"کیا ہم سیکولر نہیں"
پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ایک بات واضح ہوتی ہے کہ جب سے برصغیر پاک و ہند میں ایک آزاد ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تو ریاست کا یہ مطالبہ دنیا کے باقی ریاستوں سے بلکل الگ تھا۔ اس کی سب سے واضح وجہ مذہب کا ہونا ہے۔ مذہب کے بنیاد پر پاکستان کے قیام کا مطالبہ کیا گیا، مذہب کے بنیاد پر اس کے قیام کے لیے کوششیں کی گئی اور مذہب کے بنیاد پر پاکستان معرض وجود میں آیا۔ عرض یہ کہ پاکستان کے قیام کے مطالبے سے لے کر پاکستان کے قیام تک پاکستان اور مذہب نام ساتھ ساتھ استعمال ہوتا رہا جو ایک مذہبی ریاست کے قیام کا ایک واضح ثبوت ہے۔
1947 سے لیکر آج تک اس مذہبی ریاست جسکو عرف عام میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کہا جاتا ہے کو کہیں بھی مذہبی تعلیمات کے بنیاد پر استوار نہیں کیا گیا۔ ایک اسلامی ریاست کے لیے جن قوانین کی ضرورت ہوتی ہیں۔ ان کو کبھی بھی پاکستان میں نافذ نہیں کرنے دیا گیا جو آئین کی دیر سے سب سے بڑی وجہ بھی بنی۔
عوام کو ایک طرف رکھ کر اگر دیکھا جائے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ریاستی طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کتنا مذہب کے تعلیمات کے زیر اثر رہا ہے۔ ریاستی معاملات میں مذہب کا کتنا دخل ہے یقیناً ریاستی طور پر پاکستان کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں سوائے آئین کے چند آرٹیکلز کے جن سے صرف اور صرف عوام کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔ ظلم و جبر سے لیکر غریب عوام کو لوٹنے تک سب کچھ پاکستان میں جائز ہے۔ جو ایک مذہبی ریاست کے نام پر عوام کو دھوکہ دینے کے سوا کچھ نہیں۔ مذہبی ریاست کے اعلیٰ عہدیداروں کا معیار کرپشن، دھوکہ بازی، جھوٹ اور عوام کو کھوکھلے نعروں سے دھوکہ دینے کے سوا کچھ نہیں۔ ایک مذہب جس کو زندگی کا ضابطہ حیات کہا جاتا ہے ایسے مذہب کے ہوتے ہوئے کس طرح عوام سے بھیڑ بکریوں جیسا سلوک کیا جا سکتا ہے۔ کس طرح اس ریاست کے حکمران مذہبی تعلیمات سے لاتعلق ہو سکتے ہیں۔ کس طرح حکمران اور عوام کے درمیان فاصلے ہو سکتے ہیں۔ کس طرح اس ریاست کے حکمران عوام کے مسائل سے ناواقف ہوسکتے ہیں۔ ایک مذہبی ریاست جو حقیقت میں عوام کی حقیقی نمائندوں پر تشکیل پاتی ہے۔ جہاں حکمران اور عوام کے درمیان اتنا فاصلہ نہیں ہوتا کہ حکمران حکومت کے مزے لیتے رہے اور عوام بھوک سے خودکشیاں کرتے رہے۔
ایسے ریاست کو مذہبی ریاست کہنا مذہب کے توہین کے سوا کچھ نہیں۔ دوسری طرف اگر مذہبی جماعتوں کے کردار کو دیکھا جائے تو تمام مذہبی جماعتوں کا مذہب سے کوئی سروکار نہیں۔ ایک مذہبی جماعت جس کو پاکستان کی سب سے بڑی مذہبی جماعت مانا جاتا ہے۔ اسی مذہبی جماعت ہی کی زیر سرپرست حکومت میں سود 21 فیصد سے تجاوز کر چکا ہے۔ جو کھلا کھلم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کا اعلان ہے۔ آج پاکستان میں مذہبی جماعتیں اسلام کو ذاتی مفادات کے حصول کے لیے ایک مضبوط وسیلہ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ آج اگر یہ مذہبی جماعتیں حکومت میں نہ ہوتی تو سود کے اس تناسب کے خلاف ہر جگہ احتجاج ہوتا لیکن جب یہی مذہبی جماعتیں حکومت میں آجاتی ہیں تو ان کے سرپرستی میں غیر اسلامی اور غیر اخلاقی کام ہوتے ہیں جن کی روک تھام تو کیا ان کے خلاف کوئی بات کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ ایسے ریاست میں رہتے ہوئے ہم کیسے کہ سکتے ہیں کہ ہم مذہبی ہیں جب ہمارا ریاستی طور پر مذہب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ ہمیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بارے میں سوچنا ہوگا ورنہ ہمیشہ مذہبی ریاست کے نام سے دھوکہ دیا جاتا رہے گا اور مفاد پرستی کا یہ کھیل جاری رہے گا۔
(نوید خان)
Comments
Post a Comment