Shahadat e Hazrat Imam Hussain (R.A) article by Neha Ali

موضوع:

شہادتِ حضرت امام حسینؓ

مصنفہ: نیہاعلی

 

محرم جو اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ ہے اسے چار مبارک مہینوں میں سمجھاجاتاہے۔ قرآن مجید کہتاہے:’’حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللہ نے آسمان وزمین کو پیدا کیا ہے اللہ کے نوشتے میں بارہ ہی ہے، اور ان میں سے چار مہینے(محرم، ذو القعدہ، ذو الجہ اور رجب) حرام ہیں۔ یہی ٹھیک ضابطہ ہے۔ لہذٰا ان چار مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو ‘‘۔  (التوبہ:  ۳۶)


تاریخ شاہد ہے کہ ماہ محرم کئی واقعات کی وجہ سے عظیم اہمیت کا حامل ہے۔ آدم علیہ السلام کی تخلیق ۱۰؍محرم کو ہوئی او ر وہ اسی روز جنت میں داخل ہوئے۔ اسی روز وہ جنت سے نکالے گئے اور اسی روز ان کی توبہ بھی قبول ہوئی۔ یہ بھی کہاجاتاہے کہ پہلی مرتبہ زمین پر بارش ماہ محرم ہی میںنازل ہوئی۔ پیغمبر نوح علیہ السلام کی کشتی خوفناک طوفان کے بعد اسی مہینہ میں جودی پہاڑ پر اتری۔ دسویں محرم کو ہی نمرود کی آگ پیغمبر ابراہیم علیہ السلام کے لئے پھولوں میں بدل گئی۔ پیغمبر یونس علیہ السلام کو اسی مہینے میں مچھلی کے پیٹ سے نکالاگیا۔ پیغمبر سلیمان علیہ السلام کو اس مہینے کی دس تاریخ کو ہی ایک شاندار تخت عطاکیاگیا۔پیغبر موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے ظلم وبربریت سے اسی مہینے میں نجات ملی۔وہ مبارک ہستی نواسۂ رسول ﷺجگر گوشہ بتول  حضرت حسین رضی اللہ عنہ ہیں۔ جہنوں نے یذید کے خلاف آواز حق بلند کرکے اپنے اور اپنے ساتھیوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ حق و باطل کے معرکے میں سر بلندی حاصل کرکے وہ مقام حاصل کیا۔ کہ جس کی نظیر نہیں ملتی۔


“یہ شہادت گہ الفت میں قدم دکھنا ہے

لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا“

 

واقعہ کربلا کے بارے میں  آپ نے بہت کچھ سنا ہوگا ،میں بھی اپنی بساط کے مطابق کوشش کرو گٸی کہ قافلہ حق کے ان شہیدوں کو خراج عقیدت سعادت پیش کروں۔

 

**

 یہ ماہ رجب سن٦٠ ہجری کی بات ہے کہ حضرت امیر معاویہؓ انتقالفرما گٸے اور پھر خلافت یذید کو پہنچی، سب سے پہلے شامیوں نے یذید سے بیعت کہ یہاں سے فارغ ہونے کے بعد یذید نے ولید بن عقبہ  کو اس پر مامورکردیا کہ وہ اسکے لٸے مدینہ طیبہ والوں سے بیعت لے اس پر اس نے  رات کے وقت حضرت امام حسینؓ اور حضرت عبداللہبن زیبرؓ کو پیغام بھجا کہ دونوں اس کے  پاس تشریف لاٸیں ان سے کہا یذید کی بیعت کر لیں ۔۔

 

**

 

 یذید  کا کردار اچھا نہیں تھا وہ بھت برا انسان تھا جو اسلام کی احکامات کی پرواہ نہیں کرتاتھا۔ دونوں نے کہا ہم خفیہ بیعت نہیں کرتے۔۔ بلکہ اعلانیہ سب کے سامنے بیعت کرتے ہیں اس کے ساتھ ہی دونوں نے یذید کی بیعت سے انکار کردیا ۔ اور اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگٸے ۔ اسی رات دونوں مبارکہ ہستیاں مدینہ منورہ سے مکہ مرمہ کی طرف روانہ ہوگٸے۔ابھی رجب کا مہینہ ختم ہونے میں تقربیاً ایک دن باقی تھا اور یہ اتوار کی رات کو مدینہ منورہ سے نکل کھڑے ہوۓ۔

 

**

 

صورت حال کچھ یوں تھی کہ کوفہ ولے حضرت امیر معاویہؓ کے زمانہ خلافت سے ہی  امام حسینؓ  کو بلا رہیے تھے؟

بےشمارخطوط کوفہ والوں نے آپؓ کو ارسال کیے تھے بلانے کا مقصد یہ تھا کہ کوفہ ولے امام حسینؓ کے دست حق پر بیعت کرنا چاہیے تھے جب کہ امام حسینؓ نے ہمیشہ انکار ہی فرمایااور پھر وہ وقت آیا کہ ب لوگوں نے یذید کی بیعت کرنا شروع کردی توآپؓ نے مصلحت اسی میں سمجھی کہ خاموشی اخیتار کرلی جاٸے مگر کوفہط والوں کا تقا ضہ اور اصرار  بڑھتاہی جارہا تھا ۔ جب ان کا  اصرار شدت اخیتار کرگیا تو آپؓ نے کوفہ جانے کا اردہ کرلیا۔ حضرت عبداللہ بن زیبرؓ نے آپؓ کا  فیصلہ کو اچھا قرار دیا اور مشورہ دیا کہ آپؓ کوفہ کی طرف روانہ ہوجاٸیں۔

 

**

 

حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نےاس بات سے اتفاق نہ کیا اور آپؓ کو اس کام سے روکا ۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت عبداللہ ابن عمرؓ نے امام حسینؓ  سے کہا کہ اللہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کو دنیا وآخرت کے اخیتار کرنےمیں خود مختار  بنایاتھا مگر آپ نے دنیا پر آخرت کو ترجیح دی چونکہ آپ بھی حضور اکرم صلی اللہ عیلہ و سلم کے جگر گوشہ ہیں اس لیے آپ بھی دنیا آخرت کو اخیتار فرما ٸیں۔۔۔۔۔۔

 

امام حسین ؓ کو چونکہ کوفہ والوں نے انداز اور محبت کرتے ہوٸے بلا بھجا تھا کہ امام حسینؓ ان لوگوں کےباربارخطوط ملنے کی وجہ سے آپؓ اپنے آپ کو روک نہ سکے ۔۔۔۔ آپ نے جانے ضروری سمجھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

**

 

یہ١٠ ذی الجہ ٦٠ ہجری کا واقعہ ہے کہ امام حسینؓ عراقیوں کے شدید تقاضوں کے پیش نظر اپنے اہل بیت کے ساتھ جن میں مرد عورتیں اور بچے شامل تھے مکہ مکرمہ سے عراق کی طرف روانہ ہوگٸے ، کوفہ کے نزدیک مقام کربلاپر جب قافلہ پہنچا تو امان حسینؓ نے پڑاٶ ڈالنے کا حکم دیے دیا یہ ٦١ ہجری محرم الحرام کے مہینہ کا آغاز تھا حسب روایت کوفہ والوں نےامام حسینؓ کے ساتھ دغا باری اور بے وفاٸی کی اور آپؓ کا بالکل ساتھ نہ دیا۔۔۔۔

جب آپؓ کی روانگی کی خبر یذید کو ہوٸی تو اس نے اپنے عراق عبد اللہ بن ذیاد لکھا کہ حسینؓ سے مقابلہ کرو اس٤٠٠٠٠ نفری پر مشتمل  کر عمر ابن سعدکی قیادت میں آپؓ کی طرف روانہ کر دیا اہل کوفہ اپنی سابقہ روایت کے مطابق آپؓ کو اسی طرح جیسا کہ انہوں نے حضرت علیؓ اور حضرت حسنؓ کے ساتھ کیا تھا ،  آپؓ کو بے یارومددگار چھوڑ کر چل دیے اس کے بعداس قافلہ حق پر مصاٸب و آرام شدید ہوگٸے۔

یذیدی  لشکر ظلم وستم کی انتہا کردی ۔ جب امام حسینؓ نے دباٶ دیکھا تو عمر بن سعد کے سامنےتین باتیں پیش  کیں اور اول صلح دوم واپسی سوم یذید سے ملاقات  عمر بن سعد  نےان تنیوں میں سے کوٸی بات بھی نہ مانی اور امام حسینؓ اور آپؓ کے ساتھیوں کو تکلیف دینےمیں کوٸی کسر نہ رکھی حتی کہ پینےکےلیےپانی بھی بندکردیا گیا ،  چھوٹے بچوں تک کےلیے پانی سے تڑپتے رہیے مگر ان ظالموں کو زرا بھی خیال نہ کیا آخر کار حسینؓ نےیذید فوج سے ٹکرا نے کا فیصلہ کیا حق کا پرچم بلند رکھنے کی خاطر امام حسینؓ کے ساتھی اور اپنی جانوں کے نزرانے پیش کرتے گٸے۔

 

 

**

 

آخرکار ١٠ محرم الحرم کادن گیا یذیدی فوج  کے ظالم لوگ امام حسینؓ کے ساتھیوں کو شہید کر چکے تھے جب امام حسینؓ یذیدی فوج کی طرف پڑھے اور  بے جگری سے مقابلہ کرتے آپؓ کی شہادت کا وقت قریب آرہا تھا ۔۔۔۔۔ 

روایات میں آتا ہے شمربن ذی جوشن پاسنان بن ابی اوس نخی نے آپؓ  کو شہید کیا اورآپؓ کا سر مبارک تن سے  جدا کرکے خولی بن یذید کو پیش کیا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سنان نے آپؓ کو نیزہ مارا جس کی وجہ سے آپؓ اپنی سواری سے نیچے گر گٸے ، سنان نے خولی سے کہا کہ حسینؓ کا سر تن سے جدا کردو ۔ خولی جب آپؓ کا سر مبارک اتارنے کی نیت سے آگے بڑھ تواس پر قدر ہیبت طاری ہوٸی گبھرا گیا اور ایسا نہ کر سکا ، سنان نے یہ دیکھا تو کہا، اللہ تیرابازو تورنے اور تیرے ہاتھ جسم سےالگ کرے، یہ کہتے ہوٸے وہ خود گھوڑے  سے نیچےاترااور آپؓ کا سر مبارک تن سے جدا کر دیایہ ٦١ ہجری ١٠ محرم اور جمعہ کا دن کا واقعہ ہے ۔

صرف اسی ہی اکتفانہ کیا گیابلکہ  اس کے بعد خولی بن یذید نے امام  حسینؓ کا سر مبارک نیزے پر اٹھا لیا دوسرے یذید یوں نے امام اعلٰی مقام کے ساتھی شہداۓکے سر مبارک اٹھاٸے اورکوفہ میں عبد اللہ بن زیاد کے پاس لاٸے ۔

یہ تمام ٧٢ (بہتر  )سر مبارک تھے۔ جوان لوگوں نے نیزوں پر اٹھے ہوٸے تھے ، ان سروں کے ساتھ امام حسینؓ کے قافلے کی بچ جانے والی  مستورات اور امام زین العابدین ؓ کو قیدی بنا کر عبد اللہ بن زیاد لعین کے پاس لایا گیا جب امام حسینؓ کا سر مبارک ایک طشت میں رکھ کر عبید اللہ زیاد لیعن  کے پاس لایا گیا تو اس لیعن نے سر اطہر کو چھڑی سے مارنا شروع کردیا طبرانی کی روایت ہے کہ اس لیعن نے امام حسینؓ کی دونو ں آنکھوں اور ناک مبارک  چھڑی ماری، حضرت زید بن   ارقم ؓ جو کہ اس  وقت تک بہت ضعیف ہوچکے تھے اس وقت وہاں پر موجود تھے ان سے یہ منظر برداشتنہ ہو سکااور فرمایا ،

“ اپنی چھڑی سر اطہر سے اٹھا لو میں نے اس جگہ حضور سرور کاٸنات صلی اللہ علیہ وسلم کو بوسہ دیتے ہوٸے دیکھا۔۔“

 

**

 

اس جگہ کچھ اور صحابہ کرام ؓ بھی کھڑے تھے،  اور بے بسی سے سب کچھ دیکھ رہیے تھے۔ برداشت نہ کر پار تھے بزار نے حضرت انسؓ سے روایت بیانکی ہےکہ انہوں نے کہا ، میں نے ابن زیاد لعین  سے کہا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس جگہ بوسہ دیتے دیکھ ہے جہاں سے تو چھڑی  سے امام حسینؓ کے سامنے والے دندان مبارک پر مار رہا تھا تو حضرت زید بن ارقم ؒ یہ دیکھ نہ گیا اور کہا ، ان دونوں پیارے پیارے ہونٹوں سے اپنی چھڑی اٹھا لے اللہ کی قسم!  میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو انہیں بوسہ دیتے ہوۓ دیکھا یہ کہہ کر فرط جزبات  سے حضرت زید بن ارقمؓ رو دے، ابن زیاد لعین نے حضرت زیدارقم ؓ سے کہا ، اللہ تھجے رلاۓ اگر تو بوڑھا نہ ہوتا تو میں تیری گردن اڑا دیتا۔

**

 امام حسینؓ شہید ہوگٸے لیکن ظلم کے آگے اپنا سر مبارک نہ جھکایا اسلام کی سر بلندی اور حق و صداقت پر ڈٹے رہنے کی وہ عظیم مثال قاٸم کی شوق شہادت رکھنے والے اسلام کے نام لیواتا قیامت آپؓ کے نقش قدم پر چلتے ہوٸے فلاح کی منزل پاتے رہیں گے :

                   

                          ان شاء اللہ

      

”شہادت حسینؓ اصل میں مرگ یذید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کےبعد“

****************

Comments