"دنیاوی معاشی نظام اور اسلامی معاشی نظام "
انسان ازل سے ایک ساتھ رہنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ انسان کی ہمیشہ سے کوشش رہی کہ دوسرے انسانوں سے connected رہے۔ تاکہ انسان اپنی بنیادی ضروریات آسانی سے حاصل کر سکے۔ لیکن جب ضروریات سے بڑھ کر انسان کی آمدن میں اضافہ ہوتا ہے تب معاشرے میں کلاس وجود میں آتے ہیں۔ کچھ لوگ بنیادی ضروریات پورے کرنے کے لیے تگ ودو کرتے ہیں اور کچھ لوگ ضروریات سے بڑھ کر سہولیات کی فراہمی کے لیے کوشش کرتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہوتا ہے جس سے معاشرتی تقسیم وجود میں آتی ہے۔ اسی تقسیم کو کم کرنے کے لیے وسائل پر انحصار کیا جاتا ہے۔ جو حقیقت میں بعض لوگوں کی ضروریات اور بعض لوگوں کی سہولیات حاصل کرنے کا بنیادی ذریعہ ہوتا ہے۔ بعض مفکر (سوشلسٹ) کا خیال ہے کہ مساوات اور برابری کے لیے اگر وسائل انفرادیت کے بجائے اجتماعیت میں تبدیل کر دیا جائے تو معاشرے میں معاشی توازن قائم ہو سکتا ہے جبکہ (کیپیٹلسٹ) کا خیال ہے کہ اگر وسائل کو اجتماعیت کے بجائے انفرادیت کے لحاظ سے تقسیم کر دیا جائے جہاں ہر انسان کو حق حاصل ہو کہ جتنا اور جہاں سے چاہے وسائل حاصل کر سکتا ہے۔ وہاں ہر انسان محنت کے بنیاد پر زیادہ سے سے زیادہ کام کرے گا اور سب لوگ اپنے اپنے حصے ضروریات و سہولیات حاصل کرینگے۔ بظاہر تو یہ دونوں نظام ناکام ہوگئے ہیں۔ نہ تو اجتماعیت سے معاشرے میں توازن قائم کیا گیا اور نہ انفرادیت سے لوگوں کے معاشی حیثیت میں یکسانیت پائی گئی۔
اسلام جو اللہ کی طرف سے انسان کے فطرت کے موافق دین ہے نے ایک الگ معاشی نظام کا تصور دیا ہے۔ اسلامی معاشی نظام جو دو مختلف بلکہ ایک دوسرے پر منحصر نظام کے اصولوں پر مبنی ہے۔ اسلام جو فطری طور پر مکمل سوشلزم کی تائید بھی کرتا ہے۔ جیسا کہ کسی بھی انسان کا کچھ نہیں ہے جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (ترجمہ) "سب کچھ اللہ ہی کے لیے جو زمینوں میں ہے اور جو آسمانوں میں ہے " اسی آیت کے تناظر میں انسان کا اپنا وجود انسان کے اختیار میں نہیں تو ایک انسان کس طرح دوسرے اشیاء پر انفرادی طور پر اپنا تسلط قائم کر سکتا ہے؟؟؟ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام فطری طور پر سوشلسٹ کا اصول بھی اپناتا ہے۔ دوسری طرف آزاد کیپٹلزم کی سختی سے ممانعت بھی کرتا ہے لیکن کنٹرولڈ کیپیٹلزم کا اصول بھی اپناتا ہے۔ جیسا کہ ہر انسان کو کمانے کی اجازت دی گئی۔ اپنے مال یعنی (surplus value) سے ہر انسان اپنی آمدن میں اضافہ بھی کر سکتا ہے۔ اب جتنا ایک انسان کی آمدن میں اضافہ ہوتا ہے اتنا ہی معاشرے میں دوسرے انسانوں کو زیادہ سے زکوٰۃ ادا کی جاتی ہے جو have سے مال لیکر have not میں تقسیم کر دیتا ہے۔ جس سے معاشرے میں نظام عدل قائم ہوتا ہے۔ غریب غریب تر نہیں بلکہ بہتر سے بہتر ہوتا جاتا ہے۔ جس سے سارے معاشرے پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں جہاں ہر انسان کو اللہ کی تقسیم سے استحصال کے بجائے فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ جو معاشرتی زندگی کے ساتھ ساتھ عبادات کے لیے بھی آسانیاں پیدا کرتا ہے۔
(نوید خان)
Comments
Post a Comment