فرقی تعصب
اقراء ندیم
"فاطمہ! تم کیوں گم صُم بیٹھی ہو؟ میں نے دو دن پہلے میسج کیا
تھا لیکن مجال ہے جو تم رپلائی دے دو۔" حمیرا نے کمرے میں آتے ہی فاطمہ کو گھورتے
ہوئے گلے لگایا۔
حمیرا
پڑوس فاطمہ کی ٹیچر، آپی اور بہترین رہنما بھی تھی۔ فاطمہ ہنس مکھ لڑکی تھی لیکن رشتہ
ٹوٹنے کے بعد وہ کافی افسردہ رہتی تھی۔ فاطمہ کا کسی سید خاندان میں رشتہ ہوا تھا لیکن
اس کے ابو اور بھاںٔیوں نے فرقی تعصب کی بناء پر رشتے سے انکار کر دیا۔ اپنے ہی تو
انسان کو مضبوط کرتے ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں فرقی تعصب کا رحجان اس قدر شدید ہے
کہ لوگ اپنے ہی خون کو طعنے دیتے ہیں۔
"فاطمہ! تم کیوں کسی سے بات نہیں کرتی؟ کیوں خود کو اپنی ذات میں
قید کر لیا ہے؟ کیا یہ سب صرف ایک شخص کی وجہ سے ہو رہا ہے؟" حمیرا نے آتے ہی
سوالوں کی بوچھاڑ شروع کر دی۔
"حمیرا آپی! آپ آتے ساتھ شروع ہو گئی۔ میرا دل نہیں کرتا کہ کسی
سے بات کروں۔ یہ کسی شخص کی وجہ سے نہیں ہے۔ میرا مسلہ دین ہے، محبت نہیں۔ میں یہ سمجھنے
سے قاصر ہوں کہ لوگ ہر اداس شخص کو محبت کا بیمار کیوں سمجھتے ہیں؟" فاطمہ نے
شدید عاجز ہو کر آخری جملہ ادا کیا۔
"فاطمہ! یہ بات آپ مجھے ایک ہزار بار کہہ چکی ہیں۔ اب مجھے اصل
وجہ بتاںٔیں۔ کیوں سب سے رابطے ختم کر کے الگ تھلگ بیٹھی ہیں؟ حمیرا نے فکر مندی ظاہر
کرتے ہوۓ
فاطمہ کے ہاتھوں کو تھام کر پوچھا۔
"حمیرا! اب تم ہی اس کو سمجھاؤ۔ یہ لڑکی دن رات میرا دل جلاتی
ہے۔ اس کا چہرہ دیکھو پیلا پڑ گیا، آنکھوں کے نیچے ہلکے پڑ گںٔے ہیں۔ اس نے اپنی کیا
حالت کر ل۔ یہ اولاد مجھے قبر میں اتارنا چاہتی ہے، اس لیے میرے دل پہ موم دلتی ہے۔"
فاطمہ کی امی جوس کا گلاس پکڑے حمیرا کو اپنی بیٹی کی بےحسی بتا رہی تھی۔
"آنٹی! آپ پریشان نہ ہوں۔ میں آج اس کے سارے جن بھوت نکال کر جاؤں
گی۔" حمیرا نے جوس کا گلاس لیتے ہوئے ماحول میں چھاںٔی تشنگی کو کم کرتے ہوئے
کہا۔
امی
جوس کا گلاس دے کر کمرے سے باہر چلی گئی۔ فاطمہ گھر کا سارا کام کر کے بیٹھی تھی۔ فاطمہ
پچھلے دو ماہ سے اپنے اندر بہت تبدیلیاں لاںٔی تھی۔ کچھ تبدیلیاں مثبت تھی اور کچھ
منفی لیکن فاطمہ کو تمام تر تبدیلیاں خود میں مثبت لگتی تھی اور وہ ان پہ مطمئن تھی
لیکن اس کی آنکھوں میں کچھ بےچینی اور بےسکونی تھی۔ جس کے اثرات اس کی ظاہری حالت پہ
رونما ہوتے تھے۔ فاطمہ نے ترجمہ تفسیر پڑھنے کا آغاز کیا اور دین سیکھنے کی خواہش اس
کے وجود میں سرایت کر گئی۔ اس کے نظریات و عقائد بھی بدل گںٔے۔ جس کی بنیاد پر گھر
والوں نے اپنی ہی بیٹی سے فرقی تعصب کی بناء پر بحث و تکرار شروع کر دی اور اسے فرقہ
بدلنے کے طعنے دینے شروع کر دیے۔
"فاطمہ! تم جانتی ہو کہ میں تمھیں اپنی چھوٹی بہنوں کی طرح سمجھتی
ہوں۔ مجھے بتاؤ کیا بات ہے؟" حمیرا نے فاطمہ کی آنکھوں میں تیرتے آنسوؤں کو دیکھ
کر اپناںٔیت ظاہر کی۔
"آپی! آپ جانتی ہیں میں دین کا شوق رکھتی ہوں اور اب میرے عقاںٔد
میں اہل بیت کے متعلق کچھ تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ میں اہل بیت سے محبت میں شدت کو
محسوس کر رہی ہوں اور امام علی علیہ السلام کو اپنا پیشوا مانتی ہوں۔ یہ لوگ مجھے شیعہ
ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ لوگوں نے فرقہ واریت میں بٹ کر آپس میں جنگ
و فساد شروع کر دیا ہے اور یہی حال ہمارے مساجد کے لوگوں کا ہے۔ لوگ مسجد میں جاتے
ہوۓ بھی کہتے ہیں کہ یہ فلاں
فرقے کی مسجد ہے۔" فاطمہ نے دل میں بندی گرہ کھولنے کی کوشش کی اور حمیرا اس پہ
خاصی حیران ہوںٔی۔
"فاطمہ! اہل بیت سے ہم سب محبت کرتے ہیں۔ تمھیں کیا لگتا ہے کہ
حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بس تم محبت کرتی ہو؟ اگر تم شیعہ کو ڈیفاںٔن کر رہی ہو تو
غلطی پہ ہو۔ وہ لوگ حضرت علی کو کچھ زیادہ مانتے ہیں جب کہ اللہ کے بعد رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کا درجہ ہے۔ وہ لوگ تو رسول سے زیادہ حضرت علی کو مانتے ہیں۔"
حمیرا نے کی گرم جوشی کم کرتے ہوئے لوگوں کے نظریات سامنے رکھے لیکن فاطمہ دین میں
خالصیت ڈھونڈنے نکلی تھی۔ اس کے پاس ہر سوال کا جواب موجود تھا۔
"آپی! آپ میری بات کو لوگوں کی طرح نہ سنیں۔ لوگ اس جماعت میں
داخل ہو جاتے ہیں جہاں شور و غل زیادہ ہو پھر چاہے وہ جماعت حق کے خلاف ہی کیوں نہ
ہو۔۔۔۔۔۔ میری بات کو اس کے صحیح معیار پر پرکھ کر سوال کریں۔ میں نہ شیعہ ہوں، نہ
سنی ہوں، میں مسلمان ہوں اور اسلام کو ڈیفاںٔن کر رہی ہوں۔" فاطمہ نے اب کی بار
حمیرا آپی کا ہاتھ تھام کر نرم مزاجی سے اپنی بات کہی۔ لوگ دین میں جذباتی ہو کہ چیخ
و پکار کرتے ہیں اور فاطمہ حمیرا کا ہاتھ تھامے اسے اپناںٔیت کا احساس دلا رہی تھی۔
"فاطمہ! تم اپنی بات کی مزید وضاحت دو۔" حمیرا نے فاطمہ کو
سوالوں میں الجھانے کی کوشش کی۔
"آپی! اہل سنت اور آپ تشیع میں ایک فرق ہے باقی سارا دین ایک سا
ہے۔ اہل سنت خلافت کے قاںٔل ہیں اور اہل تشیع امامت کے قاںٔل ہیں۔ لوگ اختلاف کو توہین
کا نام دے کر ایک دوسرے پہ فتویٰ لگاتے ہیں اور ہماری جوان نسل کے ذہنوں کو ترقی تعصب
میں الجھا رہے ہیں۔ یہ لوگ دین کے نام پر گلی، محلوں اور بازاروں میں اٹھ کر آپس میں
جنگ و فساد کرتے ہیں جب کہ ہمارے علماء اور اہل علم اتحاد و وحدت کو ترجیح دیتے ہیں۔"
وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
فاطمہ
نے خود کو ایک کمرے میں قید کر لیا تھا لیکن وہ دنیا کو دینی لحاظ سے دیکھنے کی قاںٔل
ہو گںٔی تھی۔ فاطمہ کے بہت رشتے آۓ
لیکن عقاںٔد کی ذرا سی تبدیلی نے اسے لوگوں کے سامنے مجرم کر دیا۔ کچھ لوگوں نے فاطمہ
کی باتوں کو سن کر اس پہ سرسری سا غور بھی کیا۔ فاطمہ کا اصل مسلہ فرقہ نہیں تھا۔ وہ
آپس کے ماحول میں دینی نظریات اور دین سے لاشعوری پر بیزار تھی۔ حمیرا اس کو تسلی دے
کر گںٔی کہ وہ اس بارے معلومات حاصل کرے گی۔
"لوگ دین سے لگاؤ کی قسمیں کھاتے ہیں لیکن سیکھنے کا شوق نہیں
رکھتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا اقرار کرتے ہیں لیکن ان کی پیروی
کرنے کو آمادہ نہیں ہوتے، لوگوں کے عمل ان کے قول سے مختلف ہیں۔ ہمارے ماحول میں آج
دین نظر نہیں آتا۔ ہم بس ایک دوسرے کے فرقے پہ نقطہ چینی کرتے ہیں۔ ہماری آج کی نسلیں
دین سے دور ہیں، گھر تباہ ہو رہے، ہمارا ملک پستی کی طرف جا رہا۔۔۔۔ وجہ صرف یہ ہے
کہ ہم نے دین پہ عمل چھوڑ دیا۔ دین کے لیے ہم نعرے تو لگاتے ہیں لیکن عمل کی باری پیچھے
ہو جاتے ہیں۔" فاطمہ سونے کی ناکام کوشش کر رہی تھی اور یہ باتیں اس کے ذہن میں
گھوم رہی تھی۔ فاطمہ خوش مزاج اور ہنس مکھ لڑکی تھی لیکن عقاںٔد کی تبدیلی نے اسے اپنے
ہی گھر میں اجنبی کر دیا۔ سارے اس سے اختلاف کرتے، اس کی راۓ
کو کوںٔی اہمیت نہیں دیتے تھے لیکن فاطمہ مطمئن تھی کہ وہ دیں سیکھنے کی روش میں خود
کو فانی دنیا سے جدا کر کے رب سے تعلق بنا رہی تھی۔ فاطمہ نے دین پہ عمل شروع کیا۔
ڈراموں، گانوں اور سوشل میڈیا سے بیزاریت اب اس کے لہجے میں نظر آتی تھی۔ ہر انسان
کو اتنا دین تو سیکھنا چاہیے کہ اسے علم ہو کہ اس کا اٹھنا بیٹھنا اور اخلاق کیسا ہونا
چاہیے؟ تبدیلیاں زندگی میں اکثر طوفان برپا کرتی ہیں لیکن دین کے نام پہ یہ تبدیلی
فاطمہ کو دنیا سے بیزار کر گںٔی تھی۔
٭٭٭٭٭٭
Comments
Post a Comment