Islam aur musliman artilce by Areeba Khalid

"اسلام اور مسلمان"

 

تجلّی نار تھی یا نور نہ،تم سمجھے نہ ہم سمجھے

جلا کیونکر یہ کوہ طور،نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے

 

کتنا بڑا المیہ ہے کے اپنی زندگی کے سترہ سال فلسفہ اسلام اور کار اسلام پر گزارنے کے باوجود میری عقل ي سمجھنے سے قاصر ہے کے مسلمان کا مطلب کیا ہے؟۔ میں تو چلو ایک عام علم سے عاری انسان ہوں مگر مختلف کتاب کی روگردانی کرنے والے علماء بھی اس کا جواب حاصل کرنے میں ناکام ہووے ہیں ۔عالم بات کو اُلجھا دیتے ہیں اور کتابیں فلسفہ جھارٹی ہیں۔میں نے اپنی زندگی کے گزشتہ سال ایسے ملک میں گزارے ہیں جو کہ 76 سال  سے آئین کے مطابق اسلامی جمہوریہ ہے ۔میں نے مختلف اسلامی کتب اور ناول پڑے ہیں۔مگر اس کے باوجود میری سمجھ اور عقل کے دروازے کا زنگ زدہ تالا باوجود تیل ڈالنے کے بھی نہ ٹوٹ سکا اور نہ ہی اس کا زنگ اترا یہ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کتب میں جذبات ہوتے ہیں مراق میں ہوتے ہیں مشاہدے ہوتے ہیں جو مجھ جیسے عام ادمی کی سمجھ سے بالاتر ہیں۔اج کل سیمینار کا دور ہے تقریر ہوتی ہے جس میں جذبہ ہوتا ہے مشاہدہ ہوتا ہے لیکن اثر نہیں ہوتا بحث و دلیل ہوتی ہے مگر اس سے کسی بے قرار کو متمل اور کسی اختلافی کو قائل نہیں کیا جا سکتا اصل نہ کرنے کی وجہ دلکش شامل نہ ہونا ہے تقریریں تھرو ارٹیکل ہوتی ہیں تو صرف ہونٹوں سے ڈلیور کی جاتی ہیں جب دل کا عنصر ان میں شامل ہی نہ ہو تو اثر کیسا ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سب سے کم قیمت اسلامی کتب کی ہے کیونکہ سب سے زیادہ بکی جاتی ہیں ان کی میس پروڈکشن ہوتی ہے لاگت کم اتی ہے منافع کی شرح کم نقلی جاتی ہے مگر ایسی کوئی کتاب نہیں جس میں سلیسی انداز میں صرف مسلمان کا مطلب بتایا ہو۔ ایک ایسی بحث میں مد مقابل نے سوال کیا اپ غیر مسلم تو نہیں میں نے ہنس کے جواب دیا نہیں میں ایک منہ زبانی مسلمان ہوں جواب ایا جس نے کلمہ پڑھ لیا وہ مسلمان ہے اس نے کور سوال ہے جنم لیا کلمہ تو انڈین فلموں میں مسلمانوں کا کردار ادا کرنے والے ہندو بھی پڑھتے ہیں تو کیا وہ مسلمان ہیں یعنی کہ اگر کوئی ایسا شخص جو اللہ کو نہ مانتا وہ کلمہ پڑھ لیتا ہو کیا وہ مسلمان ہو سکتا ہے۔کہتے ہیں اسلامک کتب پڑھیے مگر کیسے کیسے کتاب کسی چیز کے بارے میں بیان کر سکتی ہے جس کے مصنف کو اس بات کا علم نہ ہو کتاب اور چیز ہے اور مسلمان اور چیز سے ایک جگہ پڑھا کے تذکرے مسلمان کو بیان کرتے ہیں اس کے بعد میرے ذہن کے ایک اندھیرے جھونپڑوں میں امید کے کرن کھل گئی جیسے ہمرے کا اندھیرا تو کم نہ ہو سکا لیکن اس سے کم ہونے کی لو لگ گئی مگر چندک تذکرے پڑنے کے بعد نہ صرف وہ امید کی کھڑکی بند ہو گئی بلکہ اس پر قفل لگ گیا۔جہاں تک مجھے سمجھ ائی تذکروں میں صرف اولیاء کے کرامات ہیں۔میں دل سے اولیا کی بہت عزت کرتی ہوں کیونکہ وہ عظیم انسان تھے اور عظیم انسان وہ ہوتا ہے جو اعلی کردار کا مالک ہو اور سب سے بڑھ کر انسان ہو اب انسان کیا ہوتا ہے ذہن میں جھماکہ ہوتا ہے۔انسان، انسان تو ایک کردار ہے جو کہ اللہ کے احکامات پر عمل کے بعد معرض وجود میں اتا ہے۔اولیاء کو ایسے بیان کیا جاتا ہے جیسے وہ کوئی سپرمین ہو مگر جہاں تک مجھ پہ عقل کو عقل ہے اسلام میں تو سپر مین کا کوئی وجود ہی نہیں ہے اس میں تو بشر کا درجہ بلند ہے۔انبیاء بھی انسان تھے اور رسول بھی عظیم انسان تھے یہی ان کی عظمت تھی تذکروں میں احترام کا گاڑھا ملبہ ہوتا ہے ادھی کتاب القابات اور حضوری یاد سے بھری ہوتی ہے لہذا احترام ہی احترام کہتے ہیں احترام ایک دیوار ہے جو کہ محترم اور احترام کرنے والے کے درمیان کھڑی ہوتی ہے جس کی وجہ سے قرب پیدا نہیں ہو سکتا  صرف خوف ہوتا ہے جو کہ منفی جذبہ احترام محبت کے امکانات کو کم کر دیتا ہے

احترام بہت طاقتور جذبہ ہے جس سے سر  شعار مسلمانوں نے قران کو مشک و عنبر سے نہلا کر ریشمی جزدانوں کا لباس پہنا کر بےحرمتی کے ڈر سے پڑھنے سے محروم ہو کر اسے بت بنا کر الماریوں میں مقفل کر دیا ہے۔مجھے یقین ہے کہ اگر اللہ لباس مجاز میں ا جائے تو ہم اسے مشک کو کافور سے نہلا کر لوبان کے دھونی دے کر مخملی جستان کے چادر اور اڑا کر بیماری کے سب سے اونچے درجے میں احترام رکھ دیں۔اور ضرورت کے وقت اسے اتار کر دیکھیں اور کام ہو جانے پر پھرسے سجا دیں۔مجھے ہر مسلمان خود سے بہتر لگتا تھا پھر یوں ہی مسلمان کے تلاش میں ایک واقعہ نظروں سے گزرا برصغیر کی تقسیم سے قبل جب گوروں کا راج تھا گرمیوں کی موسم میں رات کے وقت ایک گورا صاحب اپنی بیگ یارڈ میں محو خواب تھا ایک پٹھان چوکیدار اس کے پاس سے گزرا تو اس نے دیکھا کہ گورا قبلہ رخ ٹانگے سو رہا ہے اس نے گورے کو اٹھایا اور کہا صاحب ادھر ہمارا کعبہ ہے ادھر ٹانگیں نہ کرو مگر گورے نے بات ان سنی کر دی پٹھان نے دوسری دفعہ بھی اٹھایا لیکن اس بار گورے نے اسے جھڑک دیا پٹھان طیش میں اتا ہے گورے کی گردن کاٹ دی۔پٹھان پر مقدمہ ہو گیا اس نے عدالت میں اقبال جم بھی کر لیا کہ ہم نے اسے دو بار منع کیا تھا ہمارے کعبے کی جانب ٹانگیں کر کے مت سو بے حرمتی ہوتی ہے مگر یہ باز نہ ایا تو میں نے اس کی گردن کاٹ دی اس سے پھانسی کی سزا سنا دے گی سارا شہر عمر ڈایا کہ پانی شہادت ہے اسی قبر پہ مزار بنایا گیا قوالی گئی جانے لگی اور باقاعدہ عرس منایا گیا۔

سوچوں کا طوفان بند توڑ کر پھر سے شاید چوکیدار مجھ سے بہتر مسلمان ہے شاید اسلام اور مسلمان جذبے کا ہی نام ہے۔میں نے بہت مسلمان دیکھے ہیں ان میں بہت سے لوگ ہیں جمع صوم و صلوٰۃ اکے پابند ہوتے ہیں پھر مسلمانوں کی بھی دو اقسام ہوتے ہیں ۔ایک وہ جو یوں نماز پہ ہیں جیسے قرض ادا کرنا ہو مقصود ہو جی نہیں لگایا بس ادھر چلا دیا اور ادھر ختم بھی کر دیا ان کو نماز پڑھ کر دیکھ کے یوں لگتا ہے گویا مرغی دانہ چونے کے لیے ٹھونگے مار رہی ہو۔اور کچھ یوں ہوتے ہیں جو اپنے اندر ڈوب کر پڑتے ہیں یو انہیں گردو ان میں کا ہوش نہیں رہتا ایسے نمازی کو میں عبادت دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے لزت سے لت پت ہو اس سے بڑا ہی شیریں آم چوس رہے ہیں۔اسی حوالے سے ایک موافق بات میری نظروں سے گزری کسی نے بوٹے سے کہا اے بوٹے اگنے میں اتنی دیر کیوں لگاتا ہے تو بوٹے نے کہا مجھے زمین کی نہیں دیتی کہاں یہ تو بڑی بری بات ہے ۔بوٹے نے تیش مکانہ زمین کو برا نہ کہو اگر زمین مجھے کبھی اگنے سے نہ روکے تو میں اگی نہ سکوں صاحب عقل کو یہ بات سمجھ نہ ائی تو بوٹے نے کہا رکاوٹ نہ ہو تو حرکت ممکن نہیں ہوتی قانون فطرت ہے کہ رکاوٹ حرکت پیدا کرتی ہے جن کے بڑھنے کا خوف و فقط ان کے راستے میں رکاوٹیں اتی ہیں اگر حرکت نہ ہو تو زندگی کچھ بھی نہیں۔یہ دنیا تصویر کے فریم میں ٹنگی ہے زندگی تو ہے ہی قیام و حرکت کا ایک کھیل۔

لگتا ہے اسلام بھی اللہ کے جملہ بھیدوں میں سے ایک بھید ہے۔اج کل مرعوب اسلام کے دو فوائد ہیں ایک سے ثواب کمانا اور دوسرا اس کے استعمال کر کے کام بنانا اس سے حکمران اپنے حکمرانی قائم کرتا ہے سیاستدان اپنی سیاستیں چمکاتے ہیں ذاتی فائدے کے لیے علمائے دین پیش پیش ہیں جنہوں نے عالم کے مرتبے پر پہنچنے کے لیے اسلام جو کہ عمل ہے اسے علم بنا دیا جس شہر میں ہم رہتے ہیں یہاں پر سبھی مسلمان ہیں۔

اعلی عہدوں پر فائض ہیں اللہ اور اس کے رسول کی عظمت کو سچے دل سے مانتے ہیں خوف خدا کرے نمازوں کا فرض ادا کرتے ہیں اور احترام قران بھی پڑھ لیتے ہیں مگر انہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ مسلمان کا مطلب کیا ہے۔

مسلمان کی تلاش تو نہ ختم ہو سکی نہ ہی منزل مل سکی مگر ایک ٹھکانہ مل گیا اندھیرے جھونپڑے کی ایک خون سے روشنی نے اسے منور کر دیا میرے مطابق تو مسلمان وہ ہیں جسے تلاش ہے اللہ کی جو مجزوب ہوتا ہے۔جن پر فضل الہی ہوتا ہے جن کی محبت موج در موج ہوتی ہے۔اللہ کے احکامات کے عمل کے بعد پیدا ہونے والا وجود مسلمان ہے اور اس سے وجود میں لانے والا راستہ کوئی عام راستہ نہیں قران کا راستہ ہے مجھے لگتا تھا کہ اسلام سے جیا جاتا ہے مگر نہیں میں غلط تھی اسلام میں جیا جاتا۔میں نے ایک ناول میں پڑھا تھا قران پڑھو اور پڑھتے جاؤ یہ تہ در کتاب ہے اہستہ اہستہ بھید کھولتی ہے سہج پکے سو میٹھا ہونے والی بات ہے۔اس کے متعلق میرا خیال تھا کہ یہ ایک مذہبی کتاب ہے جس میں اللہ کی عظمت کا بیان اور صراط مستقیم کی ہدایات ہیں۔مگر مجھے یہ جان کا حیرت ہوئی کہ اس میں ایک الگ جہان اباد ہے مذہب پر محدود نہیں ہے یہ تو ایک دانش کدہ ہے جس میں ہر موضوع کے متعلق ہدایات ہیں مختصرا اگر میں اسے دریا سمجھتی تھی تو یہ ایک سمندر نکلا۔ایسا لگتا ہے کہ قران مسلمانوں سے نہیں بلکہ بن نوح اسلام سے مخاطب ہے۔قران کی زبان بہت حسین ہے اس میں ایک ردھم ہے ایک الپسٹیشن ہے ایک ساؤنڈ ایفیکٹ ہے کن واقف بھی سن کر سر دھنتے ہیں۔اختتام میں یہ کہنا چاہتی ہوں مسلمان وہ ہوتا ہے جس کا کوئی ساحل نہیں ہوتا کوئی کنارہ نہیں ہوتا اس سب کے چھوڑ جانے کے بعد اکیلا  Old Man and the Sea کی طرح چپو مار کر اپنی کشتی دھکیلتا ہے مگر اس میں زندگی جینے کی امنگ باقی ہوتی نہ کہ زندگی کاٹنے کی کیونکہ اس سے امید ہوتی ہے اس سے جس سے امید لگانے والا کبھی خالی ہاتھ نہیں رہتا۔ہم سب کو حق کی تلاش ہے اہل مغرب بھی سیدھا راستہ تلاش کرنے میں مصروف ہیں ایسا راستہ جو انسان کے اوپر لائے ہوئے بھوت کی طرف لے جائے وہ متلاشی ہیں اور جو متلاشی راستہ ڈھونڈے تو وہ غلط راستے پر بھی تو نکل سکتا ہے جان بوجھ کر نہیں سہون اہل مغرب اج ہمارے مذہب سے اس لیے بیزار ہیں کیونکہ مذہب کے نام پر اج تک بلکہ اج بھی مظالم ڈھائے جا رہے ہیں مگر وہ سیکیور ہونے کے ساتھ ایک بہت بڑی حقیقت کو نظر انداز کر گئے ہیں اللہ کی حقیقت ۔

ہے وہ شہ رگ سے بھی زیادہ قریب یہ قران کہتا ہے

شہرت ہے ہم سے کتنی دور نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے۔

از اریبہ خالد

****************

Comments