"عنوان:"
"محبت کی باتیں
ایک
خوبصورت گفتگو"
"تحریر:" محمد عثمان
"بلبل غزل سرائی آگے ہمارے مت کر
سب
ہم سے سیکھتے ہیں انداز گفتگو کا"
اللہ
تعالیٰ نے جہاں انسان کو اور بہت ساری بیش قیمت نعمتوں سے نوازا ہے وہیں اسے نعمت گویائی
بھی عطاء کی ہے۔سورۃ رحمٰن میں اس نعمت متبرکہ کا ذکر کرتے ہوئے اللہ پاک فرماتے ہیں۔
اور ہم نے انسان کو بولنا سکھایا۔ جہاں اللہ نے انسان کو بولنا سکھایا ہے وہاں اسے
بولنے کے انداز،اطوار،طریقے اور آداب بھی سکھائے ہیں۔اب یہ ہر انسان کی ذمہ داری ہے
کہ خالق لم یزل کی دی گئی اس لازوال نعمت سے فائدہ حاصل کرے،اسے بنائے سنوارے اور ترقی
دے یا ضائع کر دے۔
"گفتگو کیا ہے؟"
گفتگو
سے مراد وہ بات چیت یا کلام ہے جو کسی دو لوگوں،فریقوں،اور گروہوں کے درمیان ہو۔گفتگو
خطابت و تقریر کی طرح نہیں اور نہ ہی مناظرہ و مجادلہ کی طرح ہے کہ اس میں ہم اپنی
بات پر ڈٹ جائیں یا متعصب ہو جائیں۔بلکہ گفتگو برابری کی بنیاد پر ہوتی ہے جس میں سکون
و اطمینان کا سایہ ہو۔گفتگو کا ماحول کھینچا تانی سے مبرّا،پرسکون اور اعصابی اطمینان
کا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ایسے ماحول میں اپنی بات منوانے،دوسرے کی ماننے اپنے حسین
و دلکش خیالات سے آگاہ کرنے اور دوسروں کے خیالات سے آگاہ ہونے کے اور فوائد حاصل کرنے
کے بہترین اور وسیع مواقع ملتے ہیں۔
"الفاظ کیا ہیں"
دوران
گفتگو ہماری زبان سے نکلنے والے الفاظ کیا اثر رکھتے ہیں آئیے سب سے بڑے داعی،سب سے
بڑے مبلغ اور سب سے بڑے مصلح اعظم سے پوچھتے ہیں۔
"فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم"
"پاکیزہ بات صدقہ ہے۔"
"جو شخص اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے
کہ بھلائی کی بات کرے یا خاموش رہے۔"
"اپنی زبان اپنے قابو میں رکھو،تمہارے گھروں میں وسعت ہو اور اپنے
گناہوں پر روؤ۔"
"لوگ اپنی زبانوں کی وجہ سے ہی اپنے چہروں کے بل دوزخ میں ڈالیں
جائیں گے۔"
"کلام میں جادو کی سی کیفیت ہوتی ہے۔"
معزز
قارئین!
جب
الفاظ میں اتنی طاقت ہے کہ ہمارے منہ سے نکلی ہوئی ہر بات اثر رکھتی ہے۔ہمارے الفاظ
لوگوں کے دل جیت لیتے ہیں بلکہ لوگوں کو ہمارا گرویدہ بنا دیتے ہیں تو پھر اس فن کی
اہمیت اور ضرورت کو سمجھا جا سکتا ہے۔جس خدا وحدہ لاشریک نے یہ دولت عظیمہ عطاء کی
ہے اسی نے اس کے آداب و احکام بھی بتلائے ہیں جن کو اپنا کر ہم اپنی زبان کو مزید شیریں
سخن،طرز تکلم کو پُرسوز،انداز بیاں کو جادوئی بنا سکتے ہیں۔تو آئیے ان آداب و اخلاق
کا جائزہ لیتے ہیں۔!
"زبان کا صحیح استعمال"
سورۃ
حج میں اللہ پاک فرماتے ہیں۔!
پاکیزہ
الفاظ میں سے بولو
علامہ
اقبال رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔!
نگہ
بلند سخن دلنواز جان پرسوز
یہی
ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
زبان کے صحیح استعمال،شفیقانہ انداز
گفتگو،شیریں بیانی اور موقع کے لحاظ سے گفتگو کر کے ہم بڑے سے بڑے مخالف کو بھی زیر
کر سکتے ہیں۔شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔!
بشیریں
زبانی و لطف و خوشی
توانی
کے پیلے بموئے کشی
"زبان کی مٹھاس اور نرمی اور خوشی سے ہاتھی کو بال سے کھینچ سکتے
ہو۔"
لیکن
اس کے برعکس اگر الفاظ کی حفاظت نہ کی جائے،زبان کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو پھر ہماری
زبان سے نکلنے والے جملے تیر بن کر سامع کے دل میں پیوست ہو جاتے ہیں بنا ہوا کام بگڑ
جاتا ہے اور ہم اپنے مقصد میں ناکام رہتے ہیں۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا فرمان
مبارک ہے کہ نیزوں کے زخم بھر جاتے ہیں مگر زبان کے زخم ناسور بن جاتے ہیں۔
"مؤثر اور مدلل گفتگو"
سورۃ
نساء میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ۔!
اثر
والے بول بولو
یہ
حقیقت ہے کہ گفتگو جتنی پرمغز اور بلیغ ہو گی اس کا اثر اتنا ہی زیادہ اور دیر پا ہو
گا۔اپنی بات کو پراثر بنانے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ دلائل اور مثالوں کے ساتھ گفتگو
کی جائے۔
"خاموشی سے سننا"
سامنے
والے کی بات کو خاموشی سے سننا اور پھر اس کے بعد اپنا نظریہ پیش کرنا بھی ایک قابل
تحسین اور دلکش عمل ہے اس سے سامنے والے کے دل میں آپ کا عزت و احترام بڑھتا ہے اور
آپ کے الفاظ اثر چھوڑتے ہیں۔
اسی
طرح نرمی سے بات چیت کرنا، دوسروں کی رائے
کا احترام کرنا، پس منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے گفتگو کرنا، اختلاف رائے کے باوجود اپنی
رائے مسلط نہ کرنا، بامقصد گفتگو کرتے ہوئے اپنا نقطہ نظر واضح طور پر بیان کرنا وغیرہ
بھی آداب گفتگو میں شامل ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ہم سامعین و مخاطبین کے دل جیت سکتے
ہیں اور اپنے زبان و بیاں کا لوہا منوا سکتے ہیں۔
معزز
قارئین کرام!
"حاصل کلام یہ کہ!"
اگر
ہم اپنی گفتگو کے دوران ضد،جھوٹ،چغلی،غیبت،بحث و تمحیص،استہزاء،فحش گوئی،فضولیات،گالم
گلوچ، اونچی آواز سے چیخنا اور خود پسندی کے بجائے اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے،حوالہ
جات اور دیانت داری سے اپنی ذات پر نظر رکھتے ہوئے،سب لوگوں کو یکساں برابر سمجھتے
ہوئے،فریق مخالف کی رائے کا احترام کرتے ہوئے،مشترکہ نکات پر اختلاف اور محبت سے نرم
رویے،میٹھی زبان،پراثر لہجے،دلنشین انداز کو اختیار کرتے ہوئے،موضوع کے مطابق علمی
و فکری،تحقیقی،نظریاتی گفتگو کرتے ہوئے نتیجہ اخذ کریں تو ہم کامیابی کی بلندیوں کو
چھو سکتے ہیں۔کیونکہ جیسے ہی ہم بولنے کے لیے منہ کھولیں گے تو ہمارے اندر چھپی ہماری
اصل شخصیت اور کردار سامنے آئے گا۔جیسا کہ کہاوت ہے۔
"ہر انسان اپنی زبان کے پیچھے چھپا ہے اگر اسے سمجھنا ہے تو اسے
بولنے دو۔"
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ختم
شد!
Comments
Post a Comment