Wilaye Ali by Iqra Nadeem

اقراء ندیم 

بسمہ اللہ الرحمن الرحیم

ولاۓ علی علیہ السلام

 

میں نے آج ایک ایسے موضوع پہ لکھنے کے لیے قلم اٹھایا ہے، جس پہ مجھ سے پہلے کافی اہل علم اپنی کتب میں لکھ چکے ہیں۔ میں ناقص العلم اس موضوع پہ لکھ کر صرف حق کے نعرے میں آواز بلند کرنے کی ایک ادنی سی کوشش کرنا چاہتی ہوں۔ میں فرقی تعصب کی بناء پر یا کسی فرقے کی تذلیل یا بڑاںٔی کے لیے نہیں لکھ رہی بل کہ ایک حق بات کو بغیر کسی کی بے حرمتی کیے بیان کرنا چاہتی ہوں۔ میں اہل سنت گھرانے سے ہوں لیکن میں فرقہ واریت میں نہیں پڑتی۔ میں خداوندِمتعال سے حق کو حق کہنے اور لکھنے کی توفیق طلب کرتی ہوں۔ اگر تحریر میں کمی رہ جاۓ تو معذرت خواہ ہوں۔ میں تحریر کا آغاز قرآنی آیت سے کروں گی تاکہ یہ واضح ہو جاۓ کہ یہ تحریر فرقی تعصب یا کسی کی گستاخی کے عوض نہیں لکھی گںٔی۔

"بےشک جن لوگوں نے اپنے دین کو جدا جدا کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے آپ کا ان سے کوںٔی تعلق نہیں، بس ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالے ہے۔" )سورہ الانعام:159)

قرآن نے انسان کو گروہ گروہ ہونے سے منع کر دیا، اب ہمیں حق کے ساتھ کھڑا ہونا ہے اور باطل کو چھوڑنا ہے۔ جہاں بات حق کی ہو وہاں ہمیں یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ ہمارا فرقہ یا ہمارا خاندان اس کی اجازت دیتا ہے یا نہیں۔ ہمیں حقیقت کو تسلیم کر کے حق کی گواہی دینی چاہیے۔ حضرت زید بن ارقم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ ایک دن مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ایک پانی کے کنارے جسے خم کہا جاتا تھا، ہمیں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کی حمد و ثناء کی اور وعظ و نصیحت کر کے فرمایا:

"لوگو! سن رکھو کہ میں ایک انسان ہوں، قریب ہے کہ اللہ قاصد )اس کا بلاوا لے کر) میرے پاس آۓ گا اور میں لبیک کہوں گا۔ میں تم میں دو عظیم چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ ان میں سے پہلی اللہ کی کتاب ہے جس میں ہدایت اور نور ہے۔ تو اللہ کی کتاب کو لے لو اور اسے مضبوطی سے تھام لو اور دوسری چیز اہل بیت، میں اپنے اہل بیت کے معاملے میں تمھیں اللہ کی یاد دلاتا ہوں۔ اہل بیت میں آل علی، آل عقیل، آل جعفر اور آل عباس ہیں۔" )صحیح مسلم:6225)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے مقام پر کھڑے ہو کر خطبہ دیا اور اونٹ کے پلان کا منبر بنا کر خود اس پر کھڑے ہوۓ اور علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو کھڑا کیا اور ان کا ہاتھ بلند کر کے فرمایا:

")من کنت مولا فھذا علی مولا) جس کا میں مولا اس کا علی مولا ہے۔"

اب یہاں لوگ مولا سے دوست مراد لیتے ہیں. آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لفظوں پہ غور کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے کہا: "جس کا میں مولا ہوں" اگر لوگ مولا کے معنی و مراد دوست لیتے ہیں تو مطلب کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا دوست سمجھ لیا ہے۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دوست بنا کر بھیجا گیا تھا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے راہنما ہیں، ہمارے پیشوا اور ہمارے لیے زندگی گزارنے کا بہترین نمونہ ہیں۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے:

"اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اگر تم ایمان والے ہو۔" )سورہ الانفال:1)

یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور یہ حکم واجب ہے اور اس کی ادائیگی لازم ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا " جس کا میں مولا اس کا علی مولا" اب جس طرح رسول اللہ کی اطاعت واجب ہے، اسی طرح علی ابن ابی طالب کی اطاعت بھی لازم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نبوت ختم ہو گئی اور رسول اللہ ص نے اپنا وصی، اپنا جانشین اور خداوند نے اپنا ولی علی ابن ابی طالب کو چنا اور نبوت کے بعد سلسلہ امامت شروع کیا۔ اس سلسلہ امامت میں علی ابن ابی طالب کو پہلا امام مقرر کیا گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ امام کون ہوتا ہے؟ امام علی علیہ السلام نے بذاتِ خود فرمایا:

"میری جان کی قسم! امام وہ ہوتا ہے جو کتاب خدا کے مطابق عمل کرے، امام وہ ہوتا ہے جو نظام قسط و عدل برپا کرے، امام وہ ہے جو حق پر پابند رہے، امام وہ ہوتا ہے جو اپنے آپ کو ذات خدا کا پابند سمجھے، ارادہ خدا سے باہر قدم نہ رکھے۔" )ارشاد مفید: صفحۃ 380-381)

امامت کو خداوند متعال نے خود ہمارے لیے جاری کیا جس طرح ہماری ہدایت کے لیے نبوت کا سلسلہ جاری ہوا تھا۔ اسی طرح ہماری رہنمائی کے لیے خدا نے علی ابن ابی طالب کو اپنا ولی چن لیا اور میں اس کی وضاحت کے لیے چند احادیث اور قرآنی آیت بطور دلیل تحریر کرتی ہوں تاکہ اعتماد کرنا آسان ہو۔ میں نے یہ بات اس لیے لکھی کہ لوگ امام علی علیہ کو مولا مشکل کشا کہتے ہیں، علی مرتضیٰ اور رسول کا وصی مانتے ہیں لیکن ان کی ولایت تسلیم نہیں کرتے۔ اس کی بہت ساری وجوہات ہیں اور ایک وجہ علم کی کمی ہے۔ علی علیہ السلام کی ولایت کا اقرار لازم اداںٔیگی ہے، جو میرے دلائل سے واضح ہو جائے گی۔ میں اب ترتیب سے دلاںٔل لکھوں گی پہلے قرآنی آیت سے اور پھر احادیث سے دوں گی۔

1. "پس تمھارا ولی ہے اللہ اس کا رسول اور وہ مومن جو نماز قاںٔم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔" )سورہ الماںٔدۃ:55)

اس آیت میں خداوند نے خود کو امام علی کی ولایت کا اقرار کیا ہے۔ اگر اس آیت کے شان نزول کو دیکھا جاۓ تو بیان ہوتا ہے:

"امام علی علیہ السلام کے پاس ایک ساںٔل حاضر ہوا اور اس وقت آپ حالت رکوع میں تھے اور آپ ع نے اسی حالت میں اپنا ہاتھ ساںٔل کی طرف بڑھایا اور اسے انگوٹھی خیرات میں دی۔ اس کی تفسیر میں ابن عباس اور عمار یاسر فرماتے ہیں کہ مولا علی علیہ نے رکوع کی حالت میں انگوٹھی خیرات فرماںٔی تو تب یہ آیت نازل ہوئی۔

اب اگر اہل تفکر غور کریں تو اس آیت کی رو سے قرآن نے تین ولی بتاۓ۔ اللہ ولی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ولی اور علی علیہ السلام ولی تو جب 'لا الہ الااللہ' پڑھا تو اللہ کی ولایت کا اقرار کیا، جب 'محمد الرسول اللہ' پڑھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولایت کا اقرار کیا اور جب 'علی ولی اللہ' پڑھیں گے تو قرآن کی رو سے تیسرے ولی علی علیہ السلام ہوۓ۔ ہمارے اہل تشیع برادران قرآن کی اس آیت پہ کامل یقین رکھتے ہوۓ اپنے کلمے اور عقیدے سے اس کا شدید اظہار کرتے ہیں لیکن اہل سنت ولاۓ علی پہ کامل یقین کے حامل نہیں۔ اب قرآن کی آیت نے کہہ دیا تو ہم پہ بھی لازم ہوتا کہ اقرار علی ولی اللہ سے اپنا ایمان کامل کریں اور خدا کے حکم کی تکمیل کریں۔ یہاں کلمے میں علی ولی اللہ کا اضافہ اہل سنت اور اہل تشیع میں فرق اور مسلہ کھڑا کر دیتا ہے۔ اہل تشیع کے چند لوگوں کو کہنا کہ ولاۓ علی کے بغیر کوںٔی مسلمان نہیں ہوتا جب کہ اہل سنت کا کہنا ہے مسلمان ہونے کے لیے اللہ کی واحدانیت اور رسول اللہ کی نبوت کا اقرار ضروری ہے۔ میں یہاں اتنا کہوں گی کہ ہم کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جاتے ہیں لیکن جب ولاۓ علی کا اقرار کرتے ہیں تب ہمارا ایمان کامل ہو جاتا ہے۔ اب اپنے ایمان کی پختگی کے لیے آپ ولاۓ علی کا اقرار کریں یا نہ کریں لیکن حق قرآن نے واضح کر دیا۔ اہل تفکر سے گزارش ہے کہ قرآن کی آیت کو زیر غور لاںٔیں اور حق کو سر بلند کریں۔

2. "اطاعت کرو اللہ کی، اس کے رسول کی اور ان کی جو اولی الامر )صاحب حکومت) ہیں۔" )سورہ النساء:59)

اس کی تفسیر میں اہل سنت کے مفتی اعظم علامہ سلیمان قندوزی حنفی لکھتے ہیں:

"یہ آیت مولا علی کی شان میں نازل ہوئی۔"

آپ غور کریں تو اس آیت میں بھی تین اطاعتیں واجب قرار دی گںٔی ہیں تو اگر ہم کلمہ میں علی ولی اللہ پڑھتے ہیں تو قرآن کے عین مطابق ہے۔ اب تیسری دلیل تحریر کرنے لگی ہوں جو کہ ہمارے ایمان کے محاسبے کے کام آۓ گی۔

3. "ان کو روکو ان سے آخری سوال کرنا باقی ہے۔" )سورہ الصافات:24)

یہ سوال تب کیا جاۓ گا جب سب کا حساب پورا ہو جاۓ گا اور انھیں جنت کے دروازے پہ روک کر پوچھا جاۓ گا۔ اس کی تفسیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

"ان سے علی ابن ابی طالب کی ولایت کے متعلق پوچھا جاۓ گا۔"

اب یہاں تو واضح ہو گیا کہ جنت میں داخل ہونے کے لیے ہم سے ولایت علی کا پوچھا جاۓ گا، ولایت علی کے منکر وہاں کیا جواب دیں گے؟

4. "اے رسول ص! پہنچا دے وہ پیغام جو تیرے رب کی طرف سے نازل کیا گیا اگر تو نے یہ پیغام نہ پہنچایا تو رسالت کا کچھ نہیں کیا۔" )سورہ الماںٔدۃ:67)

اس آیت کی تفسیر میں ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، ابن عساکر نے ابو سعید خدری کی روایت لکھتے ہیں کہ یہ آیت مولا علی علیہ السلام کی شان میں غدیر خم کے مقام پر نازل ہوئی۔

اس آیت میں خدا نے کہا اگر پیغام نہ پہنچایا، علی کی ولایت کی گواہی نہ دی تو رسالت کا کچھ نہ کیا۔ اگر ہم تفسیر پڑھتے ہوئے شان نزول کی تحقیق کر لیں تو حق اور باطل واضح ہو جاۓ اور یہ شیعہ سنی کا اختلاف یہیں ختم ہو جاۓ۔ میرا مقصد فقط حق کی پہچان کروانا تھا جو سیکھنے کے مراحل میں میرے کام آیا میں باقی آگے پہنچانا چاہتی ہوں۔ میں اہل سنت گھرانے سے ہوں اور تشیعوں کے بارے پہلے میرا یہ خیال تھا کہ و مسلمان نہیں جب کہ آج تحقیق کے بعد علم ہوا کہ ان کا ایمان کامل ہے۔ میرے آج بھی تشیعوں سے چند اختلاف ہیں اور اہل سنت کے پاس وہی چند باتیں ہتھیار ہیں جن کی بنیاد پر شیعوں کو کافر کہتے ہیں۔ شیعوں کو کافر کہنے کی پہلی دلیل ہی ماتم دیتے ہیں جس سے میں بھی کچھ حد تک اختلاف کرتی ہوں لیکن ماتم کے پیچھے کے عقاںٔد جانے بغیر میں یا آپ انھیں کافر کیوں کہیں؟ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ خدا نے نیت دیکھ کر اعمال کا جزا سزا کا فیصلہ کرنا ہے۔ کسی کے ایمان کو پرکھنے والے ہم کون ہوتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

"مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔"

کیا آپ اپنے بھاںٔی کو کافر کہہ سکتے؟ خدارا اپنے اعمال کی فکر کریں اور یہ سنی شیعہ کی جنگ ختم کریں۔ اہل سنت کے علماء اور اہل تشیع کے علماء آپس میں متفق ہو جاتے ہیں، انھیں دیکھ کر، سن کر کبھی محسوس نہیں ہوا کہ وہ آپس میں بغض رکھتے ہیں تو میں اور آپ کیوں؟ خیر یہ ایک الگ بحث ہے۔ علی ولی اللہ کے استدلال پر قرآن کی چار آیات کافی ہوں گی۔ اب احادیث کی جانب رخ کرتے ہیں۔

5. "علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں اور وہ ہر مومن کے ولی ہیں۔"

اس حدیث کو مستدرک الحاکم میں امام حاکم نے صحیح کہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام علی علیہ السلام کو تمام مومنین کا ولی کہا ہےسو علی ولی اللہ کی صدا بلند ہونا لازم ٹھہرتا ہے۔ علامہ سلیمان قندوزی لکھتے ہیں:

6. "عتبہ بن عامر جھنی کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے بیعت لی کہ اللہ کے سوا کوںٔی عبادت کے لائق نہیں اور اس کا کوںٔی شریک نہیں اور محمد ص اللہ کے رسول ہیں اور علی ع ان کے وصی ہیں۔ ان تین )بیعت) سے کفر ختم ہو جاتا ہے۔

اس حدیث سے امام علی علیہ کی ولایت ثابت ہو جاتی ہے۔ اس حدیث میں صاف واضح ہے کہ ولاۓ علی ہمارے ایمان کے لیے کتنی اہمیت کا حامل ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے عرش پر یہ عبارت لکھی ہوئی دیکھی:

7. "اللہ کے سوا کوںٔی عبادت کے لاںٔق نہیں اور اس کا کوںٔی شریک نہیں اور محمد ص میرے بندے اور رسول ہیں اور میں نے ان کی مدد علی کے ذریعے کی۔"

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خدا نے رسول اللہ ص کی مدد کے لیے امام علی علیہ کو چنا اور رسول اللہ ص کے بعد نبوت کا جو سلسلہ رک گیا تھا وہ امامت کے ذریعے امام علی علیہ السلام کے ذمے کر دیا۔ اب آپ خود فیصلہ کریں کہ آپ نے اپنے دلوں کو جن باتوں پہ تسلی دیتے ان پہ عمل کرنا ہے یا قرآن و حدیث پہ عمل کریں گے۔ اگلی حدیث دیکھتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

8.  "میں نے جنت کے دروازے پر لکھا ہوا دیکھا ہے، اللہ کے سوا کوںٔی عبادت کے لائق نہیں، محمد اللہ کے رسول ہیں اور علی اللہ کے ولی ہیں اور رسول اللہ کے بھاںٔی ہیں۔"

اب ذرا غور کریں تو جنت میں داخل ہونے سے پہلے ہمیں یہ کلمہ پڑھنا ہے، جب محشر میں بھی اقرار کرنا ہے تو ابھی کیوں نہیں؟ اپنے ایمان کو کامل کرنے کے لیے غور کریں اور اپنی اصلاح کی طرف قدم اُٹھاںٔیں۔ کیوں امام علی علیہ کو صرف شیعوں تک محدود کر دیا ہے؟ کیوں صرف شیعہ علی علیہ السلام کا ذکر کر سکتے ہیں؟ میں سارا دن سٹیٹس پہ پہلے تین خلیفہ کا ذکر کروں باخدا کوںٔی ایک شخص مجھ پہ فتویٰ عاںٔد نہیں کرے گا جیسے ہی امام علی اور حسن و حسین علیہم السلام کا تذکرہ کروں تو سب پوچھتے کیا آج کل آپ  شیعہ کی صحبت میں رہ رہی ہیں؟  خدارا! یہ سنی شیعہ اختلاف ختم کریں۔ میں سب کا احترام کرتی ہوں لیکن بعد خداوند بعد بنی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے علی ابن ابی طالب بہت عزیز ہیں،میرے امام، مولا اور باقی سب ان کے بعد مانتی بھی ہوں اور احترام بھی کرتی ہوں۔ اب اگلی حدیث کی جانب چلتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

9. "قیامت کے دن میرے لواء الحمد پر یہ تحریر لکھی ہو گی لا الہ الااللہ محمد الرسول اللہ علی ولی اللہ"

مولا علی علیہ السلام نے خود جو کلمہ راہب کو پڑھا کر مسلمان کیا اس میں مولا نے اپنی گواہی بھی دلواںٔی۔

10. "اشھد ان لا الہ الااللہ واشھد ان محمد الرسول اللہ واشھدنک علی وصی رسول اللہ"

اب جس کا دل راضی ہوتا وہ کلمہ پڑھ لے لیکن ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ بات پہ غور کرنے کے مثبت نکات نکالنے کی بجاۓ منفی نکات نکال لیتے ہیں اور تنقید اور اختلاف کی لمبی لسٹ بنا کر فتویٰ عاںٔد کر دیتے ہیں۔ خدا سے دعا ہے مجھے اور آپ کو علم اور حق سے روشناس کرواۓ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔

 

قرآنی حوالہ جات:

1. )سورہ الماںٔدۃ:55) تفسیر در منثور، جلد 06 صفحہ , امام جلال الدین سیوطی

 

2. )سورہ النساء:59)ینایع المودۃ:178

3. )سورہ الصافات:24)ینایع المودۃ علامہ سلیمان قندوزی حنفی، منصب امامت شاہ اسماعیل شہید

 

4. )سورہ زخرف:45)تفسیر ثعلبی جلد 0

 

احادیث کے حوالہ جات:

5. جامعہ ترمذی شریف جلد 02، مشکوۃ شریف جلد 03، مستدرک حاکم جلد 03

 

6. ینابع المود

 

7. ینابع المودۃ علامہ سلیمان قندوزی، تفسیر در منثور جلد 06 امام سیوطی

 

8. مودۃ القربیٰ صفحہ 49 سید علی حمدانی شافعی

 

9. ینابع المودۃ مودۃ القربی

 

01.شواھد النبوۃ علامہ نور الدین بن الرحمن جامی صفحہ 687

 

خدا مجھے حق لکھنے کی توفیق دے اور تکبر سے محفوظ رکھے آمین ثم آمین یا رب العالمین

 التماس دعا

 *********************

Comments