Zikar e ILahi article by Iqra Nadeem

ذکر الٰہی

اقراء ندیم

ذکر کے معنی "یاد کرنا" کے ہیں۔ اصل میں دل و دماغ سے اللہ کو یاد کرنا اور زبان سے تسبیح کرنے کو ذکر کہا جاتا ہے۔ ذکر الٰہی قلبی سکون اور اطمینان کا واحد ذریعہ ہے۔ ذکر الٰہی ایسی کنجی ہے جو انسان کو اس دنیا سے غافل کر دیتی ہے۔ دنیاوی فائدے اور بھاگ دوڑ میں ہم لوگ خود کو اللہ کی یاد سے غافل کر لیتے ہیں جبکہ کامیابی کا راستہ اللہ کو راضی کر کے ہی مل سکتا ہے۔

ہم غور کریں تو آج کل لوگ بس گھر، دولت، بچوں اور بہترین مستقبل کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ خود کے لیے ہم صرف دنیاوی آسائشوں کو تیار کر رہے ہیں۔ دنیاوی آسائشیں ہونے کے باوجود ہم خود کو تنہا اور بےبس محسوس کرتے ہیں۔ سکون کی تلاش میں بھٹکتے رہتے ہیں۔ کبھی سوچا ہے کہ ہم جس دولت کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، وہ ہمیں سکون کیوں نہیں دیتی کیونکہ مال کی لالچ ہمیں اللہ کے ذکر سے غافل کر دیتی ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

"اے ایمان والو! تمھارے مال اور تمھاری اولاد تمھیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کر دیں اور جو ایسا کریں، وہ بڑے ہی زیاں کار ہیں۔" ( سورہ المنافقون:9 )

ہم اللہ کی نعمتوں کو استعمال کرتے ہیں، اللہ کی عطا کردہ نعمتوں سے بہرہ مند ہوتے ہیں اور اسی کی یاد سے غافل رہتے ہیں۔ دنیا کی زندگی تو عارضی ہے، اس دنیا میں تو ہم امتحان کے لیے آۓ ہیں اور اصل ٹھکانہ تو اخروی زندگی ہی ہے۔ اگر ہم اللہ کی یاد سے غافل رہیں گے، تو میدان حشر میں اللہ بھی ہم سے غافل رہے گا۔ ذکر الٰہی ہماری نجات کا ذریعہ ہے۔ اللہ نے ہمیں اپنے ذکر کا حکم دیا ہے۔

" اے اہل بیت خدا کا بہت ذکر کرو۔" (الاحزاب:41)

انسان جب اللہ کا ذکر کرتا ہے تو خود کو پرسکون محسوس کرتا ہے۔ دنیاوی فکروں اور الجھنوں سے آزاد کرنا اور اللہ کے حضور خود کو عاجز کر کے اپنی دلی کیفیات کو بیان کرتا ہے۔ نیکی اس وقت ہی قبول ہوتی ہے، جب وہ رضاۓ الہیٰ کے لیے ہو، خالص اللہ کے لیے اور سنت طریقے کے مطابق ہو۔ اکثر ہم اللہ کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن ہمارا دھیان تب بھی دنیا کی طرف رہتا ہے اور ایسی عبادت اثر بھی نہیں رکھتی۔ زبان سے اللہ کا ذکر کرنا اور دل و دماغ سے دوسری باتوں میں مشغول ہونے سے ذکر کا حق ادا نہیں ہوتا۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے:

" میری یاد کے لیے نماز پڑھا کرو۔"

نماز ذکر کا بہترین انداز ہے۔ اگر نماز کا خشوع و خضوع سے ادا کیا جاۓ تو ذکر الٰہی کا حق ادا ہو جائے اور انسان کو سکون قلب میسر ہو۔ اگر دن میں پانچ نمازوں کو ہم پابندی سے ادا کریں تو ہم ذہنی سکون سے مالامال ہو جائیں گے۔ ہمیں ہر وقت اللہ کے ذکر سے خود کو پرسکون رکھنا چاہیے۔ ہمارے پیارے نبی ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سخت ترین حالات میں بھی اللہ کے ذکر سے غافل نہیں ہوۓ۔ تمام بڑے بڑے معرکوں یعنی غزوہ بدر، احد، خندق، خیبر، تبوک وغیرہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قلب ذکر الٰہی میں مشغول رہتا تھا۔ جنگوں میں ذکر الٰہی کی تلقین یوں فرماںٔی گںٔی:

 " مومنو! جب (کفار کی) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور خدا کو یاد کرو تاکہ مراد حاصل کرو۔" ( سورہ الانفال:45 )

اللہ کے ذکر سے مشکلات اور پریشانیاں کم ہوتی ہیں اور رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ ذکر الٰہی اللہ کے قرب کا بہترین ذریعہ ہے۔ ذکر الٰہی سے انسان اللہ کے قریب ہو جاتا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:

" سو مجھے یاد کرو میں تمھیں یاد کیا کروں گا۔" ( سورہ البقرہ:152 )

خداوند کریم کا فرمان ہے:

"جب بندہ مجھے یاد کرے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔"

ذکر الٰہی کا ایک اور بڑا فاںٔدہ یہ ہے کہ اللہ کے ذکر سے دل سکون پاتا ہے اور دنیاوی فکروں سے انسان کو نجات ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"سن رکھو کہ خدا کی یاد سے دل آرام پاتے ہیں۔"

ذکر الٰہی سے انسان براںٔیوں سے محفوظ رہتا ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے چلتے پھرتے اللہ کا ذکر کرتے رہیں۔

********************

Comments