بسم
اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
عنوان:
ہمارے صنم (بت)
از قلم: مومنہ زہراء
ترجمہ:
آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں
اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے
ہو اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور
اس کی راہ کے جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں،
تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالٰی اپنا عذاب لے آئے اللہ تعالٰی فاسقوں کو ہدایت
نہیں دیتا۔ (سورة التوبة ۔ 24)
ہم
اللّٰہ کو اپنا معبود مانتے ہیں لیکن معبود کی مانتے نہیں۔ ہمارے دل کی سلطنت پر تو
وہ بت راج کرتے ہیں جنہیں کسی بھی معاملے میں ہم اللّٰہ اور اس کے احکامات پر فوقیت
دے جاتے ہیں۔ ہم سب نے اپنے الگ الگ بت تراش کر دل کے سنگھاسن پر انھیں ایک مخصوص مقام
دے رکھا ہے۔ کسی کا بت اس کا نفس ہے جس کی مرضی کو وہ اللّٰه کی رضا سے بھی زیادہ مقدم
رکھتا ہے، کسی کا بت اس کا مال بن جاتا ہے جس کے حصول کیلئے وہ حلال اور حرام کی تمیز
بھی بھول جاتا ہے، کوئی اپنا بت شہرت، مرتبے اور ناموری کو بنا لیتا ہے پھر ان کے پیچھے
مارا مارا پھرتا ہے، کسی کا بت اس کے رشتے بن جاتے ہیں جن سے وفا کی امید پر وہ ساری
زندگی ان کیلئے دھکے کھاتا پِھرتا ہے۔ یہ تمام بت انسان کی حوس کو ظاہر کرتے ہیں! واہ
واہ کی حوس، نام کی حوس، عزت کی حوس، شہرت کی حوس، مرتبے کی حوس، دولت کی حوس، تکمیلِ
خواہشات کی حوس، کھوکھلے اور عارضی تعلقات سے وفا کی حوس۔ ساری زندگی ان بتوں سے عقیدت
ظاہر کرنے کی جدو جہد میں انسان اپنے خالقِ حقیقی اور معبودِ برحق کی ذات اور اس کے
احکامات کو بہت پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔
کریم
رب کا فرمان ہے:
ترجمہ:
کبھی تم نے اس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا
ہو؟ (سورة الفرقان ۔ 43)
نفس
کو خدا یا معبود بنانے سے کیا مراد ہے؟ اگر کسی بھی معاملے میں نفس کی خواہش اور مرضی
اللّٰہ کے حکم اور اس کی رضا پر غالب آ گئی تو نفس معبود بن جاتا ہے۔ معبود وہ ذات
ہے جس کی عبادت کی جائے، بندگی کی جائے، جس کا کہا مانا جائے، جس کے حکم کو ہر تعصب
اور خواہش سے مقدم رکھا جائے۔ یہ ذات بلاشبہ اللّٰہ کی ہے لیکن جب اللّٰہ کے حکم کو
پسِ پشت ڈال کر نفس کی پیروی شروع کر دی جائے تو نفس ہمارا بت بن جاتا ہے۔ کوئی تعلق،
کوئی رشتہ، کوئی جذبہ جب ہماری نظر میں اللّٰہ تعالٰی اور اس کے احکامات سے زیادہ اہمیت
اختیار کر جائے تو وہ ہمارا بت ہی تو بن جاتا ہے جِسے بروقت نہ توڑا جائے تو ابدی خسارہ
انسان کا مقدر ٹھرتا ہے۔ ہر اذان کے وقت انسان نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے وہ اللّٰه کو
اپنا معبود مان کر اللّٰہ کے سامنے حاضر ہو گا یا نفس کی پیروی کرتے ہوئے اللّٰہ کے
حکم کو نظر انداز کر دے گا اگر وہ نماز ادا نہیں کرتا تو اس کا عمل کس کو معبود ظاہر
کر رہا ہے؟ شاعرِ مشرق علامہ اقبال "جواب شکوہ" میں فرماتے ہیں:
کس
قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے
ہم
سے کب پیار ہے، ہاں نیند تمہیں پیاری ہے
اللّٰہ
تعالٰی نے واضح فرما دیا ہے کہ انسان کا مال اور اولاد اس کیلئے آزمائش کا سامان ہیں
پھر بھی انسان زیادہ کی تمنا میں ہر ناجائز کام کرتا ہے۔ دھوکہ دہی، جھوٹ، فراڈ، سود،
رشوت، کرپشن، بے ایمانی، وعدہ خلافی، حق تلفی یہاں تک کہ کوئی بھی برائی کا موقع انسان
ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ کیا سود لیتے ہوئے انسان نہیں جانتا کہ سود اللّٰہ کے ساتھ
اعلان جنگ ہے؟ کیا رشوت لیتے یا دیتے ہوئے اسے یہ خیال نہیں آتا کہ رشوت لینے والا
اور دینے والا دونوں آگ میں ہیں؟ کیا اسے نہیں علم کہ جھوٹے پر اللّٰہ کی لعنت ہے؟
افسوس! وہ جانتا ہے لیکن پھر بھی وہ یہ سب کرتا ہے کیونکہ اللّٰہ اس کیلئے اہم نہیں
رہا، اس کے لیے اس کے بت اہم ہیں! اس کا وہ نفس اس کیلئے اہم ہے جو ہمیشہ برائی کی
دعوت دیتا ہے، اس کے وہ رشتے اس کیلئے اہم ہیں جو بہت جلد بھول جانے والے ہیں، اس کا
کاروبار اس کیلئے اہم ہے جس کی مدت بہت قلیل ہے، اس کا بینک بیلنس اس کیلئے اہم ہے
جو مرنے کے بعد اس کے کسی کام نہیں آئے گا، اس کیلئے یہ ظاہری چمک دمک اور بلبلے جیسی
کمزور دنیا اہم ہے جو بہت جلد ختم ہو جانے والی ہے۔
افسوس
ہے ایسے انسان پر جو اپنے مقصدِ حیات سے بے خبر ہو کر دنیا کی رنگینیوں میں کھو چکا
ہے۔ زندگی کا مقصد اور حاصل تو فقط اللّٰہ کی بندگی ہے۔ اللّٰہ کی رضا کے سامنے سر
تسلیم خم کرنا ہی تو مسلمان کی معراج ہے۔ جو انسان اللّٰہ کا بندہ نہیں بنتا وہ خواہشات
کا بندہ بن جاتا ہے، نفس کا بندہ بن جاتا ہے، مال کا بندہ بن جاتا ہے جیسے ڈاکٹر اسرار
احمد فرماتے تھے کہ نام رکھا ہوا ہے عبد الرحمن (رحمان کا بندہ) لیکن حقیقت میں ہوتا
وہ عبدالدرہم ہے، نام عبداللّٰہ (اللّٰہ کا بندہ) ہوتا ہے لیکن بن وہ انسان عبدالدینار
جاتا ہے۔
افسوس!
جن نفس کے بہکاوں اور شیطان کے وسوسوں کو حقیقت مان کر ہم ان کے حصول کی جدو جہد کیلئے
اللّٰہ کی رضا اور ناراضگی کا خیال بھی نہیں کرتے ان کی حقیقت صنم خانوں میں پڑے ان
بتوں سے زیادہ نہیں ہوتی جنہیں آخر کار ٹوٹ ہی جانا ہوتا ہے، ہماری زندگی میں ٹوٹ جائیں
تو بہتر ہے ورنہ ہماری موت پر تو ان کی پرچیاں بکھر ہی جائیں گئیں۔ ہمارے دلوں پر براجمان
باطل محبوبوں کا کردار سونے کے اس بچھڑے سے زیادہ نہیں ہوتا جس کا مقدر نیل کے پانیوں
میں بہہ جانے کے سوا کچھ نہیں لیکن اس دور میں ہمارے دلوں میں موجود بتوں کو توڑنے
اور سونے کے بچھڑوں کو پانیوں میں بہانے پیغمبر
نہیں آئیں گے یہ حوصلہ ہمیں خود کرنا پڑے گا تاکہ ہمارا دل جو خدا کا خانہ ہے اُسے
اُسی کیلئے خالص اور پاکیزہ رکھا جا سکے۔
*********
Comments
Post a Comment