عنوان:
ووٹ کا حق
طوبیٰ عنبرین
جبر
کے زور پر طاقت کے حصول کے نتیجے میں انسانی معاشروں میں بڑے پیمانے پر انسانی جانوں
کا ضیاع ہونے سے انتشار، بد امنی افراتفری پیدا ہوتی رہی ہے جس نے انسانی سماج کی تمدنی
حوالے سے ترقی کی رفتار کو کم کر کے تیزی کے ساتھ ترقی کی راہ پہ گامزن ہونے سے روکے
رکھا بلکہ انسانی معاشرے کے لیے منفی نتائج بھی پیدا کیے۔
جبر کے زور پر اقتدار کا حصول اور
انتقال اقتدار انسانوں کے لیے ہمیشہ ایک مسئلہ رہا، جب بھی کوئی گروہ اقتدار میں آتا
تو وہ آسانی سے اقتدار چھوڑنے پر راضی نہ ہوتا یوں انتقال اقتدار کے لیے خون خرابہ
اور انتشار انسانی سماج کا مقدر بنا رہا۔
اس
مسئلے سے نکلنے کے لیے صدیوں کے تجربات اور فکر کی روشنی میں صاحب فکر انسانوں نے ایک
ایسا عمل متعارف کروایا ہے جس کے ذریعے طاقت اور اقتدار کا حصول اور انتقال اقتدار
پرامن اور اجتماعی مشاورت سے ممکن ہو سکے، اس عمل کو جمہوری عمل کا نام دے دیا گیا۔
جمہوریت یا جمہوری نظام کی اساس
ووٹ ہے، ووٹ کیا ہے؟ کسی بھی قومی ریاست میں انتقال اقتدار کے وقت ایک شہری کی رائے
کو ووٹ کہا گیا ہے اگر ووٹ نہیں تو جمہوریت نہیں اور جمہوریت نہیں تو اکثریت آزادی
اظہار رائے سے محروم ہو جاتی ہے اور آمریت کا جبر اور ہولناکیاں معاشرے کا شیرازہ بکھیر
دیتی ہیں۔
ووٹ
دینے کا حق معاشرے میں مساوات کو تسلیم کرنے، قانون کے سامنے ایک شخص کی مساوات، اور
دوسرے تمام حقوق کے تحفظ کا ایک بہترین طریقہ ہے۔
اگر کسی شخص کو ووٹ دینے کی اجازت
نہیں ہے، تو اس کے پاس معاشرے میں دوسروں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر معاشرے میں تبدیلیاں
کرنے، یا ان کی زندگیوں کو متاثر کرنے والے قوانین اور پالیسیوں کو بہتر بنانے کے مواقع
نہیں بھی ہیں۔
اگر
کسی کو منتخب نہ ہونے دیا جائے تو بھی ایسا ہی ہے۔ یہ حق سے محروم فرد کو معاشرے کے
باقی حصوں کے لیے محکومی کی پوزیشن پر پہنچا دیتا ہے۔ دوسرے حقوق کا تحفظ اس وقت ختم
ہو جاتا ہے جب افراد کو ووٹ کے حق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، صحت، تعلیم،
روزگار کے شعبوں میں پالیسیوں میں بہتری لانے کے لیے کوئی سیاسی طور پر اپنی مرضی کا
اظہار نہیں کر سکتا۔
۔
ووٹ
کا حق آزادی اور زندگی کی نمائندگی کرتا ہے۔ ووٹنگ ایک اہم حق ہے کیونکہ لوگ لوگوں
کو ان کی زندگیوں میں تبدیلی کے فیصلے کرنے کا حق دینے کے لیے ووٹ دے رہے ہیں۔
ایک وقت تھا جب سب کو ووٹ دینے
کا حق نہیں تھا۔ ووٹنگ کی تاریخ صنف اور نسل کے درمیان بہت زیادہ عدم مساوات کا باعث
بنی۔ اس سے نسلوں کے درمیان مساوات کی حمایت کے لیے ووٹنگ کے قوانین کو تبدیل کیا گیا
ہے اور شہریوں کو اپنی ووٹنگ کی طاقت کو استعمال کرنے کی اجازت بھی دے دی گئی ہے۔
ووٹ
ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس کی مدد سے معاشرے کے سیاسی نظام کے اندر اپنا اثر رسوخ پیدا
کیا جا سکتا ہے۔ ووٹنگ کا عمل جمہوری معاشرے میں لوگوں کو غیر فعالیت اور سماجی عمل
سے لا تعلقی سے نکال کر فعال بنانے اور نظام کو اپنانے اور اونرشپ دینے کاایک اہم عمل
ہے اسی عمل کی مدد سے لوگوں میں تنظیم اور مل جل کر کام کرنے کی صلاحیت پیدا کی جا
سکتی ہے، جو معاشرے ووٹنگ کے عمل میں زیادہ سے زیادہ حصہ لیتے ہیں ان کی سماجی شعور
کی رفتار تیز ہونے کے ساتھ ساتھ وہ اجتماعی طور پہ مضبوط سے مضبوط ہوتے جاتے ہیں اور
پھر وہ اپنی اجتماعی عوامی طاقت کے زور پرنظام کے اندر بہتری لانے میں موثر کردار ادا
کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
ووٹ کی شرعی حیثیت:
شرعی
اعتبار سے ہمارا ووٹ تین حیثیتیں رکھتا ہے۔
(1) شہادت
(2) سفارش
(3) حقوق مشترکہ کی وکالت۔
تینوں
صورتوں میں جس طرح قابل، اہل اور امانت دار آدمی کو ووٹ دینا موجب ثوابِ عظیم ہے اور
اس کے ثمرات سب کو ملنے والے ہیں، اسی طرح نااہل اور خائن شخص کو ووٹ دینا جھوٹی شہادت
بھی ہے، بری سفارش بھی اور ناجائز وکالت بھی اور اس کے تباہ کن نتائج بھی اسکے اعمال
نامہ میں لکھے جائیں گے۔
ووٹ
ایک مشورہ:
اسی
طرح ووٹ ایک سفارش و مشورہ ہے جسے حدیث میں امانت بھی کہا گیا ہے، اس امانت کا تقاضا
یہ ہے کہ سوچ سمجھ کر کسی بھی ذاتی مفاد اور قرابت و تعلقات کا لحاظ کیے بغیر اجتماعی
منفعت کو سامنے رکھ کر حق رائے دہی کا استعمال کیا جائے۔
اکثر
وبیشتر ایسا ہوتا ہے کہ ہم خوشامد کرنے والوں، رشوت دینے والوں اور سبز باغ دکھانے
والوں کے فریب میں آجاتے ہیں اور بلا سوچے سمجھے اپنے روشن مستقبل کو اپنے ہی ہاتھوں
سے داؤ پر لگا دیتے ہیں۔
ماضی
کا احتساب،نہایت ضروری:
احتساب
و جائزہ زندہ قوموں کا شعار ہے، جس قوم کے افراد بالخصوص قائدین و زعماء، کارِ احتساب
سے غافل ہوجاتے ہیں وہ قوم پستی وادبار کی گہری کھائیوں اور ذلت و نکبت کے اندھیروں
میں گم ہو جاتی ہے؛ لہذا ووٹ دینے سے قبل ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم انفرادی و اجتماعی
سطح پر ضرور اپنے ماضی کا جائزہ لیں اور مستقبل کے لیے لائحہ عمل تیار کریں۔
قوم
کے ہر فرد بالخصوص نوجوانوں سے استدعا ہے کہ وہ اپنے ووٹ کا حق ضرور استعمال کریں،
آپ ہی اس قوم کے معمار اور مستقبل کے پیشوا ہیں۔
بے
شک آج کا نوجوان پہلے سے کہیں زیادہ با صلاحیت، محبِ وطن، مخلص اور قوم کے لئے کچھ
کر گزرنے کا جذبہ رکھتا ہے اس لئے اپنی رائے کا اظہار ضرور کریں۔
اگر ہم گھر میں بیٹھے رہیں گے تو
پھر تبدیلی کیسے آئے گی؟نظام کیسے بدلے گا؟ فرقہ واریت کیسے ختم ہوگی؟یہ سوچنے کا مقام
ہے جب عوام ہی اپنے فرض سے غافل ہوں گے جب ہم خود ہی تبدیلی لانے میں اپنا کردار ادا
نہیں کریں گے تو پھر نظام سے شکایت جائز نہیں۔ جہدِ مسلسل ہمارا فرض ہے اور سچے دل
سے کی گئی کوئی بھی محنت رائیگاں نہیں جاتی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
Comments
Post a Comment