Kya hum azad hain by Soha Ramzan

السلام و علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

موضوع : کیا ہم آزاد ہیں؟

تحریر : سوہا رمضان

آج میرے سامنے ایک ایسا موضوع پیش کیا گیا ہے جس پہ جتنی بات کی جاۓ اُتنی کم ہوگی.......

مگر چونکہ موضوع بہت ہی خاص ہے تو کیوں نہ لب کشائ کر ہی لی جاۓ.....

 

اس تحریر کو سمجھنے کیلیے ہمیں اس کی گہرائ میں جانا ہوگا اور چونکہ وہ لفظ آزاد ہے جو اہمیت کا حامل ہے یا اگر یوں کہا جاۓ کہ اس موضوع کی بیس آزادی ہی ہے.......

 

آپ کیا سمجھتے ہیں آزادی کیا ہے؟

کھلی فضا میں سانس لینا آزادی ہے.....

کسی کے سامنے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے بات کرنا آزادی ہے.....

خود کو سمجھنے کیلیے اپنے اندر کی خامیوں کو خوبیوں میں بدل دینا ہے آزادی.......

خودی کو پا لینا آزادی ہے.....

کہیں بھی، کسی بھی جگہ جا کر خود کو ڈیفینڈ کر پانا آزادی ہے........

کسی کی غلط سوچ کو غلط کہنے کی ہمت ہونا آزادی ہے.....

انگلش نے جس طرح ہمارے جزبوں اور اللہ تعالیٰ کو پانے کی جستجو کو اپنے پیروں کے نیچے روندا تھا آج بھی وہی ہو رہا ہے جانتے ہیں کیسے ؟

کیونکہ ہمیں مظلوم بننے کی عادت ہو گئ ہے یا پھر یوں کہا جاۓ کہ ہم خود کو ان بے بنیاد اصولوں کی نظر کیے ہوۓ ہیں جو ہمارے بزرگوں نے ہم پہ لاگو کیے........

ہمیں پتہ ہی نہی ہم کہاں ہیں یا ہمارا زندگی کا مقصد کیا ہے

ہم محکوم ہیں..... جانتے ہیں کس چیز کے اپنے اپنوں کی خوشی کے.....

ہمیں حق ہی نہی کہ ہم اپنے بنیادی حقوق کیلیے آواز اٹھائیں اور جو غلطی سے اٹھا بھی لے تو اسے بدکرداری یا بدزبان کا ٹھپہ لگا کر دوسروں کے لیے اسے عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے

ہاہہہہہہہ یہ دنیا یہاں ہمیں بہت سے ایسے لوگ ملیں گے جو یہ کہتے کہ ہم دیں گے آپکو آپکے جائز حقوق مگر حقیقت میں سب سے پہلے ہم پہ انگلی اٹھانے والے بھی وہی ہوتے جو یہ پریٹنڈ کرتے کہ ہم ہیں ناں..........

یہاں اگر کسی لڑکی کو لڑکا چھیڑے تو اس بد ذات کو کچھ نہی کہا جاتا بلکہ اس لڑکی کی آزادی سلب کر لی جاتی ہے یہ کہہ کر کہ تم باہر محفوظ نہی.......

لیکن سٹِل الحمداللہ سے ہم آزاد ہیں.......

ان انگریزوں سے جو ہم پہ ظلم کرتے تھے اور ان بھارتیوں سے جو ہمارے سامنے تو ہمارے تھے مگر پیٹھ میں وار کیسے کرتے یہ انہوں نے ہی تو بتایا.....

 

ہاں ہم آزاد پیدا ہوۓ ہیں اور ہمیں اپنی زندگی اپنے انداز میں گزارنے کا بھی پورا حق حاصل....... وہ ماں باپ جو بچپن سے اپنی اولاد کے ہر صحیح غلط پہ اس کو ڈیفینڈ کرتے مگر جب وہ بڑے ہو کر انہی کو چِیٹ کریں تو قصوروار نہی گردانے جاتے بلکہ وہ سکول اور ٹیچر انکی زد میں آتے کہ جی یہ تو بہت بگڑ گۓ سکول والے ہی خراب ہیں.....

اصل خرابی انکے دل میں یا دماغ میں نہی ہوتی بلکہ انکی سوچ میں ہوتی ہے

 

آپکو ایک واقعہ بتاتی چلوں......ایک لڑکی کو محض اس لیے بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے کہ شاید تمہارے ادھر شادی کرنے سے معاملات سدھر جائیں.......

کچھ عرصے بعد اسے بھی انہی انا اور غرور کی نظر ہونا ہوتا ہے

جب اسکا خاوند جسے رب کائنات نے اتنا بڑا درجہ دیا کہ یہاں تک کہہ دیا

 

" اگر میں مخلوق میں سے کسی کو سجدہ تعظیمی کرنے کی اجازت دیتا تو عورت کو حکم دیا جاتا کہ وہ اپنے شوہر سجدہ کرے کیونکہ بیوی پر شوہر کے کثیر حقوق ہیں "

 

وہ ہی جب اپنی بیوی کو بس ایک ملازمہ یا اپنے بچوں کی ماں سمجھ کر اسکے ساتھ رہ رہا ہو اور اسکو وہ  اہمیت نا ملے جس کی وہ حق دار ہوتی تو یہاں بھی وہ ایک زرخرید غلام کی حیثیت سے ایک کونے میں رہ کر اپنی خواہشات کا دم توڑتی محکوم ہوتی........

یہ وہ ہیں جن پر اگر بات بھی کریں تو انہی کو اسکا مجرم ٹھہرایا جاتا...

اور جی بس سب آنکھیں, زبان, کان, سب بند کیے خاموشی سے جیے جا رہے ہیں یہاں ہم براۓ نام آزاد ہیں

 

پاکستان اور انڈیا کی تقسیم ہونا وہاں سے اپنے وطن کوچ کرنا ایک نئ زندگی کا آغاز کرنا آزادی ہے مگر انفرادی آزادی کیا ہے کوئ بھی نہی جاتا

 

اپنے آپکو منوانے کا فن نہی ہے مگر ہاں دوسروں کو نیچا دکھانے انکی روح کو تزلیل کا باعث بنانے میں پی ایچ ڈی کی ہوئ........

 

اوکے ہم آج کل کی ہی بات کر لیتے ہیں یہ جو آج کے طلباء ہیں یا جو آج کل کے دور کے اساتذہ ہیں  وہ کس طرح مس مینیجمنٹ کا شکار ہیں

طلباء چند نمبروں کے پیچھے کیا کیا کر بیٹھتے ہیں انہیں اندازا بہت دیر بعد ہوتا ہے

ایک سستی شہرت یا کامیابی کیلیے.....

ہم نے کافروں سے آزادی یہ کہہ کر حاصل کہ ہم الگ ہیں ہماری عبادت کا طریقہ الگ ہے

ہمارا خدا ایک ہے ہم تمہاری طرح نہی اور نہ تم کبھی ہماری طرح تھے

اوکے ود دیٹ...... مگر مگر مگر یہاں ایک سوال اٹھتا ہے جب ان سے آزادی حاصل کی تو یہ کہہ کر کہ ہم مسلمان ہیں مگر اب ہم فرقہ واریت میں پڑ کر رہ گۓ

اور اگر کسی سے دوستی کرنی ہو یا واسطہ قائم کرنا ہو تو پہلی بات کیا پوچھتے.....

 جی آپکا فرقہ کیا ہے ؟

اگر کوئ سنی ہے تع وہ شیعہ کی مسجد میں داخل نہی ہو سکتا بریلویوں کی الگ ہی کوئ دنیا ہے........

یہ لمٹس کس نے بنائ....

کون ہے ان سب کے پیچھے

میرے پیارے نبی نے کیا کہا تھا

انہوں نے تو کوئ فرقہ نہی بنایا تھا.........

وہ کیا تھے انکی آئیڈیالوجی کیا تھی ایک ایسی مثال جو نا صرف مسلمانوں کیلیے بلکہ اس سے مخالفت رکھنے والوں کیلیے بھی ہیں.......

زندہ مثال جنکی پوری زندگی ہی ہمارے لیے اہمیت کا حامل ہیں

 

لیکن چھوڑیں جی ہم تو آزاد ہیں .......

ہم پھنسے ہوۓ ہیں اپنی ذہنی بیماری

ہاں ہم آزاد ہیں مگر ہم اپنے وِل پاور سے کچھ نہی حاصل کر سکتے ہمیں مضبُوط ہاتھ کی ضرورت رہتی ہے.......

جسے سفارش کا نام دیا جاتا

مگر دیکھیں جناب ہم پھر بھی آزاد ہیں.......

 

 

مولانا رومی کی ایک بات یاد آگئ چلیں وہ بھی ملاحظہ فرمائیں

" عقل کو خواہش پر فضیلت حاصل ہے کیونکہ عقل زمانے کو تمہارے ہاتھوں میں دے دیتی ہے جبکہ خواہش تمہیں زمانے کا غلام بنا دیتی ہے "

 

 

آزاد مطلب فری ہر چیز سے, کام سے, بات سے آزادی

ہم آزاد نہی ہیں اور نہ ہمارا ملک آزاد ہے ہم آج بھی اپنی اس سوچ کے غلام ہیں جو ہمیں آگے بڑھنے سے روکتی ہیں

 ہم اپنے لیے اپنے اپنوں کیلیے کوئ فیصلہ خود سے نہی لے پاتے

ہم گھٹن کا شکار ہیں..... یم مر رہے ہیں..... آکسیجن نہ ملنے کے سبب جو ہوتی ویسی گھٹن

ہاں ہم غلام ہیں اپنی سوچ کے

ہم نے آزادی لفظ سن تو لیا یاد بھی کر لیا ہر سال بہت سے ملی نغمے بھی اپنے ملک کی بقا کیلیے گا دیتے ہیں مگر ہم لٹرلی آزاد نہی ہو سکے.........

آپ سب سے کچھ پوچھتی چلوں میں کہ ہم جو کہتے کہ ہم آزاد ہیں اپنے ہاتھوں اور گاڑیوں پے سبز ہلالی پرچم لہراتے لیکن کیا حقیقتاً ہم آزاد ہیں بھی یا نہی؟

کیا بس یہی کہنا دیٹ وی آر انڈیپینڈنٹ کافی ہے ہر لحاظ سے............

آزاد ہیں ہم ایک لحاظ سے دیکھا جاۓ تو..... کیونکہ ہم اپنی مرضی کا کھا سکتے ہیں, پہن سکتے ہیں, خرید سکتے ہیں, پھر چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو کوئ بات نہی

ہم خود پہ کسی کی سوچ کو حاوی نہی کرتے تو ہاں ہم آزاد ہیں

ہمارے خیالات آزاد ہیں.....

ہم اپنی مرضی کے مطابق فیصلے بھی کر سکتے ہیں

مگر ایسا کبھی کبھی ہی ہوتا ہے

زیادہ تر ہم انحصار ہی کر رہے ہوتے دوسروں پر انکے پوائنٹ آف ویو پر.........

ہمیں کسی کی فکر نہی ہوتی ہاں مگر لوگوں کی فکر بہت رکھتے ہیں

ہم آزاد نہی ہیں جناب بلکل بھی نہی

ہم انڈیپینڈٹلی کہہ سکتے ہیں کہ ہم وہ سب کر سکتے جو ایکچوئلی ہماری سوچ ہوتی.......

ہم آزاد نہی ہیں اس لیے کیونکہ ہمارے مذہب نے کچھ باؤنڈریز ایسی بنا دی ہیں جنہیں عبور کرنے سے آپ اسلام کے دائرے میں نہی رہتے.......

 

ہم اپنے بولنے اور اس کو عملی جامہ پہنانے میں آزاد ہو لیکن جب وہ ایسا نہی کر سکتا تو اسکا ایک ہی مطلب لے سکتے کہ سمپلی ہم آزاد نہی ہیں..........

جب اتنی زیاددہ بحث کر لیں تو یہاں ایک مطلب اور نکلتا ہے

ہم فیزیکلی تو آزاد ہیں لیکن مینٹلی غلام ہیں اپنے نفس کے.......

 

اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو باؤنڈری لائن دی اس میں رہ کر اگر کہیں تو ہاں ہم آزاد نہی ہیں

لیکن جب ہم اپنے آپکو اس باؤنڈری سے نکال لیں یا اس کو کراس کر جائیں تو ہاں ہم آزاد ہیں.........

سوچنے کی بات ہے یہاں پہ ایک اہم نکتہ جو سامنے آتا ہے وہ یہی ہے کہ

جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے حضرت آدم علیہ سلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا اور تمام نے کر لیا تھا سواۓ ابلیس ( شیطان ) کے تبھی وہ نامراد ٹھہرا...... 

اور تبھی سے اس نے اللہ تعالیٰ سے مہلت اور طاقت مانگی کہ وہ آدم علیہ سلام کی اولاد کو بہکاۓ اور بدلہ لے سکے تو اللہ تعالیٰ نے اسے کہا کہ جو میرا بندہ ہوگا وہ تیرے بہکاوے میں نہی آۓ گا.......

اور اسے جنت سے نکال دیا گیا تھا کیونکہ وہ مغرور ہو گیا تھا

اور اس نے کہا تھا کہ یہ تو انسان ہے مٹی سے بنا ہے میں تو فرشتہ ہوں آگ سے بنا ہوں میں کیوں کر سجدہ کروں

اللہ تعالیٰ کی باؤنڈری سے باہر جیسے قدم گیا پٹخا گیا تھا زمین پر.........

 

 

بات پھر بھی وہیں ٹھہری ہے

کیا ہم آزاد ہیں؟

 

آج کل کے سکولز کا سسٹم ہی دیکھ لیتے ہیں...... جب ہم اپنے بچوں کو یا چھوٹے بہن بھائیوں کو سکول ایڈمیشن کرواتے تو انکا جو ہمارے بچگ سے سوال کیا جاتا وہ ہماری قومی زبان میں نہی بلکہ انگلش ( کمپلسری ) میں کیے جاتے

یہ نہی پوچھا جاتا کہ آپ کون ہیں یا آپ کس گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ پوچھا جاتا

ہووو آر یو اینڈ وٹ از یور نیم

ہمارے بچوں کو کیا سکھایا جارہا.........

کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں اب بھی کہ ہم آزاد ہیں....

بچپن سے ہم اپنے اساتذہ سے یہ کہتے آۓ ہیں

ٹیچر مے آئ گو ٹو واشروم بجاۓ اس کہ کے کیا ہم غسل خانہ جا سکتے ہیں مس؟

ہم کیوں ایسا نہی بولتے کیونکہ ہمیں ہچکچاہٹ ہوتی ہے اور ہم ویسٹرن کلچر سے بہت انفلیؤنسڈ ہیں.......

ہم خود کو قیدی بنانے کے عادی ہوچکے ہیں

شاید یاد ہو آپ سب کوہمارے جتنے بھی پرانے سائنسدان ڈاکٹر یا پھر اعلی طرزِ تکلم گزرے ہیں انہیں پہلے دین کا علوم دیا جاتا تھا پھر ہی کچھ اور کرتے تھے.....

 

آج ہمارے بچوں کو کچھ پتہ نہی وہ تو اس قدر پرو لونگ کیے جاچکے ہیں کہ السلام علیکم کی بجاۓ ہیلو,ہائے  کہنے پہ اکتفا کرتے ہیں

کیا یہ ہے ہمارا کلچر.......

کیا اس لیے ہم نے آزادی حاصل کی تھی....

کیا آج کے دن کیلیے ہم نے خود کو اتنی آزمائشوں اور تکلیفوں سے دوچار کیا تھا

ہمارے آباؤ اجداد نے کتنی قربانیاں دیں

جب بھی ایک انسان خود کو دین سے دور کرتا ہے تو وہ اپنی آزادی کو خود سے دور کرتا ہے

ہم آج پردہ کرنے کو ناگزیر سمجھتے ہیں ایسا کیوں ہے کوئ جانتا ہے........

ہم ایسا سمجھتے ہیں کہ یہ تو خود کو پارسا ثابت کرنا چاہتی....

یق اگر کسی عورت سے پردہ کرنے کا کہہ دیا جائے تو وہ سمجھتی ہیں انکو بیڑیوں میں جکڑا جا رہا ہو یا پابندی عائد کر دی گئ ہو......

 

لیکن شاید ایک اہم بات جسے ہم فراموش کر بیٹھتے ہیں وہ یہ ہے کہ ایک مرد کی آنکھ میں حیا ہونی چاہیے عورت کے جسم کے لباس کو نہی دیکھنا چاہیے کہ وہ چھوٹے کپڑے پہن کر پھر رہی ہے یا بڑے......

ہم یہ بھول بیٹھے ہیں کہ جو ہماری اماں تھیں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا, حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا, حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا یا بڑی بڑی ہستیاں... اللہ کی ولی حضرت رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہ........

وہ بھی تو تھیں جنہیں اللہ کا حکم سنایا گیا اور انہوں نے اللہ کے حکم کو اولین درجہ دیا اور پردہ کیا......

 

ہمارے اندر جھوٹ رچ بس گیا ہے ایک واقعہ آپ سے شیئر کرنا چاہوں گی یہاں جس جگہ میں رہتی ہوں گلگشت میں یہاں پر چھتریوں لگا کر چھاؤں کی گئ تاکہ لوگ تنگ نہ ہوں لیکن وہاں کسی نے ایک چھتری نہی چھوڑی.......

اپنے گھروں اور دوست و احباب   میں بیٹھ ہم بڑے وثوق سے یہ کہتے کہ ہمارے حکمران کرپشن کنگ ہیں لیکن کبھی کم نے خود کو دیکھا کہ اصل میں ہم خود کیا ہیں......

 

 

 

 

 

 اس خطے کی تاریخ میں بیسویں صدی کا وسط بہت ہی اہم ہے، جس میں دنیا کے نقشے پر بہت اہم تبدیلیاں رونما ہوئی تھیں جن میں بہت سی اہم تبدیلیاں ہم دیکھ چکے ہیں

 

14 اور 15 اگست 1947ء کی درمیانی شب رات 12 بجے دنیا کے نقشے پر ایک نئی مملکت پاکستان کے نام سے وجود پذیر ہوئی۔ قیامِ پاکستان کے گیارہ ماہ بعد 9 جولائی 1948ء کو حکومتِ پاکستان نے یادگاری ٹکٹ جاری کیا، جس پر پاکستان کا یومِ آزادی 15 اگست 1947ء کو قرار دیا گیا، لیکن بعد میں 14 اگست کو ہی یومِ آزادی ٹھہرا لیا گیا۔ قوم جشن آزادی 14 اگست کو منائے یا 15 اگست کو، یہ ضروری ہے کہ اس کے درمیانی وقفے میں کچھ گھنٹے لمحۂ فکریہ کے طور پر بھی گزارے جائیں کہ 68 سال گزر جانے کے باوجود بھی ہم آزادی کے ثمرات سے فیض یاب کیوں نہ ہو پائے۔

سوال تو بنتا ہے آخر ایسا کیا تھا جس نے ہمیں کبھی کامیاب ہونے ہی نہی دیا یا شاید ہم میں وہ طاقت نہی رہی

وہ جزبہ نہی رہا جو ہمارے بزرگوں میں تھا

یا ہم خود کو غلامی کی بیڑیوں میں مضبُوطی سے باندھ چکے ....

 

اب سب سے اہم سوال قوم کے سامنے یہ ہونا چاہیے کہ وہ کون سے محرکات اور عوامل ہیں جو پاکستانی قوم کو آزادی کے اثرات و نتائج سے محروم رکھے ہوئے ہیں؟

 

بڑی ہی  سادہ سی بات ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد سے اب تک معاشرے کا ایک حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے، جس میں دیکھا جائے کہ اس ملک کے وجود میں آنے کے بعد کن طبقوں نے حکومت و اقتدار سے مالی اور مادی فوائد حاصل کیے اور ان کی دولت و ثروت اور مال و جائیداد میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی ہوئی۔ اور وہ کون سے طبقے ہیں، جو ریاست و اقتدار کے مالک بااختیار طبقوں کے مقابلے میں بڑی تیزی سے غربت و افلاس، جہالت، تنگ دستی، اور خوف ناک امراض کا شکار ہو کر موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔

سوچنا ہے اور یہ ہم ہی کر سکتے کیا ہم خود کو موٹیویٹ کر سکتے ہیں

سوچنے کی بات ہے........

 

پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے، جہاں سیاست دانوں کے کاروبار ترقی کے ریکارڈ قائم کرچکے ہیں اور سرمایہ دار دنیا میں اُن کے کاروبار کی تیز رفتار ترقی کو مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ان کے کاروبار نہ صرف پاکستان میں ہیں، بلکہ دنیا بھر کے ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ غریب ملک کے حکمران اور سیاست دان اربوں روپے غیر ملکی بینکوں میں منتقل کر چکے ہیں۔ اس ملک میں وہ حکمرانی، سیاست اور کاروبار کرتے ہیں، ورنہ اُن کی اولادوں کی تعلیم و تربیت اور مستقبل کے رہائشی منصوبوں کی پلاننگ بیرونِ ملک میں ہی کی جاتی ہے۔

کیا یہ صحیح ہے.........

کیا ہمیں ان سے سوال کرنے کا بھی حق نہی رہا.....

کیا ہم نے اپنی زبانیں کاٹ کر پھینک دی ہیں......

کیا ہم اپنے لیے خوشحالی کو نااہل قرار دے چکے ہیں........

 

آپ کیا ہیں......

آپ کیا کر سکتے ہیں......

سوچیں ملک کو آپکے سال بعد ملی نغموں کی نہی آپکے ساتھ کی ضرورت ہے.......

میں ایک اکیلی لڑکی اگر اپنے ملک کی فلاح کیلیے ڈٹ جاؤں تو کون ہوگا جو مجھے پست کرے یا میرے ارادوں کو زیر کر دے......

کوئ نہی ہے ہاں مگر میری اپنی سوچ..... میری خودی ہی ہے جو مجھے اونچا اڑا بھی سکتی ہے اور زمین بوس بھی کر سکتی ہے........

 

ضرورت اس امر کی ہے کہ آج ہم اس موقع پر اس بات کا فیصلہ کرسکیں کہ اس ملک کے استحصالی طبقے, اس کی ترقی اور آزادی میں سب سے بڑی رُکاوٹ ہیں۔ کیونکہ اس اقلیت کا مفاد اور عوام دو متضاد چیزیں بن کر رہ گئی ہیں۔ اگر اس ملک میں اجتماعیت پر مبنی اور استحصال سے پاک کسی نظام کی داغ بیل ڈالنی ہے تو اس طبقے سے نجات ضروری ہے۔

 

مجھے آپکا ساتھ درکار ہوگا اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنانے کیلیے.........

عہد کرتے ہیں ؟

چلیں اس بار چودہ اگست پہ ہم اپنے ملک و ملت سے ایک عہد لیں گے کہ اس کی بقا اور فلاح کیلیے خود کو فراموش کر دیں گے........

 

 

ہاں ہم آزاد ہیں...... مگر آزاد نہی ہیں

بگاڑ کا شکار ہے ہمارا ملک, ہمارا معاشی نظام, ہمارا تعلیمی نظام, انفیکٹ ہر پہلو میں بگاڑ موجود ہے

 

میرا ایک سوال ہے آپ سب سے کیا آج جو ہم اپنے بچوں کو دے رہے ہیں وہ انکے لیے مفید ہے یا ہم خود انہیں تباہی کی جانب لے کر جاریے ہیں.........

 

 

یہ کلاسز کہاں سے آئ ہیں؟

ہاں کبھی سوچا آپ نے

اپر کلاس

لوئر کلاس

مڈل کلاس

یہ کس کی بنائ ہوئ ہیں ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب کہہ دیو کہ

کسی عربی کو عجمی پر, عجمی کو عربی پر, کالے کو گورے پر, گورے کو کالے پر کوئ فوقیت حاصل نہی سواۓ تقوی کے.......

جب بات واضح ہے تو کیوں ہم اپنے دشمن بنے بیٹھے ہیں زیادہ کمانے کی دوڑ میں ہمارے اپنے.... ہمارے دوست احباب سب ہم سے چھوٹ رہے ہیں

غرض یہ کہ ہر خالص اور پاک رشتے کی جگہ ایک وقتی تسکین نے لے لی ہے.......

ضرورت تک محدود رہ گۓ ہیں رشتے جہاں ہم دیکھتے ہیں اب یہ شخص ہمارے کام نہی آسکتا وہیں اسے خدا حافظ کہہ دیتے ہیں..........

 

یہ ایسی ہوتی ہے آزادی؟

اگر اسی کا نام آزادی ہے تو میں نہی مانتی ایسی آزادی کو

 

ہمارا یہ ہے کہ آج بھی ہم دوسروں سے یعنی کہ باہر والوں سے انسپائرڈ ہیں ہم اپنی تعلیمات اسلام سے بہت بے بہرہ ہیں..........

 

 

لاسٹ میں یہ کہنا چاہوں گی کہ جو بیان کچھ دن پہلے ملالہ یوسف زعی نے شادی کے متعلق دیا وہ بھی فارن کنٹری سے متاثر ہونے کے باعث دیا.........

 

مجھے ایک بہت ہی اہم موضوع پہ بات کرنے کا موقعہ ملا...... میرا خیال ہے سمجھ چکے ہونگے کہ ہم کہاں آزاد اور کہاں نہی.....

اصل میں ہم نے آزادی کا مطلب ہی غلط لیا ہے

جاتے جاتے ایک سوال آپ سب سے میرا.........

ہمارا دماغ

ہمارا دل

ہمارا رہن سہن

ہمارے سوچنے کا انداز

ہمارا رویہ لوگوں کے ساتھ

ہمارا کسی کو بھی جانچنے کا طریقہ

امراء اور فقراء میں تفریق

ہمارا خود کو افضل اور دوسروں کو بدتر گرداننا ہی آزادی ہے  ؟؟؟؟؟؟

اگر یہی آزادی ہے تو معزرت کے ساتھ ہم آزاد نہی ہیں....... ہم غلام ہیں ، ہم بونڈمین ہیں

 

فزیکلی آزادی کا کیا کرنا جب مینٹلی غلامی میں مبتلا ہو........

 

 

 

چھوٹی سی کاوش آپ سب کیلیے

شکریہ

Comments