تعلیم اور شعور
از قلم سحر مومنہ
لفظ
تعلیم عربی زبان سے ماخوذ ہے جس کی معنی" ہے "
(واقفیت حاصل کرنا )
(نشوونما )
(تربیت کرنا)
(جانا یا آگاہی حاصل کرنا)
کہہ
سکتے ہیں اگر ہم اصلاحی حوالے سے دیکھے تو" تعلیم نئی نسل کے لیے معاشرتی اقدار
ثقافت اور ادب کا دوسرا نام ہے"
شعور
کی بات کریں تو اس لفظ کی معنی ہے "
(احساس)
اب آج کل کے تعلیم یافتہ لوگوں
پر ہم غور کریں تو انکے پاس تعلیم تو بہت ساری ہے پر شعور کی کمی ہے ان میں آج کل کے
تعلیم یافتہ ڈگری حاصل کرنے والوں میں شعور کی کمی
بہت زیادہ ہے
دین
کو کسی خاطرے میں نہیں لاتے ہیں انکے نظر میں
دین ایک قید ہے فیشن اور ماڈرن کے نام پر عریاں لباس زیب تن کرنا اعلی سمجھتے
ہیں
پڑھے
لکھے ڈگری یافتہ لوگوں کے لیے ماں باپ بوجھ ہیں ڈبل ماسٹر کیا ہوا ایک بھابھی کے لیے
اس نند بس نؤکرانی ہے اقتدار میں بیٹھے ہوئے
اعلی تعلیم یافتہ
اعلی عہدوں پر فائز حکمران ملکی خزانے کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں اور ادب کا
تو اس سے بھی برا حال ہے
ادب کے نام پر بد زبانی کسی کی
تحریر کو اپنا کرنا صاحب کتاب لوگوں کا عام اور چھوٹے رائٹرز سے بد اخلاقی سے پیش آنا
یہ
شعور نہیں ہے غرور ہے تعلیم کا غرور ہے بس
اگر سچ کہا جائے تو آج کل پڑھے لکھے
لوگ جاہل سے برتر ہیں
تعلیم
ہمارے پاس بہت ہے پر شعور ہمیں چھو کر بھی نہیں گزرا ہے جہان ہم نے پڑھے لکھے دولت
مند لوگوں غرور اور گھمنڈ چور دیکھا ہے
وہاں
ہم نے عبدا ستار ایدھی کو سڑک پر کھڑے ہوکر بھیک مانگتے ہوئے دیکھا ہے
وہ اپنے لیے نہیں بلکے غریب عوام
کے لیے جہان ہم نے پڑھے لکھے بچوں کو بوڑھے ماں باپ کو دھتکارے ہوئے دیکھا ہے وہی ان
پڑھ جاہل گوار مزدوری کرتے ہوئے بچے کو ماں باپ کا سہارا بنتے ہوئے دیکھا ہے
جہان ہم نے تعلیم یافتی مرد اور
عورت اسلام کا مزاق اڑاتے اور عاری لباس پہنتے ہوئے دیکھا ہے
وہی
پر بشری عمران خان ہیں جو پاکستان کی خاتون اول ہیں جو سماجی بھلائی کے کام کر رہی
ہیں
ڈاکٹر
سمعیہ راحیل قاضی جو انٹرنیشنل وومن یونین کی صدر ہیں رہ چکی ہے ان شاءاللہ الگے کالم میں پاکستان کی
با پردہ خواتین کے لکھنے کی چھوٹی سی کوشش ضرور کرے گے ہم
جہاں
ہم نے صاحب کتاب رائٹرز کا بد اخلاقی کرتے ہوئے غرور میں چور دیکھا ہے وہاں ہم نے بابا
جانی ساجد عباس ساجد جو عین عشق کے سرپرست اعلی ہیں انکو انتہائی شفقت اور پیار محبت
سے بھرا انسان پایا ہے ادب کی دنیا میں موجود "ساجدہ امیر " "ملائکہ حوریں" "تہنیت آفریں ملک" "ایمن ریاض
" کو بہت با اخلاق اور محبت سے بھرا ہوا پایا ہے اور یہ سب اعلی تعلیم یافتہ اور اعلی عہدوں پر فائز ہیں
انکے پاس تعلیم بھی ہے اور شعور بھی ہے ہم نے کافی ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جن کے پاس
تعلیم نہیں تھی پر شعور ان میں بہت دیکھا ہے پہلے یہ کہا جاتا تھا تعلیم کے بغیر انسان
جاہل ہے پر ایسے بہت انسان ہیں جو تعلیم کے
ہوتے ہوئے بھی جاہل ہی ہیں
ڈگری
یافتہ ہونا ضروری نہیں ہے با شعور ہونا ضروری ہے
صاحب
کتاب بنا ضروری نہیں ہے صاحب اخلاق ہونا ضروری ہے
ماڈرن
ہونا ضروری نہیں ہے باکردار ہونا ضروری ہے
امیر
ہونا ضروری نہیں ہے سخی ہونا ضروری ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
Comments
Post a Comment