"بغاوت کا انتظار"
(نوید خان)
انسان
کے ذہن میں جب بھی بغاوت کا لفظ آتا ہے تو انسان ڈر جاتا ہے۔ ذہن و خیال میں خونریزی
، تباہی ، موت اور لاشیں وغیرہ کے مختلف تصورات یقیناَ ایک انسان کو ڈرا دیتے ہیں
۔ اور یہی خوف اور اضطراب ہی کی وجہ سے کہ کوئی باغی نہیں ہوسکتا اور نہ کوئی کسی
حالت میں بھی بغاوت پر راضی ہوتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے ماضی اور حال میں ہونے
والے جبری واقعات ہیں جو کہ ہمارے ملک کے عوام ہمیشہ سے اس ظلم و ستم کا مشاہدہ کرتے
رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے نہ صرف خوف بڑھتا جا رہا بلکہ عوام مزید پستے چلے جا رہے ہیں۔
پاکستان
کے سیاستدان اور مقتدر حلقوں نے اس ملک کے وسائل کو اپنا میراث سمجھ کر رکھا ہے یہی
وجہ ہے کہ سیاست سے لیکر تمام بڑے بڑے عہدوں پر براجمان افسران کی فیملی کے افراد ایک
مسلسل گردش کی صورت میں مختلف عہدوں پر فائز ہو کر اس ملک کے وسائل سے مستفید ہو رہے
ہیں جن پر ذیادہ حق اس دھرتی کے ان افراد کا ہے جن کے پسینے سے یہ ملک اس قابل ہوا
کہ آج دنیا میں اس کی ایک پہچان بن چکی ہے۔
لیکن بد قسمتی سے ایک خاص اور طاقتور ٹولے نے فرعونیت ، ظلم ،جبر اور استحصال کے فلسفے
کو اپناتے ہوئے اس ملک کے غریب عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیئے تاکہ خوف اور ڈر کے مارے
بے بس اور غریب عوام کا باغی ہونا تو دور بغاوت کا تصور بھی نہ کرنے پر مجبور کر سکے۔
ہمارے
ملک کے عوام کی بد قسمتی یہ ہے کہ ہم ریاست کے وجود اور اس کے قائم ہونے کی اصل حقیقت
کو نہیں سمجھتے۔ ریاست کا قیام کیوں ہوا, اس کی بنیادی مقاصد کیا ہیں۔ اگر عوام کو
اس کا ادراک ہوتا ہے تو یقیناً ظلم اور جبر سے بھری یہ ریاست پھر امن اور سکون کا گہوارہ
بن جائے گی۔ عوام نے ریاست کا وجود قائم کیا اور ریاست کا مقصد صرف اور صرف عوام کی
بہتری ہے۔ لہذا اگر ریاست عوام کو بہتر سے بہترین سہولیات فراہم نہیں کر سکتی تو بغاوت
کا آپشن استعمال کرنا کوئی جرم نہیں بلکہ یہ ایک اخلاقی اور قانونی حق بن جاتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں بغاوت کے لفظ کی کوئی بازگشت سنائی نہیں دے رہی لیکن حالات بلکل موزوں
ہے۔ عوام میں شعور اجاگر کرنے والے افراد کی کمی ہے ورنہ ہم کب کے بدل چکے ہوتے اور
ابھی تک بغاوت کا انتظار نہ کرتے۔
*******************
Comments
Post a Comment