Pakistani murshad Article
by Arain Muhammad Faisal Fahad
تحریر:
پاکستانی مرشد
حصہ
کتاب: ادھوری قلم
مصنف: آرائیں محمد فیصل فاحد
25 نومبر 1952ء میں شہر لاہور پاکستان میں جہاں درجنوں بچوں کی پیدائش
ہوئی وہاں ایک نیازی پشتون خاندان میں مستقبل کے مرشد بھی پیدا ہوئے۔
ابتدائی
تعلیم کیتھیرل اسکول اور ایچپیسن کالج لاہور سے حاصل کی،اس کے بعد اعلی تعلیم کے لیے
برطانیہ چلے گئے۔
اس
مرشد کی جوانی خاموشی اور شرمیلے پن میں گزری۔
13 سال کی عمر میں کرکٹ کھیلنا شورع کی اور 1971ء میں انگلستان کے خلاف
پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا۔
1992ء کے کرکٹ ورلڈ کپ کی فتح سے وہ وطن پاکستان کا ہیرو قرار پایا۔نا
صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اسے بے پناہ محبت ملی۔
1992ء کے بعد کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے لی،اس کے بعد سماجی کاموں میں حصہ
لینا شروع کیا۔ ماں رخصت ہوئی تو اس کے نام سے ایک ناممکن پروجیکٹ شوکت خانم میموریل
ٹرسٹ کی بنیاد رکھی، ٹرسٹ کی پہلی کوشش کے طور پر پاکستان کے پہلے اور واحد کینسر ہسپتال
کی بنیاد رکھی۔جہاں غریبوں کے لئے مفت علاج کی سہولت فراہم کی۔اور اس ہسپتال کی اہم
بات،جہاں لوگ افتتاح کے لیے خود سے بڑے شخص کو بولاتے ہیں وہاں اس نے ایک مریض بچی
سے افتتاح کروایا۔
ضلع
میانوانی میں نمل کالج جس کو بعد میں بریڑ فورڈیونیورسٹی کے ایسویسی ایٹ کالج کا درجہ
مل گیا بنایا۔ ان کی ایک اور فلاحی تنظیم عمران خان فاونڈیشن ہے جس کا مقصد پاکستان
بھر میں محتاج لوگوں کی مدد کرنا ہے۔
اس
کے علاوہ انھیں اس وقت حکومت پاکستان کی جانب
سے صدراتی ایوارڑ بھی ملا۔
1992ء میں انسانی حقوق کا ایشیا ایوارڑ اور ہلال امتیاز بھی عطا ہوئے۔
مرشد
کو اپنی نجی زندگی میں بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔غیر ملکی بیوی جمائما خان
سے شادی کی اور اسے دین اسلام میں داخل کیا۔ پھر اس کے مخالفین کے بیانیے
سے بچانا، آخر کار جب بیوی مایوس ہوئی،اورمرشد
کو پاکستان اور اپنی فیملی میں ایک چیز چننے
کا اختیار دیا تو پاکستان کو اپنی فیملی پر فوقیت دی اور ہمیشہ کے لیے اپنی بیوی اور
بچوں سے 22 جون 2004ء میں جدا ہو گئے۔
(اپنی فیملی کے بغیر رہنا موت کو گلے لگانے سے کم نہیں ہوتا لیکن اس
نے اپنے وطن عزیز کی خاطر صبر کا دام تھاما اور اپنی سیاسی جدوجہد جاری رکھی۔)
جہاں
ملک کے دوسرے حکمران کو ٹھیک طرح بولنا نہیں آتا،دوسروں کی لکھی پرچیوں سے دیکھ کر اپنا نقطہ نظر بیان کرتے
ہیں وہاں وہ اپنے علم کی بنا پر آکسفورڈ یونیورسٹی کا چانسلر بھی بنا۔نمل یونیورسٹی،
عبدالقادر یونیورسٹی صوفی ازم کی طرف وہ جوانی کے ایام سے ہی تھا.
2013 ء میں اس نے ینگسٹرز کو سیاسی شعور دینا شروع کیا لفٹر سے گرا
اور اسے پھر صبر کرنا پڑا لیکن ہمت نہیں ہاری۔
ریحان
خان سے 8 جنوری 2015ء کو نکاح کیا پھر اس سے علیحدگی ہوئی مخالفوں نے اس عورت سے اس
کے خلاف کتاب لکھوائی، لیکن اس نے اسے کوئی
جواب نہیں دیا۔ اور اس کا فیصلہ اپنے اللہ پر چھوڑ دیا۔
پھر
تنہائی کے جن کو قابوکرنے کے لیےاس نے بشری بی بی سے 18 فروری 2018ء کو نکاح کیا.
کرکٹ
کیریئر سے ہی اسے کئی مرتبہ سیاسی عہدوں کی پیش کش ہوتی رہی۔یہاں تک کے 1987ء میں صدر
ضیاء الحق نے انھیں مسلم لیگ میں سیاسی عہدے کی پیش کش کی جیسے مرشد نے انکار کر دیا۔نواز
شریف نے بھی اپنی جماعت میں شامل ہونے کا کہا لیکن مرشد نے نفی کی۔
جب
اس نے وطن عزیز کی حالت دیکھی اور انصاف کو بکھرتا دیکھا تو 25 اپریل 1996ء کو تحریک
انصاف قائم کے کر سیاسی میدان میں قدم رکھا۔
2002ء میں پہلی بار مرشد عام انتخابات میں میانوالی سے قومی اسمبلی
کے رکن منتخب ہوئے اور مردہ پرویز مشرف نے
وزیراعظم بننے کی پیشکش کی، لیکن مرشد نے انکار کر دیا۔اور جب مردہ پرویز مشرف نے آرمی
چیف ہوتے ہوئے سیاست میں گھسنے کی کوشش کی تو تن تنہا مرشد اس کے خلاف کھڑا ہوا۔جس
وجہ سے انہیں نظر بند اور ڈیرہ غازی خان کی جیل میں بھی رہنا پڑا۔
اور
اس وقت کے ڈاکو پارٹی ایم۔کیو۔ایم اور اس کے
سرادار الطاف حسین کے خلاف بھی وہ تن تنہا لڑتے رہے۔
2011ء میں جب مرشد نے لاکھوں کے مجمے سے خطاب کیا تو باقی کرپٹ سیاسی
پارٹیوں کے لیے خطرہ بن گیا۔
2013ء کے انتخابات سے چار دن قبل فورک لفٹ سے گرنے کے بعد مرشد کو شوکت
خانم ہسپتال لے جایا گیا۔خیر وقت چلتا رہا اور مرشد تن تنہا جنگ لڑتا رہا اور نوجوانوں
کو شعور دیتا رہا۔
آخر
کار جو لوگ اسے کہتے تھے تمہیں شیروانی کا ایک بٹن تک نہیں دیں گے اللہ نے اسے 18 اگست
2018ء کو 176 ووٹ دے کے وزیراعظم کے عہدے تک پہنچایا۔
اس کا جو پہلے دن کا ایجنڈا تھا
کرپشن سے پاک پاکستان زور و شور سے مقدمات چلائے۔نہیں دیکھا یہ اپنا بندہ ہے یا دوسری
سیایسی پراٹی کا بلکہ خود کے قریبی دوستوں سے یہ کام شروع کیا۔جس وجہ سے بہت سی مشکلات
کا سامنا کرنا پڑھا۔
وہ ٹھیک جا رہا تھا۔دنیا کے سامنے
اس نے پاکستان کا بہت اچھا تاثر پیش کیا بڑے بڑے ملکوں کے دورے کیے ہر ملک کا حکمران
اس کو اس کی شہرت کی وجہ سے پسند کرتا ہے. دین اسلام کا مقدمہ عالمی عدالت میں لڑا۔
وہ
ٹیم کا اکیلا کپتان تھا وہاں اس کی ٹیم میں مسائل بھی تھے کچھ پس پردہ غلط ہو رہا وہ یہ چیز جانتا تھا۔
(سب کرپٹ بھی جانتے ہیں وہ کیسے وزیراعظم بنا۔ہاں زرا جلدی کی کہ سابقہ
آرمی چیف کی بات مان لی ورنہ یہ دن نہ دیکھنے پڑتے)
خیر
پوری نوجوان نسل اس کے ساتھ تھی اور ہے۔ اس کے ایک اشارے پر عوام کا ایک سمندر اس کے
ساتھ چل نکلتا، تنقید کرنے والے اس پر کڑی تنقید بھی کر رہے تھے اس پر جانی حملہ بھی
ہوا لیکن وہ ڈٹا رہا.
امریکہ
کو آنکھیں دیکھائی تو امریکہ نے اپنے غلاموں کی
مدد سے اس کو گرانے کا پلائن تیار کیا جس کی حقیقت یعنی سائفر وہ پاکستانی عوام کے سامنے لے آیا۔
وہ جذبات اور تقریر کا شہزادہ ہے
وہ دلوں میں گھر کرنا جانتا ہے اور وہ وزیراعظم کی کرسی سے اتار دیا گیا۔لیکن اس نے
دوسروں کی طرح غلامی کا پاٹا نہیں ڈالا۔
سابقہ وزیر اعظم کو 9 مئی کو گرفتار
کر لیا گیا۔ وہ گرفتاری سے پہلے بھی ہشاش بشاش تھا۔
(اس کی پوری پارٹی کے وزراء کو
9 مئی سانحہ بنا کر ٹوچر کیا گیا۔عدالتوں کو بے زبان کر دیا گیا، صحافت کی آنکھیں
بند کر دی گئ۔گھر چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا۔ کچھ منافق اور بذدلوں کی ایک الگ
لسٹ بن گئی اور چند مخلص اور بہادر لوگوں کی الگ،
جن
کو آج بھی جھکنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ لیکن وہ مرشد کے پکے سچے مرید ہے ۔انہوں نے
خوف کے بت توڑ دیے ہیں۔)
9 مئی کے بعد مرشد نے خاموشی
اختیار کی۔ ملک کی سیاسی صورتحال انتہائی خراب ہو گئی. لہٰذا وہ جیل میں بھی ہمت نہیں
ہارا اسے پاکستان کی مٹی سے عشق ہے وہ پرویز مشرف،الطاف حسین اور مسلم لیگ کے قائد
کی طرح بھاگ سکتا تھا اور ڈیل کا اوپشن بھی
موجود لیکن پاکستانی مرشد جھکا نہیں، پہلے بزدل حکمرانوں کی طرح بھگا نہیں۔
(میں نے مرشد کی کتاب "میں اور میرا پاکستان" پڑھی، اس نے
جو لکھا وہ مجھے عملی طور پر بھی نظر آیا وہ بوڑھا ہے لیکن اس کی ہمت جوان ہے اسے اب
اپنا سیاسی انداز بدلنا ہوگا، جارہانہ جیسے وہ بولتا ہے یہ چیز چھوڑنی ہوگی ایک منجھے
ہوئے سیاستدان کی طرح سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہے، آج کیا ہے کل کیا ہو جائے
یہی تو ایک عرصہ سے دیکھ رہے ہیں۔)
8 فروری کو وطن پاکستان کے ینگسٹرز نے عمران خان کو اپنا مرشد قرار
دے دیا۔اور اس بات کو پوری دنیا نے تسلیم کیا ،سوائے امریکی غلاموں کے۔
اور
وہ غلام آج بھی پوری قوم دنیا کے سامنے نگے
ہو گے۔
لیکن
وقت اب دور نہیں،خوف کے بت ٹوٹ رہے ہیں۔اور انشاءاللہ مرد قلندر محمد علی خان کی تقریر
کی طرح مرشد ایک بار پھر آئے گا۔
کیونکہ
مرشد اب ایک پارٹی کا لیڈر نہیں رہا بلکہ ایک نظریہ بن گیا ہے اور نظریہ بھی جنون بھرا۔
مرشد
اب پاکستانی مرشد بن چکا ہے۔
نوٹ:
یہ کالم میں نے پاکستانی آئین کے دائرے میں رہتے ہوا لکھا ہے۔اگر میں چاہتا تو مرشد
کے مخالفین کو نگا کر سکتا تھا، لیکن میں کسی طرح کا انتشار نہیں پھیلانا چاہتا اس
لیے صرف مرشد تک ہی محدود رکھا۔
انشاءاللہ
جلد امریکی غلاموں پر میرا ایک ناول باعنوان "ادھوری سوہنی" آ رہا ہے۔جس
میں غدار پاکستان کی تفسیر آپ کو پڑھنے کو ملے گی۔
باقی
آپ مجھے سے پرسنل بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔
صفر
تین سو یارا۔ساٹھ چالیس نو سو دس
**************
Comments
Post a Comment