کشمیر۔۔۔
جنتِ نظیر۔۔۔
ہاں میں کشمیر ہوں۔۔
میں وہ جنت ہوں جس کی سر زمیں کی اپنے مکینوں کے لہو سے سیرابی میرے وجود پر ایک قیامت برپا کر دیتی ہے۔ میرے سامنے وحشت و بربریت کی وہ داستانیں رقم ہوتی ہیں کہ میری آنکھیں خون روتی ہیں۔
بوڑھی مائیں، لاچار بزرگ جن کے جوان بیٹے باہر کہیں جائیں اور وہ ان کے انتظار میں آنکھیں دروازوں پر جمائے ہوئے ہوں لیکن جب دروازہ کھلے اور جوان لاشے ان کی دہلیز تک پہنچیں تو اس منظر کی تاب لانا میرے بس سے باہر ہوتا ہے۔
میرا جرم یہ ہے کہ میں کشمیر ہوں۔۔
میں وہ جنت ہوں جہاں روز ظلم و جبر کی زنجیروں میں جکڑے آزادی کے متوالوں کے خون سے ہولی کھیلی جاتی ہے۔ جہاں روز ماؤں سے بیٹے، بہنوں سے بھائی چھینے جاتے ہیں، جہاں روز جنازے اٹھتے ہیں۔
میں کشمیر۔۔۔
کرب و اذیت میں مبتلا ہوں۔ میرا سارا وجود چھلنی ہے۔ میری روح ریزہ ریزہ ہو چکی ہے۔ میری دھرتی کے جوانوں سے آنکھیں چھین لی جاتی ہیں لیکن وہ پھر بھی خواب دیکھتے ہیں۔ شکستہ خواب۔۔۔ جو خوشگوار مستقبل کی تعبیر کی آس لیے ان کو سنبھالے ہوئے ہیں۔
میں وہ کشمیر ہوں جس کی مائیں بہنیں اِسی تعبیر کی آس میں روزانہ گھروں کی کھڑکیوں سے مسلمان فوج کی آمد کی منتظر نظر آتی ہیں کہ کب وہ آئیں اور ظلم کی سیاہ رات ڈھلے لیکن کوئی بھی تو نہیں آتا؟؟
انہیں میں کیسے بتاؤں کہ مائیں اب محمد بن قاسم رحمه اللّٰه، طارق بن زیاد رحمه اللّٰه، صلاح الدین ایوبی رحمه اللّٰه، غازی بابا رحمه اللّٰه جیسے کفر کے طوفانوں سے ٹکرا کر ایمان کی شمشیر سے ظلم کی زنجیروں کو کاٹنے والے مردِ مجاہد پیدا نہیں کرتیں۔
میں وہ وادی ہوں جس کے بے گناہ مکینوں کو پابندِ سلاسل کر کے وحشیانہ تشدد کیا جاتا ہے تو ان کی دل دوز چیخوں سے میرا دل دہل جاتا ہے۔ میری دھرتی کی بے گناہ بچیوں کی عزتوں کو جب تار تار کیا جاتا ہے تو میرا وجود جس کرب اور اذیت سے دوچار ہوتا ہے، اس اذیت کو بیان کرنے کے لیے میرے الفاظ نا کافی ہیں۔ وہ کون سا ظلم ہے جو مجھ پر روا نہیں رکھا گیا۔
میں۔۔
جنتِ نظیر۔۔۔
شکوہ کناں ہوں۔۔
ان بے جوش اہلِ ایماں کی بے حسی پر!
جنہیں جہاد کا حکم دیا گیا۔
دنیا میں جہاں کہیں بھی، جب کبھی بھی مسلمانوں پر ظلم و ستم کا بازار گرم ہو، تب تب تلواریں بے نیام کرنے کا حکم دیا گیا، لیکن افسوس صد افسوس!
مسلمان گفتار کا غازی تو بنا لیکن کردار کا غازی نا بن سکا۔۔
آج کشمیر کا ایک ایک فرد "گفتار کے غازی" سے اس کی مجرمانہ خاموشی پر شکوہ کناں ہے کہ اے بے حسی کے پیکرو!
تم وہی تھے جنہوں نے اندلس کے ساحلوں پر کشتیاں جلائیں۔ جنہوں نے مظلوموں کی پکار پر لبیک کہا۔ جن کے انتظار میں ستم رسیدہ ماؤں، بہنوں کی آنکھیں پتھر نہیں ہوتی تھیں۔ تم نے غیرتِ جہاد کو کہاں سُلا دیا؟ تم نے تن آسانی، بے حیائی کے اسباق کو ازبر کیا، غیرت کے اسباق کیوں فراموش کیے؟ القدس کے منارے صلاح الدین ایوبی رحمه اللّٰه کو پکارتے رہے لیکن تمہارے کان ان پُر درد اذانوں کی سماعت سے کیوں محروم رہے؟
آج کشمیر، فلسطین، شام، ستم رسیدہ مسلمانوں کا ایک ایک فرد احساسِ زیاں سے محروم ہو کر بے حسی کی چادر اوڑھنے والے اہلِ ایماں سے شکوہ کناں ہے...
آخر میں خون آشام بھیڑیوں کے نام جو شاید اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ انہیں عمرِ خضر عطا کر دی گئی ہے لیکن درحقیقت وہ اپنی عاقبت فراموش کیے بیٹھے ہیں۔۔
کیسے حاکم ہو تم
حکمراں ہے وہی
جس کے ہونے سے محکوم بھی خوش رہیں
امن کے گیت گاتے رہیں
مسکراتے رہیں
کہ جس کی دِلوں پر حکومت رہے
اور اس کے عہد میں
چمن کا جو رنگ ہے مہکتا رہے
گل رنگ بہاریں لہو رنگ نا ہوں
زندگانی کی راہیں
ظلم و ستم کے اندھیروں سے بوجھل نا ہوں
اپنے پیارے نگاہوں سے اوجھل نا ہوں
حکمراں وہ نہیں
جو ہو جاۓ فقط
حاکمِ زر، زمیں
حاکمِ دل بنو
حکم دل تو وہ ہے
کہ جو دل کے زخموں
پہ مرہم رکھے
نا کہ وہ جس کے دستِ جفا کیش سے
رستے زخم ناسور بننے لگیں
تم تو حاکم نہیں تم تو فرعون ہو
اک وہ فرعون تھا
عہد میں جس کے بچے جلے، قتل ہوئے
اک ترے عہد میں معصوم بچوں سے
لے کر بڑوں تک
کے ارمانوں کا ہے
جنازہ اٹھا
دل جو گھر ہے خدا کا وہ روندا گیا!
تم وہ جلاد ہو
جس کے عہدِ سفاک میں
جنتوں کو جہنم بنایا گیا
در و دیوار کو
چیتھڑوں سے سجایا گیا
خوں بہایا گیا
تم نے میرے وطن کی فضاؤں کو
بارود کی بو سے بوجھل کیا
میرے پیاروں کو آنکھوں سے اوجھل کیا
بے گناہ زندانوں میں لاۓ گئے
ظلم ڈھاۓ گئے
تم وہ نمرود ہو
خدائی کا جس نے تھا دعوٰی کیا
تم بھی تو کم نہیں
تم بھی تو بے گناہوں کی
خوشیوں کی راہوں میں حائل ہوئے
ان کی سانسوں تلک کے خدا بن گئے
جرم کے خوگرو!
ظلم کرتے تو ہو
یاد رکھو مگر!
ظلم اتنا کرو..
کل قیامت کے دن
جتنا سہہ پاؤ گے!
Comments
Post a Comment