Gaza aur hmari mujrimana khamoshi Article by Shahid Mushtaq



غزہ اور ہماری مجرمانہ خاموشی

کالم نویس: شاہد مشتاق

 

غزہ کی موجودہ صورتحال انتہائی پریشان کن ہے۔ اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی حملوں میں کم از کم 36,479 فلسطینی شہید اور 82,777 زخمی ہوئے ہیں، غزہ میں انسانی حالت مزید بگڑ چکی ہے جہاں ایک ملین سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور بنیادی ضروریات کی شدید قلت پیدا ہوچکی ہے ۔ امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ صورتحال "تباہ کن" ہو چکی ہے، اور فوری عالمی مدد کی ضرورت ہے یہ حالات بہت سنگین ہیں اور دنیا بھر کے لوگوں کو اس بحران پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ مظلوم فلسطینیوں کو انسانی امداد اور سیاسی حمایت فراہم کی جا سکے۔

غزہ کی اب تک کی صورتحال اور امت مسلمہ کی مجرمانہ خاموشی پر لکھنا ایک حساس اور اہم موضوع ہے جو کہ موجودہ عالمی سیاسی اور سماجی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت زیادہ توجہ کا مستحق ہے۔

غزہ مقبوضہ فلسطین کا ایک چھوٹا سا علاقہ ہے،جو دنیا بھر میں مظلومیت کی ایک بڑی مثال بن چکا ہے۔ اسرائیلی جارحیت، معاشی ناکہ بندی، اور بین الاقوامی برادری کی بے حسی نے غزہ کی عوام کو مسلسل مشکلات میں مبتلا رکھا ہوا ہے۔

 

غزہ کی پٹی، جو کہ 41 کلومیٹر لمبی اور 6 سے 12 کلومیٹر چوڑی ہے، فلسطین کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ علاقہ 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد سے مسلسل کشیدگی کا شکار رہا ہے۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد، اسرائیل نے غزہ پر قبضہ کر لیا، لیکن 2005ء میں اسرائیل نے یہاں سے اپنی فوجیں واپس بلا لیں، تاہم غزہ کی ناکہ بندی جاری رکھی۔

غزہ کی موجودہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ یہاں کی عوام کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے ، اسرائیل کی مسلسل بمباری، ناکہ بندی، اور اقتصادی پابندیوں نے یہاں کی معیشت کو تباہ کر دیا ہے۔ غزہ کے لوگوں کو پانی، بجلی، صحت کی سہولیات، اور دیگر بنیادی ضروریات کی شدید کمی کا سامنا ہے۔

غزہ میں انسانی بحران سنگین شکل اختیار کر چکا ہے۔ ہزاروں فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں اور انہیں بنیادی سہولیات تک رسائی نہیں ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے انسانی امداد کی فراہمی ناکافی ہے اور اکثر یہ امداد بھی اسرائیلی پابندیوں کی وجہ سے متاثر ہورہی  ہے۔

غزہ کا تعلیمی نظام بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ اسکول اور یونیورسٹیاں بمباری کے دوران تباہ ہو چکی ہیں اور بچے تعلیم سے محروم ہو چکے ہیں۔ تعلیم کی کمی نے یہاں کے نوجوانوں کے مستقبل کو تاریک بنا دیا ہے۔

 

غزہ میں صحت کا نظام تقریباً ناکارہ ہو چکا ہے۔ اسپتالوں میں ادویات اور طبی آلات کی شدید کمی ہے۔ صحت کے مراکز کو اسرائیلی حملوں میں نشانہ بنایا جاتا ہے، جس سے مریضوں کی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے ۔

 

غزہ کی صورتحال پر امت مسلمہ کی خاموشی ایک افسوسناک حقیقت ہے۔ اسلامی ممالک کی اکثریت نے اس مسئلے پر مؤثر اقدام نہیں اٹھایا جبکہ اس کے برعکس مغربی ممالک میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف طلباء و عوام کی تحریک دن بدن زور پکڑتی جارہی ہے  ۔

بہت سے اسلامی ممالک اپنے سیاسی مفادات کی خاطر اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان ممالک کا ماننا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر بنا کر وہ اپنے قومی مفادات کو بہتر طریقے سے محفوظ کر سکتے ہیں۔

کئی اسلامی ممالک پر عالمی دباؤ بھی ہے جس کی وجہ سے وہ غزہ کے مسئلے پر کھل کر بات نہیں کر سکتے۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی جانب سے دباؤ کی وجہ سے یہ ممالک فلسطین کی حمایت میں واضح موقف اختیار کرنے سے کتراتے ہیں۔

اس کے علاوہ بہت سے اسلامی ممالک اندرونی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ ان ممالک میں سیاسی عدم استحکام، اقتصادی بحران، اور دہشتگردی جیسے مسائل کی وجہ سے ان کے پاس غزہ کی مدد کرنے کی صلاحیت ہی نہیں جس وجہ سے وہ بے حس بنے ہوئے ہیں  ۔

 

اسلامی تعلیمات میں اخوت اور بھائی چارے کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں مسلمانوں کو ایک دوسرے کی مدد کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ غزہ کے مسئلے پر امت مسلمہ کی خاموشی اسلامی تعلیمات کے برعکس ہے۔

قرآن مجید میں مسلمانوں کو ایک دوسرے کی مدد کرنے اور ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ سورۃ الحجرات میں ارشاد ہوتا ہے: "مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں"۔ (49:10)

مگر فیہ زمانہ امت مسلمہ کے ایک بڑے حصے نے مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے اپنے بھائیوں کو صیہونی درندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے ۔

ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واضح ارشاد ہے : "مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، اگر جسم کے ایک حصے میں درد ہو تو سارا جسم بے چینی محسوس کرتا ہے۔ مگر کوئی بے حسی سی بے حسی ہے جس کی تاریخ میں مثال ملنا ہی ناممکن ہے

امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ غزہ کے مظلوم عوام کی مدد کرے اور ان کے حقوق کے لئے آواز بلند کرے۔

اسلامی ممالک کو بین الاقوامی فورمز پر غزہ کے مسئلے کو اٹھانا چاہئے اور اسرائیل پر دباؤ ڈالنا چاہئے کہ وہ غزہ کی ناکہ بندی ختم کرے اور انسانی حقوق کی پامالی بند کرے۔

اسلامی ممالک کے عوام کو بھی اپنے حکمرانوں پر دباو بڑھانا چاہئے تاکہ وہ فلسطین کی حمائت میں اٹھ کھڑے ہوں ۔

*****************

Comments