Saya e shajar short story by Madeeha Sanam

شارٹ سٹوری

سایہء شجر

نام: مدیحہ صنم

آج وہ آیا تھا

اسی جگہ پہ،اسی پتہ پہ۔۔جہاں کئی برس پہلے آنے کو اسے  کہا گیا تھا

مگر زمانے کے رسم ورواج اور اس زمانے کی زد نے اس کے  قدم   جیسے تھام رکھے تھے ۔یہ نہیں کہ اس نے کوشش نہیں کی پر یہ کہ اس سے ہمت نہ ہوئی ۔کہ وہ ایک بار اس اذیت سے دوچار ہو جس سے وہ کئی برس پہلے ہو چکا تھا ۔

 

           اسکی تصویر اسی شجر کے تنے کے بیچ سے نکلی جہاں انہوں نے مل کر یہ تصویر رکھی تھی ۔اس تصویر کو تکتے حارث کو محسوس ہوا جیسے کہ وہ کئی برس پرانے ماضی میں جا چکا ہے ۔

           اسے اسکی باتیں ،اپنی قسمیں ،اپنے وعدے یاد آ رہے تھے جنہیں وہ مکمل طور پر نبھا نہ سکا اسے آج بھی کال پہ آخری بار اس کی وہ آخری آواز یاد آ رہی تھی جب وہ اس سے کہہ رہی تھی کہ

           کبھی آنا اس سایہء شجر کے تلے ،گر فرصت ملے کبھی ،تو یاد کر لینا

           ان بیتے لمحوں کو،اس بینچ کو پرکھ لینا،جہاں ہم اداس شاموں میں اکثر بیٹھا کرتے تھے ۔جہاں ہم زمانے کے رسم ورواج کے مخالف باتیں کرتے تھے اور عہد کرتے تھے کہ زمانے سے لڑ کر ہارے گے ۔

 

        کبھی تکنا اگر فرصت ملیں تو اس درخت کو جو بینچ کے بلکل سامنے تھا۔جسے ہم دونوں بچپن سے خود کے ساتھ بڑا ہوتا دیکھتے آئیں ہے اور پھر وقت کی رفتار کو محسوس کرنا۔

        کبھی دیکھنا اسی بینچ والے درخت کے تنے کو جس میں ہماری ایک تصویر پڑی ہوئی ہے ۔اس تصویر کو تکنا اور اس سے باتیں کرنا ۔اس تصویر سے پوچھنا کہ آخر کار کیوں ہم زمانے کی زد میں آ گئے ۔اس تصویر میں موجود اس دوشیزہ سے گفتگو کرنا،اسکی ہنسی دیکھنا جیسے کہ وہ دوشیزہ اپنی قسمت پر روند رہی ہو۔ہو سکے کہ وہ طنزیہ مسکرا رہی ہو یا پھر ہو سکے کہ وہ اپنی محبت کا گلہ گھونٹ کر تمہارے سامنے خوش ہونے کا دکھاوا کر رہی ہو۔

کبھی تکنا اس دریا کے کنارے کو ،جہاں کبھی تم میرا ہاتھ پکڑ کرتے تھے مگر اک پل میں کسی اور کا ہاتھ تھام چکے تھے۔اس اذیت کا اندازہ لگانا مگر صرف اس وقت جب تم کو زمانے سے فرصت ملے۔

 

     حارث انہیں سب خیالوں میں مہو تھا کہ اسکو اندازہ بھی نہ ہوا کی اسکی آنکھوں سے آنسوں نہیں بلکہ خون کے قطرے بہہ رہے ہے ۔وہ حمنہ کی اسی تصویر کے ہنستے ہوئے چہرے کو دیکھ رہا تھا اور وہ محسوس کر پا رہا تھا اس کی بے بس ہنسی کو۔یا شاید وہ اس ہنسی کو اپنی ذات پر طنز سمجھ رہا تھا لیکن اب وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا ۔

 

اب حمنہ نہیں رہی تھی۔وہ بے حد آگے بڑھ چکا تھا لیکن حمنہ اب تک اسکے ذہن میں ویسے ہی مہو تھی جیسے وہ کبھی اسکی زندگی سے دور گئی ہی نہ ہو  ۔

 

آج بھی اپنے ہاتھوں پر وہ حمنہ کا لمس محسوس کر کے راتوں کو روتا رہتا ہے

 

لیکن وقت لوٹ کر نہیں آتا۔

مان اکثر ٹوٹ جایا کرتے ہیں

 زمانہ چھوڑ جایا کرتا ہے اور پچھتانے سے وہ لمحے واپس نہیں آتے۔

اور ہمیں پھر تنہا کسی کی یادوں کے سہارے جینا پڑتا ہے

***********

Comments