لمحۂ موجود
سوچ کی دنیا کس قدر خطرناک
وقت کی عدالت اور انسان کی بادشاہت
دردناک ماضی اور نا قابل بھروسا مستقبل
بے رحم اور مہربان لمحۂ موجود
ازقلم: رمشہ شہزادی
سوچ
وچار کرنا، غورروفکر کرنا، تدبر کرنا، گمان کرنا، فہم کی دنیا میں قیام کرنا، نفع و
نقصان کی خاطر دماغ لڑانا، بہتر سے بہترین کی طرف سفر کرنا ہر دور میں کسی نہ کسی طرح
اشرف المخلوقات کی کسی حد تک ترجیحات رہی ہیں۔ کہتے ہیں عقل مند کے لیے اشارہ ہی کافی
ہے۔ مگر کچھ لوگوں کی عقل کا پیالہ زیادہ ہی بھر جاتا ہے اور وہ فہم کی دنیا کے باشندے
بن جاتے ہیں اور اندازوں کے جذبات سے سرشار ہو کر کبھی بھی کچھ بھی تخیل کے جہان میں
آباد کر لیتے ہیں۔
آدھا
ادھورا علم بھی خطرناک قرار دیا جاتا ہے۔ مگر زندگی اس وقت خطروں کے میدان میں داخل ہوتی ہے جب ہم کسی کی آدھی کہی ہوئ بات
کا پورا مطلب خود تخلیق کر لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کے رشتے خوش اسلوبی سے نبھانے کی بجاۓ
ہم ماضی کی تلخ یادوں کے سمندر میں ڈوبے رہتے ہیں۔ کسی کا ماضی اس قدر خوبصورت ہوتا
ہے کہ حسین یادیں دل میں تہلکہ مچا دیتی ہیں۔ اور کسی کا ماضی اس قدر مصیبت زدہ ہوتا
ہے کہ محض اسکی ایک جھلک اگر خیالوں میں بھی دکھائ دے تو تکلیف کے سوا کچھ حاصل نا
ہو گا۔
یاد
ماضی عذاب ہے یا رب
چھین
لے مجھ سے حافظہ میرا
کچھ
لوگ مجھ جیسے ہوتے ہیں آلسی کا شکار؛ جنکی سوچوں کے بے لگام گھوڑے کو کبھی چین نہیں
ملتا۔ جنکو ہمیشہ مستقبل کے متعلق فکر مند ہونا اور منصوبہ بندی کرنا اچھا تو کیا ہی
لگے گا؛ مگر یہ سب کرنا انکی مجبوری ہوتی ہے ہر وقت بیچارے دماغ کو تکلیف میں ڈالے
رکھنا اور کچھ نہ کچھ سوچتے رہنا۔ ایسے لوگ اکثر سو کر بھی نیند پوری نہیں کر پاتے
کیونکہ انکا دماغ جاگ رہا ہوتا ہے۔ مسلسل سوچوں کے چؤنگل میں پھنسا ہوا۔ فضول کی فکروں
میں الجھا ہوا۔
(حال کو ماضی کنٹرول کرتا ہے، مستقبل کو حال اور ماضی کو مستقبل)
بہت
سارے لوگ اس حقیقت سے آشناء ہونے کے باوجود بھی لاپرواہی کا جیون جی رہے ہوتے ہیں۔
جسے دیکھ لو دوڑ رہا ہے مستقبل کی فکر میں کوئ بھی لمحۂ موجود کی اہمیت کو نہیں گردان
رہا۔ اچھا کھا پی کر، سارا دن سوشل میڈیا سکرول کر کہ رات ایک بجے تک بالی ووڈ اور
ہالی ووڈ کی دنیا چھان کر، آخر کار سوتے وقت گزرا ہوا ایک ایک لمحہ ماضی کی صورت میں
پچھتاوا بن کر ابھرتا ہے اور آنکھوں کا سکون حرام کرتا ہے۔ پھر بستر پر لیٹے کروٹیں
بدلتے بدلتے نا جانے کب صبح کے پانچ بج جاتے ہیں اور ہم ضمیر پر بوجھ لیے ایک مجرمانہ
نیند لینے کے لیے نیند کی وادیوں میں ڈوب جاتے ہیں۔ پھر اٹھ کر ماضی بے رحم لگتا ہے۔
اپنے ہاتھ خالی لگتے ہیں۔ بعض اوقات تو اپنا وجود بوجھ لگنے لگتا ہے کے آخر کیا ہی
اکھاڑ لیا اتنے ذہین اور صلاحیتوں کے مالک ہو کر؟ یہ دنیا ہمیں ہمارے مقام کے مطابق
جانتی ہی نہیں، انہیں کیا معلوم ہم کیا چیز ہیں اور ہم کیا کچھ کر سکتے ہیں؟ ہمارے
مقابلے کا کوئ نہیں یہ تو بس وقت نے رحم نہیں کیا ، حالات نے اجازت نہیں دی، لوگوں
نے موقع نہیں دیا۔
وقت
کی عدالت ہمیشہ سے موجود ہے۔ انسان کی بادشاہت کو بھی اس عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا
ہے اگر تیاری مکمل نہ ہو، ارداہ پختہ نہ ہو، اعصاب مضبوط نہ ہوں، دلائل کی دنیا کمزور
ہو تو وقت کی عدالت پورے انصاف کے ساتھ فیصلہ سنا دیتی ہے۔ اس عدالت کو ماضی یا مستقبل
سے کوئ غرض نہیں۔ صرف لمحۂ موجود میں کون اپنے تمام تر انتظامات کے ساتھ مکمل بیٹھا
ہے اسی کی بادشاہت قائم ہو گی۔ وقت اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ کس نے مستقبل کی کتنی
تیاری اپنے خیالوں میں کر رکھی ہے۔ وقت کی عدالت خیالات کی نہیں بلکہ اعمال کی حامی
ہے یعنی خیالوں کو عملی جامہ پہنانا۔
اگر
اس ملک میں آپکو نام کمانا ہے تو پہلے آپکو مرنا پڑے گا
(عاطف اسلم)
بات
تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائ کی لہذا اس سوچ سے معاشرے کی آزادی کو یقینی بنانا بہت ضروری
ہے۔ ایسا اس صورت ہی ممکن ہوگا اگر انسان لمحۂ موجود کی قدر کرنا سیکھ جاۓ۔
مرنے والوں کے ساتھ مرا نہیں جاتا انکی یادوں کے سہارے بھی ساری عمر نہیں بیتائ جا
سکتی۔ جو چلا گیا وہ ماضی کا حصہ بن گیا، ہو سکتا ہے جانے والے کو اسکے کام اور مرتبے
کی مناسبت سے وہ مقام اورعزت نہ ملی ہو جسکا وہ مستحق تھا مگر اسکے مرنے کی دیر تھی
کہ وہ لیجنڈ بن گیا ہیرو بن گیا۔ اب ساری زندگی اسکو یاد کر کے آنسو بہانے میں نہیں
گزر سکتی۔ مرنے والے کے ساتھ جو ہوا؛ جسطرح وہ لوگوں کی جانب سے دھتکارہ جاتا رہا اسکا
ازالہ صرف یہ ہے کہ لمحۂ موجود میں میسر لوگوں کی قدر کر لی جاۓ،
انکی زندگیوں میں انہیں ہیرے تسلیم کر لیا جاۓ۔
بس یہ سمجھنا ہو گا کہ:
وقت
کی لاٹھی اور وقت کی بھینس
میری
ماں اور میرے استاتذٔہ اکرام کو لگتا ہے کے میرے اندر بہت سارے فنکار موجود ہیں ، میں
ایک اچھی لکھاری ،داستان گو، اچھی نکھری ہوئ آوازاور اچھے لب و لہجے کی مالک ہوں۔ میرے
پاس کمال کے ابلاغ کی صلاحیتیں ہیں، میں باتوں کو گہرائ میں جا کر پرکھتی ہوں ، میرا
مشاہدہ کمال ہے۔ مگر میں نے کبھی بھی انکی باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا، آج جب
میں اپنی زندگی کے بیس برس گزار چکی ہوں تو یوں لگتا ہے گنے چنے دن مجھے میری زندگی
میں مہلت دے دیے گۓ
ہیں۔ میں نے ماضی میں جو سب سے بڑا جرم کیا وہ تھا وقت کی بربادی اور میں نے رج رج
کر اسے برباد کیا۔ میں اکثر جو کچھ زندگی میں بننا چاہتی تھی خیالوں کی دنیا میں اسی
کردار اور وقت میں گھومتی رہتی۔ یعنی خود کو کبھی ایک انٹرنیشنل بزنس وومین کے روپ
میں دیکھتی، کبھی مائع ناز صحافی کے روپ میں ، کبھی دبنگ پولیس آفیسر کے روپ میں ،
کبھی وفاقی اداروں میں کام کرتا ہوا، کبھی ایک چوٹی کے وکیل کے روپ میں اور کبھی استاد
کے اعلی رتبے پر فائز خود کو دیکھتی۔ مطلب سب کچھ اپنے خیالوں میں کرتی رہتی اور بے
چین و مطمعٔن سی رہتی کہ میں تو سب کر رہی ہوں۔ لیکن بےچینی کے جزبے کا پلڑا ہمیشہ
بھاری رہا۔
مگراب مجھے مستقبل کی فکر ستانے
لگی کہ اب میں کیا کروں گی؟ اگر چھوٹی عمر میں اپنی صلاحیتوں کو استعمال کیا ہوتا تو
آج میں ماہان بن جاتی۔ ابھی مارکیٹ میں بہت مقابلہ ہے۔ مجھے اپنی جگہ بنانے میں کسی
بھی عام میرے ہم عمر شخص سے زیادہ محنت کرنی پڑے گی۔ یہ ساری فکریں میری آنے والی زندگی
کی ہیں۔ لکھنا میرا شوق ہے ہر روز سینکڑوں اشعار میرے دماغ میں ہلچل مچاتے ہیں۔ کئ
کہانیاں میرے قلم کی منتظر رہتی ہیں مگر میں ان کہانیوں کا جال اپنے دماغ میں بنتی
رہتی ہوں اور انہیں قلم بند نہیں کرتی نتیجتاً وہ کہانیاں مجھے بے ذوق لگنے لگتی ہیں۔
گھنٹوں بیٹھ کر ریڈیو کا پروگرام ہوسٹ کرتی ہوں،مشہور شخصیات کے انٹرویوز کرتی ہوں۔
میں نے میرا پہلا ناول اپنی گیارویں جماعت کے آغاز میں لکھنا شروع کیا ؛ میرا جنون
اس قدر شدید تھا کہ مجھے لگتا تھا پاکستان کا پہلا مشہور بکنے والا ناول کہلاۓ
گا،لیکن پھر اپنی سست روی کی وجہ سے وہ ناول میں آج تک مکمل نہ کر پائ، گیارویں جماعت
پاس کرنے کے بعد میں نے اسے کھول کر بھی نہیں دیکھا لیکن وہ ناول ہر وقت میرے خیالات
کا مرکز بنا رہتا ہے۔ ہر شب سونے سے قبل میں اسکے مرکزی کرداروں کے نام زیر لب پکارتی
ہوں اور کہانی میں کچھ نیا شامل کرتی ہوں۔ لمحۂ موجود میں میں ایک یونی ورسٹی کی طالبہ
ہوں اتنا عرصہ اس ناول کی بات تک نہ پوچھی میں نے، ایک روز بجلی بند تھی موبائل کی
بیٹری ختم تھی اور میرے پاس بہت۔۔۔ فالتو وقت تھا مطلب مجھے ایسا لگ رہا تھا' میں نے
ماں جی سے پوچھ کر اس بستے کوتلاش کیا جس میں وہ پانچ رجسٹرڈ موجود تھے جن پر میں نے
ناول لکھا تھا۔ اپنے ہی لکھے ہوۓ
الفاظ کو لمبے عرصے کے بعد پڑھنا بھی ایک الگ ہی احساس تھا،مگر مجھے یقین ہی نہیں ہو
رہا تھا کہ گیارویں جماعت میں لکھا گیا یہ میرا ناول ہے؟ یہ میرے الفاظ ہیں؟ میرے خیالات
ہیں؟
تو
پیارے قارئین!
اس طرح میں اپنے ہنر کی قاتل خود
ہوں۔ اس دن پہلی بار مجھے میرے استاتذٔہ اکرام اور والدہ صاحبہ کی باتیں ٹھیک لگیں
جو وہ میرے بارے میں کہتے تھے۔
مگر
اب مجھے لمحۂ موجود کی اہمیت کا اندازہ ہوا کہ جو کچھ بھی ہے آپکا موجودہ وجود اور
اعمال ہی ہیں۔ بچپن میں پڑھا تھا آج کا کام کل پر مت چھوڑیں۔ سانسوں اور وقت کا کوئ
بھروسہ نہیں۔ کاش بچپن کا یہ سبق یاد رہتا اور میری زندگی کے گزرے ہوۓ
بیس برس اور بھی قابل رشک ہوتے۔ لہٰذا بے وکت اپنا دماغ خرچ کرنے کی بجاۓ
اسے وقت پر صحیح جگہ سرف کیجیے۔ اپنے آج کی قدر کیجیے؛ اپنے لمحۂ موجود کو سنواریے۔
لمحۂ
موجود حسین ہے
لمحۂ
موجود لا زوال ہے
لمحۂ
موجود کی آپ قدر کیجیے ، یہ آپکا مستقبل روشن کر دے گا۔
Comments
Post a Comment