"انسانی زندگی پر فطرت کے اثرات"
زندگی فطرت سے موافقت رکھتی ہے۔ زندگی جتنی فطرت کے نزدیک ہوگی اتنا ہی انسان کو سکون زیادہ اور مشکلات کم دیکھنے کو ملے گے ۔ دنیا میں ہر انسان کا اپنا ایک حصہ ہے جس سے انسان کو کوئی محروم نہیں رکھ سکتا ہے یہ قانون فطرت کا بنایا ہوا قانون ہے جو سوشلزم کا ایک اصول بھی ہے۔ جسے بعد میں کرل مارکس نے اپنے فلسفے کا حصہ بھی بنایا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ فلاسفر ہمیشہ حالات نہیں بلکہ فطرت کے اعتبار نظریات پیش کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دنیا کے لوگ ان نظریات سے متاثر ہوتے ہیں۔ بات ہو رہی تھی انسان کی اور انسانی زندگی کی۔ چونکہ انسان ہمیشہ سے دو طریقوں سے اثر لیتا رہا ہے۔ ایک اپنے عقل کے بنیاد پر جو فطرت سے موافقت رکھتے ہیں اور دوسرا مشاہدات سے۔ یہ دونوں طریقے انسان کی زندگی ، سوچ، خیالات اور جذبات کو اثرانداز کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے انسانی زندگی میں تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسانی زندگی کو رائج شدہ حالات زیادہ متاثر کرتے ہیں یا انسان کے وہ خیالات جو فطرت سے موافقت رکھتے ہو۔
انسان کو ہمیشہ رائج شدہ حالات نے دھوکہ دیا، انسان ہمیشہ حالات کے مطابق زندگی تبدیل کرنے کی خواہش کرتا رہا ہے۔ جو کبھی کبھی فطرت سے بلکل بھی موافقت نہ رکھتے۔ مثلاً ایک انسان کی قابلیت اتنی نہیں کہ وہ ایک اعلی معیار کی زندگی بسر کرے۔ لیکن حالات سے مجبور یہی آدمی جب معاشرے میں دوسرے افراد کو دیکھتا ہے تو انہیں مشاہدات کی وجہ سے انسان خودپسندی، انا، اور حیوانیت جیسے خیالات سے اثرانداز ہوتا ہے۔ یہی خیالات بعد میں عملی طور پر معاشرے میں دیکھنے کو بھی ملتے ہیں جس سے انسان دوسرے انسان کا خون، معاشرے میں بدامنی اور اس جیسے دیگر برائیوں میں ملوث ہو جاتا ہے جو فطرت کے مطابق بسر ہونے والی زندگی کو برباد کر دیتی ہے۔
دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو انسان فطری زندگی میں ہمیشہ سکون سے رہا ہے، جب انسان کا عقل انسان کی رہنمائی کرتاہے تب انسان معاشرے میں اپنے ملے ہوئے حصے پر اکتفاء کرتا ہے۔ جس سے معاشرتی زندگی میں بہتری تمام انسانوں کی بہتری تصور کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالات سے اثرانداز لوگ زندگی کی خوشیوں کو اس طرح نہیں انجوائے کر سکتے جس طرح فطرت سے اثرانداز لوگ زندگیوں سے مزہ لیتے ہیں۔ انسان اگر خوش رہنا چاہتا ہے تو حالات سے نکل کر فطرت کی طرف انا ہوگا۔ ورنہ مادہ پسندی کا رجحان کسی صورت کم نہیں ہوگا۔ بلکہ انسانی زندگی کے مشکلات میں اور بھی اضافہ ہوگا جو معاشرے کی تباہی کے سوا کچھ نہیں۔
(نوید خان)
Comments
Post a Comment