”غدار“
سدرہ منظور حسین:(سیالکوٹ)
وردہ
نور احمد جو بالکل اپنے نام کی طرح ہی تھی۔ ہر شے کو نکھار
دینے والی۔27 برس بیت چکے تھے وہ جان چکی تھی انسان ٹوٹنے کے بعد یا تو بکھرتا ہے یا
پھر نکھر تا ہے وہ نکھر چکی تھی۔27 برس بعد
بھی اسے ویل چیئر پر بیٹھے
اس بے سہارا لاچار اور مجبور شخص کو پہچاننے میں چند سیکنڈ نہیں لگے تھے۔ نور کی آنکھوں
میں صرف حیرت اور بے یقینی تھی مگر ویل چیئر پر بیٹھے اس شخص کی آنکھوں اور چہرے پر
شرمندگی احساس ندامت اس قدر تھا کہ وہ اپنے
سامنے کھڑے اس مسیحا سے بھی نظریں نہیں ملا پا رہا تھا جیسے نظریں اٹھا تے ہیں اس کو
سزا دے دی جائے گی وہ بے چارگی اور لاچاری کی مثال بنا بیٹھا تھا مگر آج وردہ نور احمد
کے ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں تھیں خوشی کے اس موسم میں اس کی آنکھیں نم ہوگئی اس کی
آنکھوں میں یہ آنسو سیلاب کی مانند اسے کسی دور صحرا میں لے گئے جہاں ہر طرف وحشت ہی
وحشت تھی بھوک تھی ،پیاس تھی، وہاں کوئی اپنا نہیں تھا صرف آنسو تھے، اور وہ تھی ۔جب
محافظ ھی غدار بن جائیں تو تحفظ کس سے مانگا
جائے اس کے اپنوں نے اس کے ساتھ غداری کی تھی ۔ انجانے میں۔اب وہ اس گرم صحرا کی تپتی
ریت پر اکیلی سلگ رہی تھی اپنے محافظوں کو پکار رہی تھی مگر وہ کہاں سے آتے انہوں نے
غداری کی تھی اس کے ساتھ اس کے ارمانوں کے ساتھ اس کے جزباتوں کے ساتھ جب اپنے رشتے ہیں پیروں کی زنجیریں بن جائیں
تو ان زنجیروں کو توڑنا ایک تلخ حقیقت ہے وہ بھٹک رہی تھی اس چڑیا کی طرح جس
کا آشیانہ کسی بجلی نے جلا دیا ہو۔ بندو تاریک
کمرہ، جگہ جگہ سے اترتا ہوا سیمٹ ، چھت کے قریب دیواروں میں چھوٹے چھوٹے سوراخ اور ان
سے آتی ہوئی روشنی دن کی گواہی دے رہی تھی سردیوں کی لمبی راتیں بند کمرے کا فرش اور اس سے اٹھنے والی یخ بستہ ٹھنڈ
اس کے نازک بدن کو یخ بستہ کرنے کے لئے کافی تھی وہ اس چھوٹے بند کمرے کے فرش پر ننگے
پاؤں ٹانگوں کے گرد بازو لپیٹے ویران نظروں
سے بند دروازے کو تکتی جا رہی تھی جیسے امید ختم ہوتی نظر آ رہی تھی کہ اب یہ دروازہ
کبھی نہیں کھلے گا۔کمرے میں اس کی سسکیوں کی آواز گونج رہی تھی پھر وہ بند دروازہ اچانک
سے کسی نے کھولا جب بھی یہ دروازہ کھلتا تو اسے محسوس ہونے لگتا جیسے زندگی ایک دفعہ
پھر اس کی طرف لوٹ رہی ہے اسے ایسے لگتا جیسے اس کے آپنے اسے یہاں سے اس قید سے چھڑا
کر لے جائیں گے زندگی کی رونق واپس لوٹ آئیں
گی مگر وہ ابھی تک اس بات سے بے خبر تھی کہ اس کے محافظ ہی اس کے غدار ہیں بندوں تاریک
دروازہ کھلا یہ وہی نقاب پوش شخص تھا جسے اس کی نگرانی کا کام سونپا گیا تھا 6 فٹ سے
زیادہ قد، کاندھوں پر پڑتے ہوئے لمبے بال، اس نے اپنے چہرے کو سیاہ کپڑے سے چھپا ؓرکھا
تھا اس بے بس لڑکی کو نقاب پوش کی سرخ آنکھوں سے بہت ڈر لگتا تھا اس نے اس نقاب پوش
کی آنکھوں کا ارتکا ز محسوس کیا اور رخ موڑ کر اسے دیکھنے لگی اس کی آنکھوں میں آنسو
اور الفاظ میں ایک التجا تھی وہ دیوانہ وار پکارنے لگی خدا کے لئے مجھے، چھوڑ دو مجھے،
جانے دو ،تم کون ہو؟ مجھے کیوں یہاں لے کر آئے ہو؟ میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے ؟مجھے
چھوڑ دوں میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں مجھے جانے دو میرے گھر والے میرا انتظار کر
رہے ہوں گے وہ میری وجہ سے پریشان ہوں گے خدا کے لیے مجھ پر رحم کرو مجھے جانے دو وہ
پورا زور لگا کر چیخیں نقاب پوش نے کچھ کاغذات اس کے آگے کیے کاغذات دیکھ کر اس نے
اپنے سر کو زور زور سے منفی انداز میں انکار کی غرض سے ھلایا وہ بلک بلک کر اس نقاب
پوش کے آگے رو رہی تھی رحم کی اپیل کر رہی تھی مگر وہ نقاب پوش اسے اندھیری کوٹھڑی
میں بند کر کے مڑ گیا اس پتھر دل انسان پر اس کی داستان الم کا کوئی اثر نہیں ہوا اور
چلا گیا ہے یہ کیسا انتحان ہے وہ خود کلامی کر رہی تھی کیونکہ اس کی آخری امید اس سے
چھین لی گئی تھیں اب خالی ہاتھ رہ گئی تھی اس کی امید اس کا سہارا چھیننے والا اپنی
کامیابی کے نشے میں سرشار جھوم رہا تھا جیسے کوئی بہت بڑا خزانہ ہاتھ لگا ہوں اس نے
بڑی مکاری اور عیاری سے اپنی حواس اقتدار کی
تکمیل کا پورا پورا سامان کر رکھا تھا اسے گمان تھا کہ اس کی روباہی کے آگے چیتے جیسی شہ زوری بھی دھری کی دھری رہ جائے گی وہ ہنستا چلا جا رہا تھا ھا ھا ھا ھا٠٠٠٠
اس
نے اپنے بدن کی سجاوٹ کے لیے دوسروں کا حق مار کر خوب نفیس اور خوبصورت لباس زیب تن
کر رکھا تھا اس کا دل نزع عالم میں تھا مگر اس کی عقل منجھی ہوئی ہوئی بہت پختہ کار چلاک
اور عیار تھی جس کے بل بوتے پر وہ اپنے گرد دولت کے انبار لگا رہا تھا وہ اس
ساری دولت کو سمیٹ رہا تھا اس کے حواس اقتدار کی تکمیل ہو چکی تھی مگر وہ اب اس دیس
کی راہوں کو چھوڑ کر کسی اور دیس کی فضاؤں میں جاننا چاہتا تھا مگر وہ یہ نہیں جانتا
تھا کہ اس دیس کی فضاؤں کی راہوں میں ہو س کا ناگ اس کو کو ڈسنے کے لیے کنڈلی مارے
بیٹھا ہے وقت نے بازی پلٹی اور اس چور غدار کو عبرت اور دنیا کے لیے مثال بنا دیا ویل
چیئر پر بیٹھا شخص کوئی اور نہیں تھا بلکہ مستقیم احمد تھا وردہ نور احمد کا بھائی جس نے اس کے ساتھ
غداری کی تھی ۔ وردہ نور ویل چیئر پر بیٹھے اس غدار کو مسلسل دیکھے جا رہی تھی جسے
والدین کے بعد اس کا سہارا بننا تھا مگر وہ غدار بن گیا اور وقت نے بھی کیسا انصاف
کیا تھا 27 سال پہلے بےسہارا کی گئی اس لڑکی کے پاس آج خود سہارے کی غرض سے آ پہنچا
تھا وردہ احمد ٹوٹنے کے بعد نکھر چکی تھی وہ بے سہاروں اور مجبوروں کے لئے مسیحا تھی
نا امید اور ہار جانے والوں کے لیے زندگی کی نوید تھی اس نے ٹھان لی تھی کہ وہ انسانی
روح کی عمارت کی تعمیر بطور امین اور احسن اصولوں پر کریں گی کیونکہ وہ اس بات کو بخوبی
جان چکی تھی کہ یہی میری اس کی ہنرمندی کا شاہکار ہوگا وہ علم اور دانش کے ذریعے لوگوں
کی ذہنی استعداد کو بڑھا رہی تھی وردہ نور احمدنے ویل چیئر پر بیٹھے اس بے سہارا کو
بھی سہارے کے لئے تھام لیا تھا
*********
Amazing
ReplyDelete