Saya article by Iqra Nadeem

سایہ

اقراء ندیم

آپ جانتے ہیں دنیا کی ہر شے کا وجود ہوتا ہے جسے ہم دیکھ بھی سکتے ہیں اور چھو بھی سکتے ہیں لیکن اسی چیز کا ایک اور بھی وجود ہوتا ہے جسے ہم 'سایہ' کہتے ہیں۔ جب انسان دنیا میں آیا تو اکیلا وجود نہیں تھا بلکہ اس کے وجود کا ایک سایہ تھا۔ انسان کو معاشرتی حیوان کہا جاتا ہے، جانتے ہیں کیوں؟ کیونکہ دنیا میں جس قدر جان دار پاۓ جاتے ہیں انسان اس اعتبار سے مختلف ہے کہ یہ اکیلے، تنہا اور بغیر سہارے کے زندگی نہیں گزار سکتا ہے۔ انسان کو تنہائی سے خوف آتا ہے شاید اسی لیے انسان دنیا کے سہارے ڈھونڈنا شروع کر دیتا ہے۔ انسان شاید اس بات سے بے خبر ہو جاتا ہے کہ سایہ اس کے ساتھ ہے۔ انسان اپنے ساۓ کو کبھی محسوس ہی نہیں کرتا۔ جانتے ہیں ہمیں ہی اس بات کا یقین نہیں ہوتا کہ ہمارا سایہ ہمارے ساتھ ہے۔ اسی لیے شاید اندھیرے میں سایہ بھی ہمارا ساتھ چھوڑ دیتا ہے کیونکہ ہم بھی روشنی میں اس کو کوںٔی اہمیت نہیں دیتے۔ ہم سہارے تلاش کرتے رہتے ہیں اور بعض اوقات تو سہارے کے پیچھے بھاگتے بھاگتے خود کو تھکا دیتے ہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمارا سہارا تو اللہ نے بنا کر بھیجا ہے۔ ہمیں خود پہ یقین کرنا چاہیے۔ لوگ مایوس ہو جاتے ہیں، شاید بھول جاتے ہیں کہ اللہ شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ اللہ تب بھی ہماری بات سن لیتا ہے جب ہم خاموش ہوتے ہیں۔ اگر انسان یقین کر لے کہ رب سن رہا ہے تو وہ کسی سہارے کے پیچھے نہ بھاگے۔ انسان کو تنہائی سے بھی ڈر لگتا ہے اور اس نے اپنے ساۓ کو بھی تنہا چھوڑ دیا ہے۔ انسان نے ساۓ کو چھوڑ دیا تو اس کا وجود ہوتے ہوۓ بھی کوںٔی وجود نہیں رہا۔ کبھی کبھی انسان اپنے ہی ساۓ سے ڈر جاتا ہے۔ کیا سایہ انسان کے وجود کا حصہ نہیں؟ ہم کیوں خود کو اتنی اہمیت نہیں دیتے؟ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں بھیجنے سے پہلے اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھا۔ بغیر کہے ہی انسان کی ضرورت کا سامان پیدا کر دیا۔ ایک انسان اس قدر ناشکرا ہے کہ پاس ہوتے ہوۓ بھی وہ چیزوں کو تلاش کرتا رہتا ہے۔ وہ غور نہیں کرتا، محنت نہیں کرتا۔ انسان اکیلا دنیا میں آیا تھا اور اکیلے ہی دنیا سے جاۓ گا۔ ہمیں اپنی صلاحیتوں پہ یقین ہی نہیں ہوتا، ہن خود کو کم زور سمجھتے ہیں۔ جب تک انسان دنیاوی سہاروں کے پیچھے بھاگتا ہے وہ ٹھوکریں کھاتا ہے۔ وہ بار بار گرتا ہے اور بالآخر سنبھل جاتا ہے۔ جب انسان اپنی خواہش کو اللہ کی رضا سے جوڑ لیتا ہے تو خود کو تنہا محسوس کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ جب وہ کامل یقین کر لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے، سن رہا ہے تو وہ مایوس ہونا چھوڑ دیتا ہے۔ وہ خود سے محبت کرنے لگتا ہے۔ آج کل لوگ خود کو خود ہی کم زور کر دیتے ہیں۔ اللہ کی محبت کو چھوڑ کر دنیاوی محبت کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے ہم محبت کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ل، کامیابی کے پیچھے جا رہے ہیں لیکن حقیقت میں دنیا ہمارے بھاگ رہی ہے اور ہم کامیابی سے دور جا رہے ہیں۔ جب ہمارا دل ایک طرف مخلص ہی نہیں ہو گا تو ہم کیسے کچھ حاصل کریں گے؟ جو دل اللہ تعالیٰ کی محبت سے خالی ہے وہ دل کبھی مخلص نہیں ہو سکتا۔ ایسا نہیں ہے کہ اللہ نے محبت ڈالی ہی نہیں یا اللہ کی محبت سے دل مکمل خالی ہو گیا ہے۔ نہیں، ایسا نہیں ہے بلکہ ہم نے دنیا کی محبت کو اتنی اہمیت دے دی کہ اللہ کی محبت ہمارے دل میں ہی دب گںٔی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خود کو دنیاوی سہاروں کے پیچھے نہ لگاںٔیں۔ ہم کیوں کامیابی کے لیے، فقط دنیاوی کامیابی کے لیے خود کو ہلکان کر رہے ہیں۔ ہم نے تو ہر حال میں اللہ کی طرف ہے نا۔۔۔ ہماری یہ زندگی تو اللہ پاک کی امانت ہے نا۔۔۔۔ پھر دنیاوی کامیابی کو رد کیوں نہیں کر دیتے؟ اس دنیا کی طرح ہم اس دنیا کی، آخرت کی فکر کیوں نہیں کرتے؟ جہاں ہم نے ہمیشہ رہنا ہے۔ زندگی تو وہ ہو گی جو ہمیشہ کے لیے ہو گی۔ جہاں کسی سہارے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ جہاں نہ ہم اپنے ساۓ سے ڈریں گے اور نہ دوسروں کے نہ ملنے پہ دکھی ہوں گے۔ ہم نے اسی دنیا کی تیاری کرنی ہے۔ اسی کے لیے اپنے نفس کو قابو میں رکھنا ہے۔ خود کو دنیا کے لیے نہیں آخرت کے لیے وقف کرنا ہے۔ دنیا میں ہم نے صرف کھونا ہے، پانا تو صرف آخرت میں ہے۔ ہم تبھی کچھ پا سکیں گے جب ہم اللہ کی مرضی سے زندگی گزاریں گے۔ جب ہم نے اللہ کے لیے جینا شروع کر دیا تب ہم کامیابی کے پیچھے نہیں کامیابی ہمارے پیچھے بھاگے گی ان شاء اللہ تعالیٰ۔

#جنوری۔2023

******************

Comments