قلم خون اور وطن
سدر ہ منظور حسین
( سیالکوٹ)
قلم,
خون اور وطن ان تین لفظوں کے درمیان جسم روح اور سانس کا رشتہ ہے اگر ہم قلم کی بات
کریں اور وہاں الفاظ اور خیال کا ذکر نہ ہو تو ناانصافی ہوگی ۔ خیال بغیر الفاظ کے
گونگے کے حسین خواب کی مانند ہے۔ اور الفاظ بغیر خیال کے کاغذ پر آڑی تڑ چھی لائنیں یا پھر ڈکشنری ۔اگر الفاظ اور خیال
باہم مل جائیں تو دو دھاری تلوار ،مرہم، بیداری، جوش و جذبہ ،حرکت، کرشمہ، عجائبات
دوہرا
اور
یہ سب کرشمات کا ایک ہی نام ہے
“قلم“
یہ
سارے کرشمات تب ہی وقوع پذیر ہوتے ہیں جب قلم سے لکھے گئے الفاظ اپاہج نہ ہوں۔الفاظ
خون میں حرکت پیدا کردیتے ہیں ۔غلامی آزادی میں بدل جاتی ہے قلم کی طاقت قدم قدم پر
عیاں ہے قوموں کو غفلت سے بیدار کرنے کے لئے قلم کا تازیانہ ہی کافی ہے قومی و ملی شعراء کا کمال الفاظ کے دم سے ہی ہے
قلم (الفاظ) امید کے چراغ روشن کرتا ہے اور یہ چراغ ایک نہج کی طرف مائل کرتے ہیں قلم
سے ادا کیے گئے الفاظ انسان کے اندر تحریک پیدا کرتے ہیں لکھنے والا قلم کی طاقت سے
اگر بخوبی آگاہ ہو جائے معنی و مہفوم بدل
سکتا ہے ایک وقت تھا جب مغربی سیاسی اور تہذیبی یلغار نے جملہ انسانی اور فکری قدریں
بدل کر رکھ دی تھیں اور اس تبدیل شدہ فضا میں مسلمان قوم نے اپنا ایک دوسرا ہی کعبہ
بنا لیا تھا یعنی اسلامی نظریات کو چھوڑ کر
یورپ کے ملحدانہ نظریات کو اپنا لیا تھا مسلمان
قوم کعبہ کی بجائے بتوں یعنی غیر اسلامی نظریات کا طواف کر رہی تھی اور پھر اس وقت
اقبال جیسے مجاہد نے اپنے قلم کی طاقت سے زمانے کی کتاب کے صفحہ سے مسلمانوں کے لیے
غلامی اور محکومی کے الفاظ کو مٹا کر آزادی جیسے الفاظ کو لکھ ڈالا
اور
انہیں لفظوں نے مسلمانوں کے اندر جذبہ حریت پیدا کیا اور اسی جذبے کے تحت برصغیر کے
مسلمانوں نے اپنی جان ومال تک کا نذرانہ پیش کیا خون سے آزادی کا پروانہ لکھا تقسیم
ہند کے وقت دنیا میں ہجرت کا سب سے بڑا واقعہ رونما ہوا سینکڑوں لوگوں نے اپنا سب کچھ
چھوڑ چھاڑ کے سرحد کی دوسری طرف رخ کیا اس ہجرت کے دوران جو خون ریزی ہوئی اس کی مثال
دنیا میں کم ہی ملتی ہے ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ 20 لاکھ لوگوں نے ہجرت کی جس
میں سے 65 لاکھ سے زائد مسلمانوں نے انڈیا سے پاکستان کی طرف رخ کیا جبکہ 55 لاکھ ہندو
اور سکھوں نے پاکستان سے ہندوستان کی طرف ہجرت کی اس دوران جو ظلم اور بربریت کی مثالیں
قائم ہوئی سننے والوں کے دل دہلا دیتی ہیں
اس ہجرت کے دوران ایسے واقعات بھی پیش آئے جن میں خواتین کی بے حرمتی کی گئی جالندھر
کے مقام پر سکھوں نے مسلمان عورتوں کی اس قدر بے حرمتی کی کہ دل خون کے آنسو روتا ہے
بے حرمتی کے بعد ان کو قتل کر دیا جاتا وہ بیٹیاں جن کو کبھی آسمان کے سورج نے بھی
بے پردہ نہیں دیکھا تھا ان کی آبرو ریزی کی گئی ان کی برہنہ جلوس نکالے گئے ہمارے بچوں
کو نیزوں کی نوک پر اچھال کر کہا جاتا یہ دیکھو پاکستان کا جھنڈا بن گیا ہے شیر خوار
بچوں کو نہایت سفاکی سے قتل کر دیا جاتا قتل کیے جانے والوں کو قبر تک میسر نہیں ہوئی
اور کتنے ہی مسلمانوں کو شہید کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ ہم تم کو لنگڑا لولا پاکستان
دیں گےلاہور سے لے کر امرتسر کی 35 کلومیٹر لمبی سڑک پر جگہ جگہ مسلمانوں کی لاشیں
پڑی ہوئی تھیں قتل کیے جانے والوں کو قبر تک میسر نہیں ہوئی ان لاشوں کو گد ھ نوچ رہے
تھے کتے بمبور رہے تھےاور جو بچ جاتے وہ بدبودار کیمپسوں میں زندگی گزارنے پر مجبور
ہوگئے کھانا صرف اتنا ہی میسر آتا کہ جسم اور روح کا رشتہ قائم رہ سکتا جب حکومت کی
طرف سے فوجی نگرانی میں مہاجرین کے لئے ٹرین سروس بحال کی گئیں تو ریل گاڑیاں مہاجرین
سے بھر گی اس آزادی کے دوران کئی گمنام ہیرو نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے
ہمیں
ان ساری قربانیوں کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے یہ ایسی باتیں نہیں جن کو بھلا دیا جائے
قیام پاکستان کوئی کھیل نہیں تھا اس کا ایک مقصد تھاہمیں وہ مقصد یاد رکھنا ہوگا ہمیں
وطن کی خاطرجان قربان کرنے والے ان نوجوانوں کو
یاد رکھنا ہوگاجو بوڑھے والدین کا سہارا اور بہنوں کے محافظ تھے ہمیں ان شیر
خوار بچوں کو یاد رکھنا ہو گا جن کا کوئی قصور نہیں تھا ہمیں ان بیٹیوں کو یاد رکھنا
ہو گا جن کے لیے عزتیں زندگی سے زیادہ اہم
تھی ہمیں ان مہاجروں کو یاد رکھنا
ہوگا جنہوں نے وطن کی خاطر نا صرف اپنا گھر بار اور جائیدادیں چھوڑی بلکہ ہجرت کے وقت
اپنے پیاروں کی لاشوں کو سپرد خاک کرنے کے لیے اپنے کاندھوں پر اٹھا لائے تھے اور آخر
میں اپنے وطن عزیز کی حرمت کو یاد رکھنا ہوگا جس کو حاصل کرنے کی خاطر اقبال نے قلم
کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں میں جذبہ توحید قائم کیا اور اسی جذبے کے تحت مسلمان تلواروں
کے سائے میں پرورش پا کر جوان ہوئے اور دشمنوں کی مخالفت کے باوجود اپنے زور بازو اور
خدا کی نصرت سے ہی قلم اور لفظوں کے ذریعے پیدا کیے گئے اس جذبے کے تحت بام عروج تک
پہنچے ایسی قوم جو کمزور اور بے سروسامان ہونے کے باوجود ہر قسم کی مخالفت کا مقابلہ
کرکے دنیا میں سرفراز ھوئی یہ ایسا وطن ہے
جس کو مٹانا آسان نہیں کیونکہ تاریخ پاکستان ہمیں یاد دہانی کراتی ہے کہ وطن کی خاطر
اگر گردن بھی کٹانی پر کٹا دینی چاہیے اقبال نے ترانے جس قافلے کے مسافروں کو تحفے
کے طور پر دیے تھے وہ قافلہ منزل کی طرف چل
پڑا اور یہ قافلہ اب منزل مقصود کی طرف رواں دواں ہے
************
Comments
Post a Comment