Mohabbat ka dawa kahen rad na ho jaye by Dr Babar Javed,

محبت کا دعوی کہیں رد نہ ہو جاے🙏

کالم نگار۔ ڈاکٹر بابر جاوید


ایک اور بارہ ربیع الاول آیا اور گزر گیا۔

اس بار بھی ہم نے چراغاں کیا۔ جلوس نکالے۔ جلسے کیے۔ حکومت نے یہ دن منایا اور رعایا نے بھی۔ ہاں، یہ کوشش بھی کی گئی کہ ہماری زندگیوں پر اس دن کا کوئی اثر نہ پڑے، ہم نے اپنے کسی رویّے کو تبدیل نہیں کرنا، فرد ہے یا خاندان یا معاشرہ یا حکومت، کسی نے بھی اپنے آپ کو اس راستے پر نہیں چلانا جس کی ہمیں تلقین کی گئی ہے۔ امریکہ میں کچھ تنظیموں نے دنیا بھر کے ملکوں کو قرآن پاک اور رسول اکرمﷺ کی ہدایات کی کسوٹی پر پرکھا اور اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ آئرلینڈ، نیوزی لینڈ اور کچھ اور مغربی ملک، اس ضمن میں مسلمان ملکوں سے کہیں آگے ہیں! انفرادی سطح پر نہیں بلکہ سسٹم کے لحاظ سے! انفرادی طور پر بھی ہماری اخلاقیات ان ملکوں کے باشندوں کے مقابلے میں بہت پیچھے ہیں۔ درست کہ شراب عام ہے اور جنسی حوالے سے اُن معاشروں میں افراتفری ہے۔

ہمارے ہاں بھی بہت کچھ ہوتا ہے مگر چھپ کر۔ ہم شراب نوشی کو اور جنسی آزادی کو غلط سمجھتے ہیں اور غلط سمجھنا چاہیے تاہم ہمارا اسلام یہاں پر آکر ختم ہو جاتا ہے۔ اس سے آگے ہم اُسے نہیں بڑھنے دیتے۔ کہیں پہلے بھی عرض کیا ہے کہ صبح کی نماز میں اسلام ہمارے ساتھ ہوتا ہے۔ نماز سے فارغ ہو کر ہم مسجد سے باہر نکل رہے ہوتے ہیں تو اسلام ہمارے ساتھ مسجد سے باہر آنا چاہتا ہے مگر ہم پورے احترام کے ساتھ اسے باہر آنے سے منع کر دیتے ہیں۔ ہم اسلام سے دست بستہ گزارش کرتے ہیں کہ حضور! آپ باہر دنیا کے دھندوں میں کیا الجھیں گے! یہیں مسجد میں بیٹھیے۔ ہم ظہر کے وقت دوبارہ ملیں گے۔ یوں اسلام کو مسجد میں چھوڑ کر ہم اپنے اپنے کارخانوں، دفتروں، کھیتوں، بازاروں اور کام کی جگہوں کو روانہ ہوتے ہیں۔ جو کچھ بھی وہاں کرتے ہیں اس میں اسلام کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ ظہر کی نماز پر مسجد لوٹتے ہیں تو اس سے پھر بغلگیر ہوتے ہیں۔

 

چراغاں کرنا، تعطیل منانا، ربیع الاول کے حوالے سے پروگرام کرنا آسان ہے مگر زندگی کو اسوہ حسنہ کے مطابق ڈھالنا مشکل ہے۔ جھوٹ ہماری ہڈیوں کے اندر گودے تک سرایت کر چکا ہے۔ گاہک ہے یا دکاندار، استاد ہے یا شاگرد، بیوی ہے یا میاں، والدین ہیں یا بچے، ماتحت ہیں یا افسر، اہل سیاست ہیں یا دوسرے شعبوں کے ماہرین، ہر شخص ہر جگہ جھوٹ بولتا ہے۔ اور ظلم کی انتہا یہ ہے کہ اسے برا بھی نہیں سمجھتا۔ صلہ رحمی مفقود ہے۔ غریب رشتے داروں کے حقوق ادا نہیں کیے جاتے۔ قرابت داری کا انحصار زیادہ تر دولت اور سٹیٹس پر ہے۔ بہت کم خانوادے ہیں جو ملازموں کے ساتھ وہی سلوک رکھتے ہیں جو افرادِ خانہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ پڑوسیوں کے حقوق سے غفلت عام ہے۔

احادیث میں جو پیش گوئی کی گئی تھی کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ دوستوں اور بیویوں کو والدین پر ترجیح دی جائے گی۔ اگر یادداشت درست کام کررہی ہے تو یہ قربِ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ ادھر ادھر نظر دوڑائیے ایسی کئی مثالیں مل جائیں گی۔ حرمت رسولﷺ پر جان قربان ہے مگر سنت رسولﷺ پر عمل کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ بیٹیوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا ہے صرف اسی کو دیکھ لیجیے۔ وراثت میں ان کا حصہ ہڑپ کر لیا جاتا ہے۔ بیٹی کی ولادت پر تھری پیس سوٹ والا اور جبہ و دستار والا، دونوں کا چہرہ سیاہ پڑتا ہے۔ مائنڈسیٹ ملاحظہ فرمائیے کہ بیٹی لائق ہو اور والدین کی دیکھ بھال کرے تو کہا جاتا ہے یہ بیٹی نہیں بیٹا ہے۔ واہ! کیا طرز فکر ہے! عمومی اخلاق پر غور کیجیے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم متبسم رہتے تھے۔ نرم گفتار تھے۔ آواز نہ پست رکھتے تھے نہ بہت بلند۔ صلہ رحمی فرماتے تھے۔ بچوں پر شفقت کرتے تھے۔ آپﷺ نے کبھی کسی کو طعنہ نہیں دیا۔ کبھی کسی کی غیبت نہیں کی۔ کبھی کسی زیادتی کا بدلہ نہیں لیا۔ بڑے سے بڑے دشمن کو معاف فرما دیا۔ ہم لوگ کس قدر کھردرے ہیں۔ مسکرا کر کم ہی جواب دیتے ہیں۔ شکریہ ادا کرنے میں کنجوس ہیں۔ اپنا کیا ہوا احسان یاد رکھتے ہیں اور جتاتے ہیں۔ دوسروں کے احسانات بھول جاتے ہیں۔ بدلہ لیے بغیر نیند نہیں آتی۔ اپنے قصور کی معافی مانگنے میں انا حائل ہو جاتی ہے۔ دوسرا معافی مانگے تو اکڑ بڑھ جاتی ہے حالانکہ اب میڈیکل سائنس یہ ثابت کر چکی ہے کہ منتقم مزاج افراد کو دل کی بیماریاں دوسروں کی نسبت زیادہ لاحق ہوتی ہیں۔

 

وجہ ظاہر ہے۔ بدلہ لینے کے لیے ان کے بغض بھرے دل ہر وقت مضطرب رہتے ہیں اور دماغ کھولتے رہتے ہیں۔ عفوودرگزر کرنے والوں کی زندگیاں نسبتاً طویل ہوتی ہیں۔ اس حوالے سے مختلف یونیورسٹیوں کی تحقیقی رپورٹیں انٹرنیٹ پر موجود ہیں! ڈھونڈ کر پڑھ لیجیے۔ معاف کرنے میں زیادہ فائدہ معاف کرنے والے کا اپنا ہے۔ پھر، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اصحاب کی موجودگی میں آقائے دو جہاں ﷺ نے کھانا اکیلے ہی تناول فرما لیا ہو۔ کئی فاقوں کے بعد بھی کچھ میسر آتا تھا تو سب کے ساتھ مل کر کھاتے تھے۔ اہل بیت کی زندگیوں پر نظر دوڑائیے۔ یہ مقدس ہستیاں جودوسخا، بخشش، اور مہمان نوازی کی پیکر تھیں۔ ہمارے حکمران تو کھانا تنہا کھانا ہی پسند کرتے ہیں۔ ہم جو رعایا ہیں، تو ہم نے بھی پھر انہی کی تقلید کرنی ہے۔

دینی معلومات کی ذمہ داری ساری کی ساری مولوی صاحب پر چھوڑ دی گئی ہے۔ اب اردو میں دینی لٹریچر وسیع پیمانے پر موجود ہے مگر خال خال ایسے گھرانے ہیں جو اس ضمن میں خود کفیل ہیں۔ کوئی بھی مسئلہ ہو، مولوی صاحب کو ڈھونڈا جاتا ہے۔ بچوں کو ناظرہ قرآن پاک پڑھایا جاتا ہے مگر کسی کو ہوش نہیں کہ ترجمہ بھی پڑھایا جائے۔ یہ واحد کتاب ہے جسے ذوق و شوق سے پڑھنے والوں کو اس کے معنی اور مفہوم کی کوئی فکر نہیں۔ اس حقیقت پر جتنا ماتم کیا جائے اتنا ہی کم ہے کہ پانچ وقت نماز پڑھتے عمر بیت جاتی ہے مگر نماز کے کلمات کا مطلب نہیں معلوم! مولوی صاحب دعا مانگتے ہیں۔ آمین کہنے والوں کو معلوم ہی نہیں کہ مانگا کیا ہے۔

دین کا ایک خول ہے جو ہم نے اپنے اوپر چڑھایا ہوا ہے۔ نماز، روزہ، حج۔ یہ سب صرف باہر ہے۔ اندر، ہماری عملی زندگی ہے جس کی دنیا ہی مختلف ہے۔ عملی زندگی پر دین کا سایہ بھی نہیں پڑنے دیا جاتا۔ صرف ایک مثال لے لیجیے۔ ہمارے ہاں معذوروں کو حقارت آمیز ناموں سے بلایا یا یاد کیا جاتا ہے۔ کلام پاک میں اس سے منع کیا گیا ہے، مگر یہ بات کتنے لوگوں کو معلوم ہے؟ حالانکہ اس آیۂ کریمہ کو کتنی بار پڑھا اور کتنی بار سنا ہو گا! ہر سنی سنائی بات کو آگے پھیلانے سے منع فرمایا گیا۔ یہاں رات دن منقول کہہ کر ہر رطب و یابس کو فارورڈ کیا جا رہا ہے۔ غلط روایات، افواہوں اور اتائی نسخوں کا ایک انبار ہے جو رات دن پھیلایا جا رہا ہے۔

 

ولادت پاک کی خوشی منانا ہمارا حق ہے۔ گنہگار سے گنہگار مسلمان کا دل بھی محبت رسولﷺ سے چھلک رہا ہے۔ ساتھ ساتھ ہمیں یہ فکر بھی ہونی چاہیے کہ کل جب رسالت مآبﷺ کا سامنا ہو گا تو کہیں محبت کا دعویٰ رد نہ ہو جائے۔

زرا غور فرمائیں۔

**************

Comments