دنیا میں
اس کی خوشی کے لیے شر فساد برپا کرتے تھے تو ابلیس ان میں سے میرا بھی ذکر کریں
اور نبی پاکﷺ مجھ سے منہ موڑ لے۔ بس اسی
بات ڈر لگتاہےمجھے اور اسی وجہ سے میں نہیں چاہتی گناہ پھیلاؤ۔ اپنے گناہوں کی تو
میں رب الرحیمﷻ سے معافی مانگ لونگی لیکن دوسروں کے گناہ جو میرا پیچھا تا قیامت
نہیں چھوڑینگے میں ان کا کچھ نہیں کر پاؤنگی۔“ وہ بولے جارہی تھی اور اس کا ایک
ایک لفظ میرے مرئےہوئے ضمیر کو جھنجھوڑ رہا تھا۔ میں کس طرح کی مسلمان تھی جو خود
گناہوں کو پھیلانے کا سبب بن رہی تھی۔ خود تو اللہﷻ اور اس کے حبیب مُحَمَّدُ ﷺ سے
غافل تھی دوسروں کو غافل کرانے کا سبب بھی بن رہی تھی۔ کسی بھی نئے فلم کا ایڈ آتا
میں نے گروپس وغیرہ میں شئیر بھی کیاہوتا اور دوست وہ ٹریلر دیکھ کر ہی فلم دیکھنے
کے لیے بے چین ہو جاتے۔ ایمو خود آف لائن ہوگئی تھی پر میرے ضمیر اور دماغ دونوں کو
اون لائن کر گئ تھی۔ میں نے اپنے ہاتھوں میں پڑھے موبائل کو دیکھا مجھے ایسے لگا
جیسے موبائل مجھ سے کہہ رہاہےکہ ” مجھ میں تو اچھائیاں بھی بہت ہےتم چاہتی تو مجھے
دین کو پھیلانے کے لیے بھی استمعال کرتی لیکن تم تو گناہوں کے دلدل میں اتنی ڈھوبیہوئی
تھی کے تمھیں میری اچھائیاں نظر ہی نہیں آئی“ میرے آس پاس چاروں طرف سے یہی آوازیں
آنے لگی ”تم گناہگارہو دوسروں میں گناہوں کو پھیلانے کا سبب ہو“ میں کانوں پر ہاتھ
رکھے روتے چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی ”میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔کچھ نہیں کیا میں نے
چھوڑ دو مجھے پلیز چھوڑ دو۔۔۔“ مجھے پتہ نہیں چلا کب میرا ذہن تاریکیوں میں ڈھوبہ
اور کب میرے آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھایا۔
میری آنکھ کھلی تو خود کو اپنے کمرے
میں پایا میں نے دیکھا میرے ارد گرد میری امی اور بہن بھائی کھڑے تھے۔ امی نے مجھے
اٹھتےہوئے دیکھا تو پوچھنے لگی۔ ”بیٹا کیاہوا تھا اچانک آپ کی طبیعت کیوں خراب ہوگئ
تھی۔۔؟؟“ امی پوچھ رہی تھی باقی سب بہن بھائی میں میری طرف متوجہ تھے۔ میں پہلے تو
خالی خولی نظروں سے سب کو دیکھتی رہی پھر اچانک ہی وہاں سے اٹھی امی اور باقی سب
نے بہت روکا کہ تمھاری طبیعت ٹھیک نہیں لیکن میں نہیں رکی۔ وہاں سے اٹھ کے پہلے
وضو کیا اور جائے نماز کے دوسرے کمرے میں آئی اور پہلی مرتبہ زندگی میں میں مسلسل
دو تین گھنٹے لگاتار رو رو کر اللہﷻ سے اپنی کوتاہیوں کی بخشش مانگتی رہی۔ تب شاید
اس رب الرحیمﷻ ذات نے مجھے معاف کردیا تھا
کیونکہ تب سے لے کر اب تک میں نے ”اللھم لک الحمد“ خود کو گناہوں کے پھیلانے سے
روکا اور اس کی توفیق میرے رب العالمینﷻ نے مجھے معاف کرنے کی صورت میں دی۔
قرآن کریم میں اللہﷻ کا ارشادہے”
﴿وَتَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلۡبِرِّ
وَٱلتَّقۡوَىٰۖ
﴾ "اور تم نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون کرو ”﴿وَلَا تَعَاوَنُواْ عَلَى
ٱلۡإِثۡمِ
وَٱلۡعُدۡوَٰنِۚ﴾
"اور گناہ اور ظلم و زیادتی کے کاموں میں تعاون مت کرو "﴿وَٱتَّقُواْ
ٱللَّهَۖ
إِنَّ ٱللَّهَ
شَدِيدُ ٱلۡعِقَابِ﴾
"اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو ‘ یقیناً اللہ تعالیٰ سزا دینے میں بہت سخت ہے"
*حکم
کے ساتھ ساتھ وعید بھی سنائی گئی آج کل کہ سوشل میڈیا کہ اس دور میں مشکل ہےاس آیت
کے مطابق خود کو ڈھالنا مگر ناممکنات میں سے نہیں۔ اپنے سٹیٹس میں کبھی وہ چیز جس
سے گناہوں کے پھیلنے کا خطرہ ہو نہ لگائیں، قطعی ایسے گروپس نہ بنائے جس کا مقصد
ہی گناہ ہو ، کوئی ایسی چیز جس سے دین کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو کبھی شيئر نہ
کریں خود اگر گناہ میں ملوث ہو دوسروں کو شامل کرکہ ان کے گناہ بھی اپنے سر لو
ایسا ہرگز نہ کرو دوہرے گناہوں کا عذاب اپنے سر نہ لو۔ کیونکہ اللہﷻ اگر موقع دے
سکتاہےوعید سنا سکتاہےتو سخت عذاب پر بھی قادر ہے۔۔۔
وما علینا الا البلاغ۔۔
Comments
Post a Comment