Huqooq bilmuqabil faraiz article by Muqadas Chaudhry

 Huqooq bilmuqabil faraiz article by Muqadas Chaudhry

حقوق بالمقابل فرائض

از قلم مقدس چوہدری

 

حقوق و فرائض بظاہر دو الگ اصطلاحات ہیں مگر کسی معاشرے کی تشکیل میں یہ ایک اہم عنصر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ان کا ایک دوسرے کے ساتھ  گہرا تعلق ہے۔ ان کی مثال ایک گاڑی کے دو پہیوں کے مانند ہے، اگر ایک ڈگمگا جائے تو پورے کا پورا نظام درہم برہم ہو سکتا ہے۔

حقوق:

حقوق سے مراد وہ سہولیات، آزادی اور تحفظات ہیں جو ایک شخص کو قانون، معاشرہ یا فطرت سے حاصل ہو۔ ہر شخص کو زندہ رہنے، تعلیم حاصل کرنے، مذہب پر عمل پیرا ہونے اور رزق کمانے کا حق حاصل ہے۔ اگر لوگوں کو ان کے حقوق دیے جائے تو وہ بہترین زندگی گزار سکتے ہیں۔

فرائض:

فرائض سے مراد وہ ذمہ داریاں ہیں جو کسی شخص پر عائد ہوتی ہیں۔ قانون پر عمل درآمد کرنا، ایمانداری سے لین دین کرنا، وطن سے محبت و وفاداری، صفائی کا  خیال رکھنا اور معاشرے میں امن  قائم کرنا۔ اگر کوئی شخص اپنے فرائض ادا کرے تو معاشرہ ترقی کرتا ہے۔

حقوق و فرائض کا تعلق:

حقوق اور فرائض آپس میں مضبوطی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ یہ انفرادی(جن کا تعلق کسی ایک فرد سے ہو، جیسے بیوی کے حقوق و فرائض یا والدین کے حقوق و فرائض) بھی ہوتے ہیں اور اجتماعی (رعایا کے حقوق و فرائض) بھی ہوتے ہیں۔ ایک انسان کا حق دوسرے انسان کا فرض ہوتا ہے۔ اس کی وضاحت مشہور مفکر ڈاکٹر بینی پرشاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حقوق و فرائض ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں۔ اپنے نقطہ نگاہ سے دیکھیں تو وہ حقوق ہیں اور  دوسرے کے نقطہ نگاہ سے دیکھیں تو وہی فرائض ہیں۔

مثال:

والدین کا فرض ہے کہ وہ بچوں کو بہترین تعلیم دلوائے اور بہترین تعلیم حاصل کرنا بچوں کا حق ہے۔ اسی طرح رعایا کا حق ہے انھیں زندگی کی بنیادی ضروریات مہیا کی جائے اور رعایا کو بنیادی ضروریات مہیا کرنا حکومت کا حق ہے۔

اسلام کا نقطئہ نظر:

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں زندگی کے تمام معاملات کے متعلق راہنمائی موجود ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر حقوق و فرائض کی ادائیگی کا حکم دیا۔ چند مثالیں مندرجہ ذیل ہیں:

رشتہ داروں کے حقوق کے متعلق فرمان الہٰی:

"اور زکوٰۃ ادا کرو۔"

اس آیت میں صاحب استطاعت کو زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم دیا ہے یعنی یہ فرض ہے۔

سورۃ الروم میں ارشاد فرمایا:

"اور رشتہ دار، مسکین اور مسافر کو ان کا حق دو۔"

اس آیت کریمہ میں اللّٰہ تعالیٰ حقوق کی طرف اشارہ کر رہے۔ مذکورہ بالا تینوں مصارف زکوٰۃ ہیں۔

قرآن مجید میں ایک فرد کے صرف فرائض نہیں حقوق بھی بیان ہیں۔ قرآن مجید میں اللّٰہ تعالیٰ نے والدین کا فرض بتایا ہے:

"اور اپنی اولاد کو بھوک کے ڈر سے قتل نہ کرو۔"

آیت مبارکہ میں اولاد کا حق زندگی بیان ہے۔

 

دوسری جگہ اولاد کے فرض کی جانب اشارہ ہے:

"اور اپنے والدین کو اف تک نہ کہو۔"

اس آیت میں والدین کا حق بیان کیا گیا ہے۔

اسلام پہلے فرض بیان کرتا ہے، اس کے بعد حقوق بیان کرتا ہے۔ حدیث مبارکہ میں ارشاد نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہے:

"تم جو اپنے لیے پسند کرو وہی اپنے بھائی کے لیے بھی پسند کرو۔"

اس حدیث کے مفہوم میں یہ بھی شامل ہے کہ اگر ہم اپنے حقوق حاصل کرنا پسند کرتے ہیں تو اپنے بھائی کے حقوق کی ادائیگی کرنا بھی پسند کریں۔

حقوق و فرائض کے معاشرے پر اثرات:

اگر کسی معاشرے میں حقوق و فرائض کا تعلق کمزور ہو جائے تو معاشرے میں بدامنی کی فضا پھیل جاتی ہے اور ترقی کی بجائے پسماندگی جگہ لیتی ہے۔ مثال کے طور پر اولاد کا حق ہے کہ انھیں برابری کی سطح پر رکھا جائے۔ اگر والدین کسی ایک بچے کو سب بچوں پر ترجیح دیں تو دوسرے بچوں کی حق تلفی ہوگی اور نتیجتاً ان کے دلوں میں والدین کے خلاف بغض ہو گا۔

اسی طرح اگر حقوق و فرائض دونوں کی ادائیگی نہ کی جائے تو معاشرے میں انتشار کے سواء کچھ نہ رہے گا۔ مثال کے طور پر رعایا کا حق ہے کہ انھیں عدل و انصاف مہیا کیا جائے، اگر حکومت اس سے قاصر ہو تو رعایا حکومت کے خلاف ہو جاتی ہے۔ رعایا کا فرض ہے کہ وہ قانون کی پاسداری کریں۔ اگر وہ نہ کر سکے جیسے ٹریفک قوانین کی پابندی نہ کرنا، قاتل کو سزا سے بچانے کی کوشش کرنا وغیرہ تو معاشرے میں عدل و انصاف ختم ہو کر قتل و غارت کی فضا پھیل جائے گی۔

اس لیے یہ ضروری ہے کہ معاشرے کو پر امن اور ترقی یافتہ بنانے کے لیے ترازو کے پلڑے میں حقوق و فرائض کو برابر رکھا جائے۔ ہمارے معاشرے میں یہ رسم ہے کہ ہم اپنے فرائض کو بھول جاتے ہیں مگر حقوق یاد رکھتے ہیں اور ان کا مطالبہ کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ حقوق کا مطالبہ کرنا غلط نہیں ہے مگر اس سے قبل فرائض ادا کرنا ضروری ہے۔

Comments