"ریاست کیوں بنتی ہے"
دنیا
کے مختلف فلاسفرز نے ریاست کے قیام کے لیے مختلف نظریات پیش کیے ہیں۔ موجودہ زمانے
کی تمام تر سیاسی نظام اور معاشی نظام انہیں کے پروڈکٹس ہیں۔ جو دنیا کے مختلف ممالک
میں رائج ہیں۔ یہ نظریات برے نہیں ہیں اگر انہیں نظریات کے مطابق کوئی ریاست چلتی ہے
تو یقیناً وہ بہترین ریاست ہوگی۔ لیکن جب ان نظریات کے بناء پر وجود میں آنی والی ریاست
کو ہم اپنے من و مرضی سے چلاتے ہیں تو پھر خیالات کا ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے جس سے نہ تو
کوئی ریاست سن مقاصد کو حاصل کر سکتی ہے جن کے لیے اس کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔
بات
ہو رہی تھی ریاست کی اور اس کے قیام اور مقاصد کی۔ ریاست کا قیام انسان کی بہتری کے
سوا کچھ نہیں ۔ اگر ریاست کا وجود موجود ہے تو اس کا مطلب ہے کہ انسان کی بہتری اس
کا خاص مقصد ہے اس لیے کہتے ہیں کہ the end of a state is
the end of good life
اب
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ریاست جو افراد کے
مجموعے سے بنتی ہے لوگوں کے معیار زندگی میں تبدیلی لانے میں ناکام ہو جائے ، ریاست
جس مقصد کے لیے قائم کی گئی تھی اس مقصد کے حصول میں ناکام ہو جائے تو کیا ریاست کا
وجود باقی رکھا جا سکتا ہے یا اس میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ یہاں ایک بات واضح کرنا
چاہوں گا کہ جتنے بھی سیاسی نظام ہیں وہ سب کے لئے ہیں اور ہر ریاست کے لیے ہیں۔ مطلب
یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ایک ریاست کو ہمیشہ ایک ہی نظام کے تحت چلنے دیا جائے ۔ اگر
نظام ناکام ہوتا ہے تو اس کی تبدیلی بھی ضروری بن جاتی ہے کیونکہ ریاست کا اصل مقصد
تو انسان کی زندگی نہیں بلکہ بہترین زندگی ہے۔
اگر کوئی نظام انسان کی بہترین معیار زندگی میں حائل ہوتا ہے تو اس کے خلاف
انقلاب ان تمام افراد کا حق بن جاتا ہے جو اس ریاست میں رہتے ہیں۔ جیسا کہ جان لاک
نے اپنے سوشل کنٹریکٹ میں کہا ہے۔
جمہوری
نظام میں اصلاحات جسکو انقلاب کے مترادف کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جو آسانی سے نافذ کیا جا سکتا بشرطِ یہ کہ جب عوام
کے interest aggregate ایک ہو۔ یہ ایک نافذ العمل
اور ایک آسان طریقہ کار ہے جس سے تبدیلی ممکن ہو سکتی ہے۔
دوسری
طرف اگر ذاتی مفادات الگ الگ ہو اور نظام سب کی سرپرستی کرتا ہو تب نظام کو اصلاحات
نہیں بلکہ ایک سخت قوت کے ساتھ تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ اس تبدیلی میں جو بھی رکاوٹ پیدا
ہو اسے اکھاڑا جاتا ہے۔ اس تبدیلی کو انقلاب کہتے ہیں جو مکمل طور پر پرانے نظام کو
ختم کر دیتا ہے۔
پاکستان
میں موجودہ نظام کو اصلاحات کے زریعے ٹھیک کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے ایک مضبوط
ترین حکومت چاہیے جس کے پیچھے عوام کھڑے ہو۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں عوام کے مفادات
الگ الگ ہیں جس کی وجہ سے نہ تو ایک مضبوط حکومت قائم ہوتی ہے اور نہ اصلاحات ہوتے
ہیں۔
دوسری صورت میں یہ سب عوام کی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ پرسودہ نظام کے خلاف کھڑے ہو۔ جب عوام میں اتفاق پیدا ہوتا ہے تو لیڈرشپ خود بخود آگے آتی ہے۔ جیسے کہتے ہیں کہ جنگیں بادشاہ پیدا کرتی ہے اور اتفاق رہنما۔
(نوید خان)
***************
Comments
Post a Comment