دنیاوی آزمائشیں اور یقین کامل
بستر
پر لیٹا شخص جو درد سے کراہ رہا ہو اور آس پاس موجود تمام افراد اس کے پاس چند لمحوں
کے لیے آتے ہیں اور چند ادھر ادھر کی باتیں کرتے ہیں چند تسلی کے الفاظ بولتے ہیں اور
پھر اس بیمار شخص کو وہاں چھوڑ کر دنیا کی بھیڑ میں شامل ہو جاتے ہیں اور اپنی سرگرمیاں
جاری رکھتے ہیں اور اگر اس شخص کے لیے بیماری کا دورانیہ زیادہ ہو تو ہم اسے بھول جاتے
ہیں ۔ پھر کیسے ہم کسی کی تکلیف کا اندازہ لگا سکتے ہیں؟ ہم نے تو اپنی کوئی سرگرمی
نہیں روکی نہ ۔بیمار شخص کے گھر میں موجود ہوتے ہوئے شادیاں بھی ہو رہی ہوتی ہیں۔ آوٹنگز
بھی ہو رہی ہوتی ہیں پارٹیز بھی چل رہی ہوتی ہیں۔اسی طرح فرینڈزگیدرنگز بھی ہو رہی
ہوتی ہیں ۔اس بیمار شخص کو چھوڑ کر سب کے لیے کوئی فنکشن ہو تو رنگ برنگے کپڑے بنائے
جارہے ہوتے ہیں۔ مختلف نوعیت کے کھانوں سے ٹیبل بھی سجائے جارہے ہوتے ہیں۔
آپ
کی زندگی تو اسی رفتار سے چل رہی ہےنا اگر کہیں ٹھہراؤ ہے تو اس شخص کی زندگی میں ہے
جو تکلیف میں مبتلا ہے۔
آپ
تو زندگی کے میدان میں اسی ڈگرسے بازی لگا رہے ہیں اگر کہیں دور بیٹھ کے کوئی شخص آپ
کو یہ سب کرتے دیکھ رہا ہے تو وہ ہےوہ بیمار شخص
پھر
ان چند الفاظ پر مبنی جملے کو بولنے کا تکلف کیوں؟؟؟؟
کیوں
کھوکھلے الفاظوں کی مالا بنی جاتی ہے ؟
کیوں
کہ الفاظ محض الفاظ نہیں ہوتے یہ تو دل میں موجود احساسات کی ترجمانی کرتے ہیں۔
ہم کبھی بھی کسی شخص کی تکلیف
کا اندازہ نہیں کرسکتے پتہ ہے کیوں ؟
یہ
محض چند الفاظ ہی ہیں کے مجھے اندازہ ہے کے آپ کس تکلیف سے گزر رہی ہیں/ گزر رہے ہیں
کیوں کے اللّٰہ سبحانہ وتعالی نے ہر شخص کے اندر درد کو برداشت کرنے کی صلاحیت مختلف
رکھی ہے . کوئی شدتِ درد سے کراہ رہا ہوتا ہے، آہ وپکار کر رہا ہوتا ہے ،کوئی اللّٰہ
سبحانہ و تعالیٰ سے آنکھوں میں متواتر آنسو لیے خود کے لیے دعا کر رہا ہوتا ہے، کوئی
رب تعالٰی کی طرف سے اس آزمائش کو ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے، صبر کے دامن کو مضبوطی
سے تھامے رب سے اس کے ساتھ کی آس لگائے صبر
کی کئی منزلیں طے کر رہا ہوتا ہے ۔ اور وہ اس ڈیوریشن کو خود کے لیے ناامیدی کا باعث
نہیں ہونے دیتے ۔ بلکہ پچھلے تندرستی سے گزارے لمحات کو یاد کر کے رب تعالیٰ کا شکر
ادا کرتے ہیں ۔ اسی مناسبت سے میرے ذہن میں ایک بہادر ، خوبصورت نوجوان دوشیزہ کا واقعہ
یاد آتا ہے۔
جو
آج سے کچھ عرصہ پہلے اس دنیا فانی سے کوچ کر گی تھی ۔ میری رب تعالیٰ سے دعا ہے کے
اللّٰہ سبحانہ وتعالی اس کی مغفرت فرمائیں ، اس کے درجات بلند فرمائیں ، اسے جنت الفردوس
میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں آمین!!!!
وہ
21 سالہ نوجوان دوشیزہ کینسر کی بیماری میں مبتلا تھیں ۔ ایک دن اس کی دوست نے اس سے
پوچھا کے آپ اتنی تکلیف میں ہو آ پ کی زبان پے کبھی شکوہ نہیں آیا ، آپ کو اپنے رب
سے کوئی گلہ نہیں کیا، کے اتنی چھوٹی عمر میں آپ اتنی بڑی بیماری میں مبتلا ہیں ۔
اس
نے بڑے ہی دلچسپ اور خوبصورت انداز میں جواب دیا:-
*یہ تو ابھی مہینہ ہوا ہے شدت
درد کو جب میں نے حضرت عمران بن حصین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی بیماری کا سنا تو میرے
رونگٹے کھڑے ہو گئے تیس سال سے وہ ایک بیماری میں مبتلا تھے جس کے باعث ان کے پیٹ کے
ذریعے انتڑیوں سے پیپ اور خون بہتا تھا میری بیماری تو اس کے آگے کچھ بھی نہیں ۔
حضرت ایوب علیہ السلام اٹھارہ سال
بیماری میں مبتلا رہے
مجھے درد ہے لیکن میرے اللّٰہ سے
شکوہ نہیں اللّٰہ کا شکر ہے کے اس نے اکیس سالہ زندگی تندرستی والی عطا کی ہے ایک مہینہ
درد سے گزری ہوں تو اکیس سال تندرستی والے بھول جاؤں ہرگز نہیں!!!!!
اور
مومینین کا تو یقین ہوتا ہے نا
ارشادِ
باری تعالیٰ ہے
ان
اللّٰہ مع الصابرین
ترجمہ:
بے شک اللّٰہ سبحانہ وتعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
ارشادِ
ربانی ہے
لا
یکلف اللّٰہ نفسا الا وسعھا
ترجمہ
اللّٰہ
سبحانہ وتعالی کسی بھی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ نہیں آزماتا
اللّٰہ
سبحانہ وتعالی نے ہر شخص کو صبرکے ایک جیسے درجے پر فائز نہیں کیا
اللّٰہ
سبحانہ و تعالیٰ نے کسی کے لیے آزمائش کی مدت طویل رکھی ہے اور کسی کے لیے مختصر رکھی
ہے ، کسی کے لیے دکھ درد کی شدت زیادہ رکھی ہے کسی کے لیے کم، کسی کو اللّٰہ سبحانہ
وتعالی اس مشکل وقت میں ایک مخلص انسان کا ساتھ نصیب کر کے سہارا دیتے ہیں اور کسے
کے پاس اس وقت میں کندھے پر ہاتھ رکھنے کے لیے کوئی ایک بھی شخص میسر نہیں ہوتا ، کسی
کو اللّٰہ سبحانہ وتعالی ایک اجنبی شخص کی زبان سے چند الفاظ سنا کر اس کو مشکلات سے
نبٹنے کے لیے چٹان کی مانند مضبوط کر دیتے ہیں
اور
ان حالات میں انسان اگر اس ایک آیت کو ذہن میں رکھے تو دل پر سکون ہو جاتا ہے
ارشادِ
ربانی ہے
{ وَھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ
بَصِیْرٌ }
”اور تم جہاں کہیں بھی ہوتے ہو وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے۔ اور جو کچھ
تم کر رہے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔“ جو کچھ اچھے یا برے اعمال تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ
بذاتِ خود ان کا چشم دید گواہ ہے۔
اور
یہ اللّٰہ سبحانہ وتعالی کا ساتھ صرف مخلص بندوں کو نصیب ہوتا ہے
ہجرت کے وقت غار ثور میں اور سارے
سفر میں اللّٰہ سبحانہ و تعالیٰ کا ساتھ رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر ؓ کے ساتھ تھا ، مشرکین
کے ساتھ نہیں۔
اور
یقین صرف اس ذات پر ہونا چاہیے اس کے سوا کون ہے جوتنگی کو آسانی میں بدل دے، تکلیف
میں راحت کا سامان پیدا کردے، صرف وہی مصور ہے جو ٹوٹے دل اور ٹوٹتی ہوئی ہمتوں کو
اپنی محبت و شفقت سے جوڑدیتا ہے۔ بے شک اللّٰہ توکل کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے
ارشادِ
ربانی ہے
ان
اللّٰہ یحب المتوکلین
ترجمہ:
بے شک اللّٰہ سبحانہ وتعالی توکل کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے ♥️
ازقلم:
حافظہ
تحریم شہزادی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
Comments
Post a Comment