یونیورسٹیوں کی بقا کا راز
از قلم:حافظہ خنساء اکرم
قسط نمبر:1تا 5
"
میری یہ تمام باتیں
ہمیشہ کے لیے ذہن نشین کر لو ۔شاید دوبارہ اس موضوع پر گفت و شنید کا زندگی
موقع دیتی بھی ہے یا نہیں۔ ہم تمہیں جہنم کی وادی میں بھیج رہے ہیں۔ ان آگ
کے شعلوں سے اب تم نے خود بچ کر آنا ہے۔یہ فیصلہ کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔"
"
مگر سیدی امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے قول کا مفہوم ہے کہ اصل فقاہت یہی ہے کہ تم دو برائیوں میں سے کم برائی
کا انتخاب کرو۔تو ہم نے کم برائی کا انتخاب
کیا ہے۔ اللہ رحیم ہمیں معاف فرما دے اور ہمارے لیے اس فیصلے کو بطریق احسن پایہ تکمیل تک پہنچانے میں آسانیاں پیدا
فرمائے۔ "
اور ہاں یہ بھی
یاد رکھنا کہ غیر محرم خواہ زہد و تقویٰ کے جس بھی مقام پر فائز ہو ۔اس کے لیے بلا جھجک دل و دماغ اور گھر کے دروازے کھولنے کی حماقت کبھی نہیں کرنی۔
اور اگر کبھی بھی کسی ایسے مسئلہ کا شکار ہو جاؤ تو مجھ سے کچھ بھی نہیں چھپانا اور کبھی بھی یہ مت سوچنا کہ تم
یونیورسٹی میں تنہا ہو ۔"
گاڑی منزل کی جانب رواں دواں تھی۔مگر بھائی جان کے رخت سفر
باندھتے وقت کے الوداعی کلمات کانوں میں گونج
رہے تھے۔اور روح کو غیرت ایمانی و خاندانی حمیت کی آگ میں جھلسا رہے تھے۔
راستے میں قبرستان
کی موجودگی مزید زخموں پر نمک چھڑکانے کے مترادف
ثابت ہوئ اور بدن کا رواں رواں کانپتے ہوئے
پکار اٹھا کہ بھائ جان! میں نے نہیں جانا
۔۔۔۔ نہیں جانا مجھے یونیورسٹی ۔مجھے نہیں معلوم کہ میں جب اس قبر میں جاؤں گی تو اس
وقت تک اپنی عفت ، اپنا ایمان سنبھال پاؤں
گی یا نہیں۔.....!
اگر میری قبر ہی مجھے کھا گئی تو؟
میرے پاس تو کوئ نیکیوں کا ڈھیر بھی نہیں ہے۔اور اگر اس
رہِ سفر میں وہ حسنات کا معمولی سا زادِ راہ
بھی کھو گیا تو میرا کیا بنے گا؟؟
آنسو بہاتے ہوئے شعور میں
گونجتے بھائی جان کے صرف یہی الفاظ سمجھ سکی کہ" پگلی! تیرے بھائی جان نے
اگر یہ فیصلہ کیا ہے تو اس کے پاس اس کا جواب
بھی تو موجود ہوگا۔ مگر میری خواہش ہے کہ تم
اس رمز تک خود پہنچنے کی کوشش کرنا۔ اور اللہ عزوجل سے اپنا تعلق مضبوط رکھنا ۔ یہ
بات ذہن نشین کر لو کہ لاکھ حجت پیش کرنے کے بعد بھی یہ ایک ایسی عظیم برائی ہے جو
ہمارے حصے میں آئی ہے۔
اب دنیا میں اس
برائی کا انجام اچھائی میں کیسے نکالا؟ یہ جواب تمہیں کل روزِ قیامت اللہ
کو دینا ہوگا۔اور اس کی تیاری آج سے ہی شروع کرنا ہوگی۔"
اس طرح کے بہت سے فقروں کی باز گشت میں یونیورسٹی میں وارد پہلا قدم کیچڑ میں غلطی سے رکھے گئےاس نقشِ پا کے مترادف
لگا جو بخیر باہر نکل آنے کے باوجود پاپوش
کو پابند کرتا ہے کہ وہ ہر جگہ پڑاؤ ڈالنے پر اس قدم کا دلدل میں کچھ ساعت پناہ گزین ہونے کا ثبوت ضرور پیش کرے اور گردونواح
میں عافیت سے نکل آنے کی نوید سنانے کی بجائے غلاظت میں پھنس جانے کا راگ الاپنے والا
ثابت ہو۔
یہ معاملہ اب فہم سے بالاتر تھا کہ آغازِ سفر میں موجود
اس گوہرِ نایاب کی اختتام سفر میں بھی ملکہ بن سکوں گی یا پھر مغرب
کی جانب سے آتی اس بادِ صرصر کے دوش پر سوار ہو کر کسی ریگستان کی تلچھٹ کا حصہ بننے کا فیصلہ کرلوں گی۔ انہی پریشان
کن خیالات کے بہاؤ میں بہتے ہوئے زبان سے یہ
کلماتِ مبارکہ جاری ہوگئے۔
رَبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ
صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَ جَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا
نَّصِیْرًا .
"اے
میرے رب مجھے سچی طرح داخل کر اور سچی طرح باہر لے جا اور مجھے اپنی طرف سے مددگار
غلبہ دے۔"
رَبِّ هَبْ لِیْ حُكْمًا وَّ
اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ ۔
"اے
میرے رب !مجھے حکمت عطا کر اور مجھے ان سے ملادے جو تیرے خاص قرب کے لائق بندے ہیں
۔"
اَللّٰھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ
حَقًّا وَّارْزُقْنَا اتِّبَاعَہْ وَاَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَّارْزُقْنَا اجْتِنَابَہْ
۔
"اے اللہ! ہمیں حق کو واضح دکھا اور اس کی پیروی کی
توفیق بخش اور اے اللہ ہمیں باطل بھی واضح دکھادے اور اس سے بچنے اور اجتناب کرنے کی
توفیق دے۔"
ان دعاؤں سے طبیعت میں طمانیت کا احساس اجاگر ہوا اور پھر
اپنے ماحول سے شناسائی حاصل کرنے کی اک نئے عزم سے
سعی ِمسلسل شروع کر دی۔
اللہ ذوالجلال والاکرام نے اس دنیائے رنگ و بو میں آدم علیہ
السلام کو بھیجنے سے پہلے سب سے پہلے اس کو علم کا خزینہ عطا فرمایا۔ جنت کی بشارت
اور اس میں پناہ گزینی کا موقع بعد میں نواز ا۔
یہ علم کا تحفہ
ہی تھا جس نے آدم علیہ السلام کے سامنے فرشتوں کو سر نگوں کردیا۔
یہ علم کا ہدیہ ہی تھا جس کے حصول کے بعد انسان اشرف المخلوقات
قرار ٹھرا۔
یہ وحی الٰہی کی
صورت میں علم کا تاج ہی تھا جس کو پہن کر نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم
نے شعراءِ عرب کو لاجواب کر دیا۔
یہ علم کا جوہر ہی تھا جس کو پانے کے بعد مسلمان قیصر و
کسریٰ اور قرطبہ و غرناطہ کے والی بن گئے۔
یہ علم کا تختِ شاہی ہی تھا کہ جس پر قابض یورپ کے سامنے
پھر قرون وسطیٰ کے مسلمان ہی سوالی بن گئے۔
مزید یہ ہوا کہ چاند ستاروں
پر کمندیں ڈالنے والے آج کے نام نہاد غیور مسلمان یورپ کی تہذیب کے رکھوالی بن گئے۔
کل تک اسلامی عروج و کمال پر فائز رہنے والے آج جب بہت تیزی
سے تنزلی کی آخری سطح پر پہنچ رہے ہوں اور
اسی کو امت مسلمہ کی اصل قدر و منزلت سے تعبیر کرنے لگ جائیں توحقیقت حال کا نسلِ نو
کی عقول تک پہنچنے کا سفر ان کے گرد کسے شکنجوں کے باعث بہت دشواریاں پیدا کرتا ہے۔
جی ہاں۔۔!!
کسی بھی معاشرے کے عروج و زوال میں کلیدی کردار ادا کرنے
والا وہاں پر رائج کردہ نظام تعلیم ہوتا ہے۔ جو اپنی نسلوں کی تعلیم اور کردار کی تعمیر
جس نہج پر کرتا ہے۔ اس کے بہت دور رس اثرات
مرتب ہوتے ہیں۔ جن سے کنارہ کش ہونا اس معاشرے کے کسی بھی فرد کے لیے ناممکن ہوتا ہے
۔حتیٰ کہ مسجد کے اندر مستعد امام سے لے کر
بازار میں موجود خوانچہ فروش اور کسی وڈیرے کے پاس میسر دیہاڑی دار مزدور طبقہ
بھی اس عفریت کی لپیٹ میں آئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
کیونکہ ہم لوگ سات دہائیوں کے بعد بھی اپنی زنجیرِ غلامی
کاٹنے کی صلاحیت پیدا نہیں کرسکے۔
اور یہ نظام تعلیم
اسی ذہنی غلامی کا شاخسانہ ہے جو آج ہم پر مسلط ہے۔
اغیار پر ہرزہ سرائی کرنے سے پہلے ہمیں اپنے دامنِ دل میں
جھانکنے کی ضرورت ہے کہ کن تحفظات نے ہمیں اپنی نسلوں کے کرداروں کا قاتل بنادیا اور اس فیصلے کے خلاف
ہمارے ضمیر نے کبھی کوئ صدا
بلند نہ کی؟
مسئلہ مخلوط نظام
تعلیم شعبہ تعلیم میں مغربی استعماری اثرات
کی پیداوار بہت سے مسائل میں سے ایک ہے۔تعلیم ایک سماجی عمل ہے اور سماجی اقدار تعلیم
کے نظریے اور تعلیمی عمل کو متاثر کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ذہنًا اور عملاً سیکولر
اقدار ، سیکولر نظریات اور سیکولر افعال پر عمل پیرا ہیں۔ اسی سبب کی وجہ سے یہاں پر موجود
اکثریت نفوس عملاً سیکولر ہیں۔ کیونکہ اُن کے نزدیک دین اور دنیا کا خانہ الگ الگ ہے۔
حکومت جو اجتماعیت کا مظہر ہوتی ہے۔ وہ دین کی مداخلت پسند
نہیں کرتی اور اہل مسجد و مدرسہ جو دین اسلام کی نمائندگی اور اظہار کا دعوٰی کرتے
ہیں۔ وہ حکومت کی مداخلت کو برداشت کرنے کو تیار نہیں۔اور یہی نتیجہ ہے مغربی استعمار
کے اَن مٹ اثرات کا جو ہماری زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔
سگمنڈ فرائڈاور دیگر مغربی
ماہرین نے نفسیات انسانی کو اس موڑ پر لا کھڑا کیا کہ عام انسان کو یقین ہونے لگا کہ
اس کی فلاح کا سامان یورپ کے خود ساختہ اور بے سروسراپا فلسفے اور نظریات میں ہی موجود
ہے۔پھر وہ ان ہی افکارات میں اپنی سیاسی،معاشی،معاشرتی زندگی کی بقاء تلاش کرنے لگا اور علمی، فکری اور
عملی طور پر خود کو ان کے رنگ میں رنگنے کے لیے جدّو جہد کرنے لگا۔اسی جہت کے صلے میں
آج تصورِ انسان اور تصورِ حیات کا بنیادی فرق
تعلیم کے ہر شعبہ میں نمایاں ہوگیا۔ پاکستانی فیصلہ سازوں کا اصل مسئلہ ان کی وہ فکری
اور ذہنی مرعوبیت ہے۔ جس کی بنا پر وہ لادینی مغربی تصورِ علم اور تصور تعلیم کے اتنا
عادی ہو چکے ہیں کہ وہ ان کے فکری سانچوں سے نکلنا بھی چاہیں تو باآسانی نہیں نکل سکتے
۔ کیونکہ وہ اسے ہی ترقی کی معراج سمجھتے ہیں۔
اور یہ حقیقت اب طشتِ از بام ہے کہ
"محکومانہ
ذہنیت، محکومیت سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہے"۔
*****
آج ہمارے قرب و جوار میں موجود اندازِ بیاں، اندازِ تعلق،
انداز ِفکر،غرض ہر طبقے کا اندازِ زندگی اسی محکومانہ ذہنیت کی عکاسی کرتا نظر آتا
ہے۔
جب معاشرے کی تشکیل میں ملحدانہ فکر غالب ہو اور اسلامی اندازِ زندگانی کی عمارت کو ڈھانا ہی مطلوب ہو۔
تو وہاں کا پراگندہ نظامِ تعلیم ہی اس مقصد کو عملی جامہ پہنانے میں معاون ثابت
ہوتا ہے۔
شومئی قسمت
کہ اسلامی مملکت پاکستان کا نظام تعلیم سیکولزم(Secularism) مٹریلزم (Materialism)اور ہیڈونزم (Hedonism)کے ارکانِ ثلاثہ پر ایمان باالغیب لانے کا ثمر ہے ۔جو مغرب کے نیو
کلونیالزم (Neo-colonialiom)کا
ماحصل ہیں۔ ہمارے نام نہاد دانشور اور فیصلہ سازی پر فائز مقتدرہ ان باطل ازموں کو
ہی انسانی فکر اور معاشرہ کی ترقی و ارتقاء کی بنیاد سمجھتے اور ہر
فکر جو ان ازموں سے ٹکراتی ہو اسے قدامت پسندی اور روایت پرستی قرار دیتے ہیں۔
کسی ملک یا
معاشرے کا نظامِ تعلیم صرف یہ نہیں بتاتا کہ
آپ نے کیا نصاب وضع کیا ہے ، آپ کون سی کتابیں پڑھا رہے ہیں اور مختلف درجات میں طلبہ کے اختتامی
امتحانات کیسے لیتے ہیں۔ بلکہ کچھ اور امور بھی نظامِ تعلیم کا بنیادی جزو ہیں ۔ یعنی
آپ تعلیم کون سی زبان میں دیتے ہیں، آپ تعلیمی اداروں میں کس طرح کی نصابی اور غیر
نصابی سرگرمیاں ترتیب دیتے ہیں، طلبہ و طالبات کی اخلاقی تربیت اور شخصیت کی نشوو نما
کے لیے کیا پالیسی وضع کرتے ہیں، تعلیمی ادارے کے ماحول کو کس سانچے میں ڈھالتے ہیں،
نیز آپ لڑکوں اور لڑکیوں کی صنفی ضروریات پوری کرنے کا کیا اہتمام کرتے ہیں۔
گویا
مخلوط تعلیم یا (Co-Education)کوئی
علیحدہ ایشو(Isolated Issue)نہیں
ہے بلکہ نظام تعلیم کا اساسی مسئلہ ہے۔ جس کا فیصلہ اس ذہنیت کی روشنی میں ہوتا ہے
جو ذہنیت فیصلہ سازی کے مقام پر فائزہے۔ بد قسمتی سے فیصلہ سازی کے مقام پر فائز محکوم ذہنیت کاغذی آزادی کے باوجود فکری آزادی سے
محروم اور حمیتِ اسلامی سے تہی دامن ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی پاکستان کا نظامِ
تعلیم سیکولر ہے جو اپنے لوگوں کو مسلمان نہیں بلکہ سیکولر نظریات سے مزین کرنے میں
مصروفِ عمل ہے۔
اور اسی جہد مسلسل کے عوض آج ہر عام و خاص کو بلاتفریق ان سیکولر اقدار کے ثمرات سے فیض یاب ہونے کا حقدار
قرار دیا گیا ہے۔
اور عوام کے فکر و نظر کے اردگرد مساوات کے نام پر بچھائی
جانے والی دبیز چادر ان آقاؤں کو ان کے پُر
فریب مقاصد میں کامیاب کرنے کے لیے سود مند ثابت ہورہی ہے۔
اگر ہم ماضی و حال کے دریچوں سے جھانکتے ہوئے حقیقت حال
کو تلاشنے کی کوشش کریں تو ان مضمراتِ ماہیت
تک پہنچنے کا سفر بہت جلد اختتام پذیر ہو جاتا ہے اور عقدہ کھلتا ہے کہ کسی بھی قوم
کے افکار کو پراگندہ کرنے کے لیے لازم ہے کہ اس کا نظام تعلیم اپنی مرضی کے مطابق طے
کرو۔کیونکہ یہ نظام تعلیم ہی ہے جو اس قوم
کی زبان،تہذیب و ثقافت اور روایات کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔
تو جب تک طرزِ معاشرت نہیں بدلا جائے گا اس وقت تک من چاہے
نتائج کی توقع رکھنا بے سود ہے۔
پھر یہ ہوا کہ ہماری نابغہ روزگار شخصیات نے ان جھوٹے آقاؤں
کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ان تمام باتوں سے اتفاق کیا اور اپنے آنگن نئ تہذیب کے
خیر مقدم کے لیے غیر آباد کرلئے تاکہ اس کو سکونت پذیر ہونے میں کسی دشواری کا سامنا
نہ کرنا پڑے۔
اسی باہمی گٹھ جوڑ کا نتیجہ تھا جس نے اس ملک کی زبان اور
اقدار کو ہی اپنے ملک میں بیگانہ کر دیا۔اور اس کی بنیاد میں موجود ان قربانیوں کو خراج تحسین
پیش کرنے کی کوشش میں یہاں پر ہر وہ نظام رائج کیا جس سے بچانے کے لیے اس وطن کی قیمت ادا کی گئی تھی ۔
جب دفتری زبان اغیار کی تھی تو تہذیب و ثقافت بھی اغیار
کی ہی رائج ہونا تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے
ہیں کہ ہمارے بچے آج
"الف" سے" اللہ "، الف' سے " انسان ", 'الف' سے ایمان " اور A" aa " Allah"
کے تصور کو نہیں جانتے۔
وہ 'ب' سے
" بسم اللہ, 'ب' سے " بیت اللہ" ، 'ب' سے " بیت المقدس "
'پ'سے
" پاکستان " , 'پ' سے " پرچمِ اسلام "
'میم'
سے "محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم" 'میم' سے" مسجد اور 'میم' سے
" مسلمان "
کے رموز سے آشنا
نہیں ہیں۔ اور فکر و تدبّر کا یہ سطحی سلیقہ
بھی اغیار کا نئی نسلوں کے لیے مدون کردہ اسباق
میں سے ایک تھا۔
تو ان حالات میں
مخلوط نظام تعلیم کا رائج ہونا کوئ حادثاتی امر نہیں تھا۔بلکہ اس کی تیاری بہت
پہلے سے شروع ہو چکی تھی۔
مخلوط تعلیم کی ابتدا امریکہ سے ۱۷۷۴ء میں ہوئی۔ انگلستان میں
اس کا آغاز ۱۸۷۰ء
میں ہوا اور ۱۹۰۲ء
میں وہاں مخلوط تعلیم کے لیے قانون پاس کیا گیا۔ فرانس میں ۱۸۶۷ء میں اسے قانونی جواز دیا
گیا ۔
اور پھر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت رفتہ رفتہ اس کو دنیا
کے ممالک میں رائج کروایا گیا۔
اور یہ فطرت سے مقابلہ آرائ کا ہی ماحصل ہے کہ ایک صدی میں
ہی اس ژولیدہ نظام کی تباہ کاریاں ہر سمت پھیل
گئی تھیں۔اور کوئ ذی شعور اس طوفان ِ بدتمیزی
کے آگے بن باندھنے کا عزم صمیم نہیں کرسکا۔
(Co-Education)
کا تصور صرف اسلام سے ہی متصادم نہیں بلکہ تمام الہامی مذاہب ( بشمول عیسائیت و یہودیت آجائیں بہت تحریفات
کے بعد بھی) مرد و زن کے آزادانہ اختلاط کو
ناپسندید کرتے ہیں۔اور نظریاتی و عملی دونوں پہلوؤں سے مخلوط نظام تعلیم کے مخالف ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ 1938ء کو آسٹریلیا میں تعلیمی اداروں کی دو
سٹریمز(streams)
سرکاری اور چرچ کے تعلیمی اداروں سے منسوب تھیں۔ جن میں سے چرچ کے تعلیمی اداروں میں
مخلوط تعلیم پر پابندی عائد تھی اور یہی ادارے تعلیم کے لحاظ سے برتر اور اشرافیہ کی
نگاہ میں سرکاری مخلوط اداروں کے مقابلے میں پسندیدہ ادارے تھے۔
اور چرچ کے ادارے
ہی معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے
تھے۔
******
کیلی فورنیا ڈیپارٹمنٹ آف ایجوکیشن کے ایک سروے کے مطابق
1940ء میں شعبہ تعلیم کے بڑے بڑے مسائل یہ تھے۔ باری کا خیال نہ رکھنا،
چیونگ گم چباتے رہنا، شور مچانا، کاریڈ ور میں دوڑتے پھرنا،
قطار توڑنا، یونیفارم کے مطابق مناسب لباس نہ پہننا ،کوڑا کرکٹ پھیلاناوغیرہ۔
1980ء تک اخلاقی ضابطہ ڈرامائی طورپر بدل چکا تھا جس کا 1940ء میں تصور بھی
نہیں ہو سکتا تھا۔
1980ء اور اس کے بعد کے رویوں میں انحراف کی صورت یہ تھی۔
ڈرگ
اور شراب کا بے محابا استعمال ، قبل از شادی حمل، خودکشی، زنابالجبر ، ڈاکہ زنی اور
تشدد۔
1994ء کی انحرافی فہرست میں جو خرابیاں شامل ہوئیں ان میں بالترتیب سکولوں میں
بندوق زنی، جنسی ہراس، اور منتقل ہونے والی جنسی بیماریوں میں بے تحاشہ زیادتی۔
تو
یہ بات ناقابل فہم لگتی ہے کہ کیا واقعی نئی نسل میں ان خرافات کی منتقلی اور فطری قوانین کی خلاف ورزی کا آغاز تعلیمی اداروں
سے ہوتاہے؟
(Teen
Age Sex) ، Teen Age
Pragnancy، AIDS
خاندان کا
انتشار ، بے تحاشا انفرادی نفسیاتی امراض، معاشرے میں پھیلنے والے بے باپ کے بچے اور
اسی طرح کی بے شمار سماجی خرابیوں کی اولین ذمہ دار تعلیمی اداروں میں مخلوط تعلیم
ہے ؟
مخلوط تعلیم کا یہ نظام بیسوی صدی کے آغاز میں سکاٹ لینڈ میں شروع ہوا ۔بعد
ازاں انگلستان کے کئی ایک سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے اس سسٹم کو اختیار
کرلیا۔ تحریک نسواں کے کارکنوں نے 1950ء سے مخلوط تعلیم کے توسیعی تصور کو آگے بڑھانا
شروع کر دیا تا کہ نہ صرف مرد و زن کام کی جگہوں پر ران سے ران ملا کر بیٹھیں بلکہ
سکولوں میں بھی لڑکوں اور لڑکیوں کے جبڑے اور گال آپس میں ٹکرائیں۔ قابل افسوس امر ہے کہ فی زمانہ اسلامی دنیا میں
بہت سی این جی اوز نے یہ ذمہ داری اُٹھائی ہے جو مغربی فنڈ نگ سے مخلوط تعلیم کو بڑھا
وا دینے میں مصروف ہیں اور ہمارے لیے باعث
شرمندگی کی بات ہے کہ دوسری طرف مغرب میں مخلوط
تعلیم کی تباہ کاریوں کو دیکھ کر کئی ایک دانشوروں نے سنگل سیکس ایجوکیشن کے حق میں
راہ ہموار کرنا شروع کر دی ہے۔
لڑکوں اور لڑکیوں کو ایک ہی کلاس روم میں بٹھا کر جو نقصانات اور خطرات پیدا
ہوتے ہیں وہ نفسیاتی بھی ہیں اور حیاتیاتی بھی۔ مشہور اسلامی سکالر ابن حزم (وفات456ہجری)
اپنی کتاب طولالحمامہ میں جو کہ محبت کنندگان کی نفسیات کے بارے میں ہے مخلوط مجالس
میں پیدا ہونے والے عوارض کے سلسلہ میں بیان کرتا ہے کہ وہ اسلامی زندگی کے لیے اجنبی
اور ان ہونے عوارض ہیں ۔نیز مردو زن میں ایسے رویے اور ایسی نفسیاتی کیفیت پیدا کرتے
ہیں جو پسندیدہ نہیں ہوتی۔
جدید اور لبرل سوچ والے لوگوں کو شاید یہ بات سادگی اور سطحی سوچ پر مبنی محسوس
ہو لیکن جدید سائنسی تحقیق بھی اس تصور کی معاونت (Support)نہیں کرتی ۔ ایک امریکن مصنف
جارج گلڈر اپنی کتاب جس کا نام ہے(Men and Marriage)میں لکھتا ہے کہ مخلوط تعلیم میں پڑھنے والے لڑکے اور لڑکیاں قبل از
وقت بلوغت کی سٹیج کو پہنچ جاتے ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر ہیریٹ ہنلن جو کہ ورجینا ٹیکنیکل
یونیورسٹی میں خاتون سائنسدان ہیں اس نے 284لڑکوں اور 224لڑکیوں کے اذہان کی سرگرمیوں
کا تجزیہ کیا جن کی عمریں 6ماہ سے 16سال تک تھیں۔ اس نے نتیجہ نکالا کہ ذہن کے وہ مراکز
جو زبان دانی سے متعلق ہیں وہ لڑکوں کی نسبت لڑکیوں میں 6سال تک زیادہ ترقی یافتہ تھے
اس کے مقابلہ میں (Spatial Ability)یعنی
مکانی ذہانت اور یاداشت کے حوالے سے لڑکے لڑکیوں سے 4سال آگے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کا زبان ریاضی اور جغرافیہ
نیز فزکس کی تعلیم کی کیفیت مختلف ہوتی ہے۔ اسی طرح لڑکے اپنی انگلیوں کا ارتباط لڑکیوں
کی نسبت 9ماہ بعد سیکھتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ لڑکوں کی انگلیوں کے اعصاب لڑکیوں
کی انگلیوں کے اعصاب کی نسبت بعد میں نشوو نما پاتے ہیں۔ ہاتھ کی انگلیوں کا یہ عشری
ارتباط ڈرائنگ اور خوش خطی سیکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ مختلف اذہان اور مختلف صلاحیتوں کے
حامل لڑکوں اور لڑکیوں کو جب کہ ان کے مستقبل کے لائف رولز بھی مختلف ہیں ایک ہی چھت
تلے بٹھا کر ایک طرح کی تدریس کس طرح منصفانہ ہو سکتی ہے اس میں لازماً کسی ایک کیٹیگری
کی حق تلفی تو ہو گی۔ یہ بات ان لوگوں کے سوچنے کی ہے جو انفرادی انسانی حقوق اور انصاف
سب کے لیے کے علم بردار ہیں۔
اب ہم انہی
نکات کا سیکولر نقطہ نگاہ سے تین چار پہلوؤں
کا جائزہ لیں گے:
1- سائیکلو لاجیکل پہلو (Psychologyical
Aspect)
انسانی نفسیات (Human Psychology)کے شعبہ میں جدید ترین تحقیق ہمیں لڑکوں اور لڑکیوں کے انفرادی اختلافات
کی طرف توجہ مبذول کراتی ہے ۔ لڑکوں اور لڑکیوں کی فزیکل ڈویلپمنٹ عمر کے مختلف ادوار
میں مختلف ہوتی ہے۔ان کی ذہنی نشوو نماکا پیٹرن بھی مختلف ہوتا ہے۔
لڑکوں
اور لڑکیوں کےAttitudes, Social Behavior, Aptitudes,
Interestsمختلف ہوتے ہیں۔ ان کے Developmental
Tasksمیں اختلاف ہوتا ہے۔
اگر
ہم جدید نفسیات کی تحقیق پر مبنی یہ سب باتیں مان لیں تو لڑکوں اور لڑکیوں کو ایک ہی
کلاس روم میں بٹھا کر ایک ہی طرح کی Educational Treatmentدینا
کسی ایک صنف سے لازماً نا انصافی ہو گی۔
2- سوشیولاجیکل پہلو(Sociological
Aspect)
سماجی طور پر لڑکیوں اور لڑکوں نیز مردوں اور خواتین کے رول مختلف ہیں۔سوشل
ریلشنز مختلف ہیں سماجی طور طریقے مختلف ہیں سوشلائزیشن کے انداز مختلف ہیں۔تعلیم سماجی
تربیت کرتی ہے جب کہ لڑکوں اور لڑکیوں کی سماجی ضروریات ، سماجی رویے اور سماجی نشوونما
کے تقاضے مختلف ہیں تو ایک چھت تلے مخلوط تعلیم سماجی نشوونما کے تقاضے پورے نہیں کر
سکتی ۔
3- تعلیمی پہلو (Educational
Aspect)
یہاں تعلیم سے مراد نصاب اور تدریس نصاب ہے۔ زندگی کے الگ الگ رولز نبھانے کے
لیے لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے الگ الگ نصاب کی ضرورت ہے۔ یہ توتسلیم کہ نصاب کے کچھ
حصے مشترک ہوں گے لیکن ان مشترک حصوں میں بھی عملی اور اطلاقی پہلو میں صنفی ضروریات
کے مطابق فرق رکھنا پڑے گا۔ بعض نصابی لوازمات میں عملی اور اطلاقی پہلو ایسے ہوں گے
جن کا بیان لڑکوں اور لڑکیوں کی مخلوط کلاس میں ممکن نہیں ہو گا۔
اسی کا دوسرا پہلو دوسرا پہلو جو تدریس نصاب یعنی (Delivery
of Curriculum)سے ہے اس میں بھی بعض اوقات صنفی فرق ملحوظ
ِ خاطر رکھنا پڑتا ہے۔ بیالوجی ، فزیالوجی اور سائیکالوجی پڑھاتے ہوئے کئی مقامات
ِ آہ و فغاں ایسے آتے ہیں جہاں استاد کے لیے مخلوط کلاس روم میں کھل کر بات کرنا ممکن
نہیں ہوتا اور اگر ایسا کرے تو کم از کم پاکستان کی حد تک کلاس روم کا ماحول پُر تقدس
نہیں رہتا۔ اسی طرح اگر کوئی ادارہ اخلاقی اور شرعی تعلیم و تربیت کا دعوٰی کرتا ہے
تو اس طرح کی لڑکوں اور لڑکیوں کی مشترکہ مجلس میں بامقصد بات نہیں کی جاسکتی۔
*****
اب ان نگارشات کو بھی مد نظر رکھتے ہوئے اغیار کے زاویہ
نگاہ کو بہتر طور پر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔مخلوط تعلیم کے چند ایک فوائد جو اس کے
حامی گنواتے ہیں وہ صرف یہ ہیں:
1۔ مخلوط تعلیم کا ماحول لڑکوں اور لڑکیوں میں
باہمی اعتماد کا ایک جذبہ پیدا کرنے میں معاون بنتا ہے۔
2۔ مخلوط تعلیم کے ادارے طلبہ و طالبات کو حقیقی
دنیا کے تجربات اور احوال سے روشناس کراتے ہیں۔
3۔ مخلوط تعلیم صنفی مساوات کے تصور کو پورا کرنے
کا باعث بنتی ہے۔
4۔ مخلوط تعلیم،تعلیمی مصارف کے لحاظ سے معاشی
طور پر زیادہ سود مند ہے۔
قدرت
کے قوانین پر نظر رکھنے والا شخص ان فوائد کی حقیقت کو اچھی طرح جانتا ہے کیونکہ اگر یہ فوائد ہوں بھی تو جو خطرات اور نقصانات
سامنے آتے ہیں ان کے مقابلے میں ان کی حقیقت باقی نہیں رہتی ۔
نقصانات
1۔ مخلوط تعلیم کا ماحول طلبہ و طالبات میں مطالعاتی
انتشار (Study distraction)کا
باعث بنتا ہے۔
2۔ مخلوط تعلیم میں جنسی مسائل جنم لے سکتے ہیں
جن کا ہم شروع کی سطور میں بیان کر چکے ہیں۔
3۔ ہماری نظر میں مخلوط تعلیم معاشرے پر بھی اور
فرد پر بھی بُرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔
4۔ طالبات کی تعلیمی حق تلفی۔ لڑکیاں فطرتاً شرمیلی
طبیعت کی ہوتی ہے اس لیے مخلوط تعلیم میں ان کیClass
Participationمتاثر ہوتی ہے۔
5۔ مخلوط تعلیم میں طلبہ و طالبات ذہنی انتشار
کا شکار رہتے ہیں جس سے ان کے تعلیمی معیارِ پر بُرا اثر پڑتا ہے۔
6۔ خاندانی نظام متاثر ہوتا ہے۔ والدین کی گرفت
ڈھیلی پڑ جاتی ہے۔
7۔ موجودہ ماحول میں جنسی بے راہ روی بے لگام
ہو جاتی ہے۔
8۔ جنسی بلوغت کا دورانیہ جلدی شروع ہو جاتا ہے
جس سے کئی ایک معاشرتی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
9۔ معاشرہ انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔ طلاق کی
شرح بڑھ جاتی ہے ٹوٹے گھرانوں کے بچے بد ترین مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔
10۔ اکیلی ماؤں کا کلچر پیدا ہوتا ہے۔
11۔ تعلیم کے بہت سے پہلو تشنہ رہ جاتے ہیں۔
زبان و ادب ،شعرو شاعری،آرٹ اور کلچر، صحت اور فزیالوجی فقہ کے مسائل پر کھل
کر گفتگو نہیں ہو سکتی۔
اور ان مخلوط مجالس
کا اولین اور سب سے بڑا نقصان یہ کہ مرد وعورت کا
حجابِ نظر ختم ہو جاتا ہے ۔
اور یہی وہ خرابی
کی ہے جس کی انتہا ایمان کی تباہی ہے۔
اور اس کی وعید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنائی ہے
کہ
اِنَّ
اللَّهَ كَتَبَ عَلَى ابْنِ آدَمَ حَظَّهُ مِنَ الزِّنَا، أَدْرَكَ ذَلِكَ لَا مَحَالَةَ،
فَزِنَا الْعَيْنَيْنِ النَّظَرُ، وَزِنَا اللِّسَانِ الْمَنْطِقُ، وَالنَّفْسُ تَمَنَّى
وَتَشْتَهِي، وَالْفَرْجُ يُصَدِّقُ ذَلِكَ وَيُكَذِّبُهُ ۔
(صحیح البخاری، ج 8، ص 125، رقم الحدیث :
6612، ط دارطوق النجاة )
" بے شک اللہ تعالى نے ابن آدم پر زنا میں
سے اسکا حصہ لکھ دیا ہے، وہ لا محالہ اسے پائے گا۔ آنکھوں کا زنا(شہوت سے کسی عورت
کو) دیکھنا ہے، اور زبان کا زنا بولنا ( زنا کی باتیں ) ہے، اور نفس (کسی عورت سے زنا
کی) خواہش اور طلب کرتا ہے، اور شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔"
اب اگر اس امر کی تصدیق ہوگئی تو رب العالمین نے سورۃ النور
میں اس کی سزا کی فرض کردی۔
اَلزَّانِیَۃُ
وَ الزَّانِیۡ
فَاجۡلِدُوۡا
کُلَّ وَاحِدٍ مِّنۡہُمَا
مِائَۃَ جَلۡدَۃٍ
۪ وَّ لَا تَاۡخُذۡکُمۡ
بِہِمَا رَاۡفَۃٌ فِیۡ دِیۡنِ
اللّٰہِ اِنۡ
کُنۡتُمۡ
تُؤۡمِنُوۡنَ
بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ
الۡاٰخِرِ ۚ
وَ لۡیَشۡہَدۡ
عَذَابَہُمَا طَآئِفَۃٌ مِّنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ
﴿۲﴾
زنا کار عورت
و مرد میں سےہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ
۔ ان پر اللہ کی شریعت کی حد جاری کرتے ہوئے
تمہیں ہرگز ترس نہ کھانا چاہیئے ، اگر تمہیں
اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہو ان کی
سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت موجود ہونی چاہیے ۔
(سورۃ
النور:آیت نمبر 2)
غیر شادی شدہ زانی
مرد و عورت کی سزا سو کوڑے جبکہ شادی شدہ
زانی مرد و عورت کی سزا رجم ( سنگسار کرنا) قرار ٹھہری۔
اس سزائے
رجم کا ذکر صحیح بخاری کی 42 احادیث،صحیح مسلم کی 23 احادیث،سنن ترمذی کی 16 احادیث،ابوداؤد
کی 37 احادیث، سنن نسائ کی 13 احادیث،سنن ابن ماجہ کی 10 احادیث اور السلسلۃ الصحیحۃ
کی 6 احادیث میں موجود ہے۔
ان شرعی قوانین کا نفاذ بھی اللہ الرحمن الرحیم کا نسل آدم کے ایمان، شرف اور خاندان
کی حفاظت کے لیے کیا گیا ایک التزام تھا۔تاکہ یہ انسان خواہشات نفسانی میں
بہہ کر اگر حیوانی جبلت اختیار کرنے پر آمادہ ہو تو یہ سزائیں اسے اس بدبختی سے بچانے
کی یاد دہانی ثابت ہوں۔ کیونکہ اس گناہ کی پاداش میں پیدا ہونے والے بچے کو کوئ خاندان
قبول نہیں کرتا اور جس انسان نے ہمیشہ انسانوں سے اپنے ناکردہ جرم پر دھتکار کمائی ہو تو وہ یقینًا اس ہزیمت کا بدلہ
لینے کے لیے شیطانی سوچ اپنانا پسند کرے گا۔
یہی وجہ ہے کہ نامور
اوباشوں کی اکثریت ولد الزنا ہوتی ہے اور لوگوں کے رویوں نے ان کو اس حد تک سنگدل بنادیا
ہوتا ہے کہ دین و دنیا سے محروم یہ انسان حیوانی اور شیطانی صفات سے بہرہ ور ہو کر معاشرے میں دھند ناتے پھرتے ہیں۔ اور کتنے ہی ولد
الزنا کی پیدائش کا سبب بن جاتے ہیں۔
ہم ماضی میں اس گناہ کے مرتکب افراد پر جہالت کا الزام عائد
کر بھی دیں۔ تو آج کے ان تعلیمی اداروں سے منسلک اشخاص کے اعمال پر کیا رائے قائم کریں
گے؟ ان کو کس طرح ان گناہوں سے بری الذمہ قرار دیں گے؟ جس ماحول میں
سر عام فحاشی و عریانی کا سامنا ہو
وہاں خاص طور پر اشرف المخلوقات کے
حامل انسان کو اپنے اس خاصیت سے پہلو تہی برتنے کی ذہنی تربیت کی جاتی ہے۔
جی ہاں! اب جس مخلوط نظام تعلیم نے نسلوں کے ایمان میں بگاڑ
پیدا کرنا تھا تو اس نے اپنے زیر سایہ پروان
تربیت پانے والی نسل کی حفاظت کچھ اس انداز میں کی کہ والدین اپنی تربیت کو اس کے مقابلے میں ناپسند کرتے
ہوئے خود اپنے ہاتھوں اپنے بچوں کو اس کے سپرد کر کے غفلت کی نیند سو گئے۔
" تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ
کیوں لٹا
مجھے رہزنوں
سے گلا نہیں تری رہبری کا سوال ہے"
ہاں مجھے ان والدین سے شکوہ ہے جنہوں نے اپنی اولاد کو اپنے
ہاتھوں اخلاقی طور پر قتل کر دیا۔
یہ والدین کی اس نظام تعلیم کو تیاگی ہوئی نوجوان نسل ہے۔ جو بیٹھتی ہر کلاس میں ہے مگر پڑھتی ایک بھی
نہیں۔ محنت کو وقت کا ضیاع سمجھتی ہے اور حلال اور حرام میں تفریق سے لابلد ہوتی جا
رہی ہے۔
یہ والدین کی لاپرواہی کا نتیجہ ہے کہ ان کی نگاہوں کے سامنے اولاد خلوتوں اور جلوتوں میں گناہ
گاروں کے ساتھ صحبت اختیار کرتی ہے مگر وہ چشم پوشی سے کام لیتے ہوئے ۔آنے والے طوفان
سے خود کو محفوظ و محصور سمجھتے ہیں۔
اگر کسی فاقہ کش شخص کو ایک خوب صورت اور پر رونق ریسٹورنٹ
میں بھیج دیا جائے۔ جہاں پر انواع و اقسام کے اشتہاء انگیز خوان الوان سجائے گئے ہوں۔اور مزید ستم یہ کہ خوان پوشی کا انتظام اور کوئ رکاوٹ
بھی موجود نہ ہو۔ تو اس دلفریب مناظر میں وقت گزارنے والے انسان کو واپسی پر آپ کے
ساتھ دال روٹی کھانے کی طلب ہوگی ؟ یا اسے کچھ لمحے آپ کے ساتھ گزارنے کی فرصت ملے
سکے گی؟
********
اگر پھر بھی کوئ نیک ذہن اپنی نگاہ کے جھکاؤ،عفت کی حفاظت اور ایمان کی تکمیل کے لیے والدین
کے روبرو شادی کی خواہش کا اظہار کرنے کا حوصلہ
پیدا کرلے تو ایک عرصہ تک اس کی بات کو محض چٹکلہ سمجھ کر سنا جاتا ہے ۔اور اگر اس
کی اس معاملے میں سنجیدگی کا احساس ہوجائے
تو وہی دنیا کے سامنے اپنا شملہ اونچا رکھنے کی آرزو میں اس کو نوکری،کوٹھی ،گاڑی اور ذات برادری کے الجھنوں میں ڈال کر حرام راستے
اس کے لیے مزید آسان اور عام کردئیے جاتے ہیں۔ انہی اسلام سے متصادم تمناؤں،اور والدین
کے ارمانوں کو فی الفور پورا نہ کرنے کی سکت کی وجہ سے آج کی نوجوان نسل کا التفات حرام محبتوں میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا
رہ گیا ہے۔ اور ان کو ادراک نہیں کہ اس عمل
کی حیثیت محض اتنی سی ہے کہ
” نا محرم کے عشق میں اس قدر فساد ہے، جس کا احاطہ
سوائے رب العالمین کے کوئی نہیں کر سکتا۔ اور یہ ایسا مرض ہے کہ جو پہلے عاشق کا دین
برباد کرتا ہے، پھر ہو سکتا ہے اس کی عقل اور اس کا جسم بھی برباد کر دے۔“
- |[
شیخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله || مجموع الفتاوى : ١٣٢/١٠ ]|
ایک عورت
کا گھر کی دہلیز پار کرتے ہی شیطان پیچھا کرتا ہے اور اس کو نامحرموں کے سامنے پرکشش
پیش کرتا ہے۔
اب اگر وہ پردہ نشیں اور صاحب تقویٰ ہو تو اللہ کی حفاظت
میں رہے گی۔ نہیں تو ازل سے صنف نازک اپنی
تعریف،منفرد اور خوب صورت نظر آنے کی چاہ اور کوشش میں اس عمل کے منطقی انجام سے بے
خبر رہ کر اکثر شیطان لعین کے دلفریب جھانسے میں الجھ کر تبرج جیسے ہتھکنڈوں سے صنف
قوّی کے ایمان اور اپنے عزت و آبرو کو نقصان
پہنچاتی رہی ہے۔
اسی وجہ سے اسلام میں مرد و عورت کی مخلوط مجالس پر پابندی
عائد کی گئی۔
کیونکہ اللہ عزوجل نے نہ صرف مرد اور عورت کی جسمانی ہیئت
مختلف بنائ بلکہ ان دونوں کی ذمہ داریاں بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اور ان دونوں
کے اندازِ زندگی بھی ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ فطری طور پر یہ
دونوں اصناف اس بات کی متقاضی ہیں کہ ان کی تعلیم و تربیت کا ماحول ایک دوسرے سے مختلف
اور علیحدہ ہونا چاہیے۔
مگر ان فطری اور
عقلی اصولوں سے روگردانی پر آج خاندانی نظام
اور
مختلف اصناف
کے باہمی تعلقات میں گڑ بڑ ہو گئی ہے۔ کبھی کوئی یہ تصور نہیں کر سکتا تھا کہ تمام یورپی اقوام کی نمائندہ
یورپین پارلیمنٹ ہم جنسی (Homosexual)تعلقات کو قانونی شادی کے برابر تسلیم کیے جانے کی تجویز دے گی۔ حالات
کچھ اس سمت کو گامزن ہو چکے ہیں کہ اب عورت ، عورت کی طرح کا اور مرد ، مرد کی طرح
کا رویہ نہیں رکھتا یہی وجہ ہے کہ اب خاندان کا شیرازہ پہلے کی طرح نہیں رہا ۔خاندان
جو تہذیب تمدّن کی بنیادی اکائی تھی اور جو
انسانی شرف کی نمائندگی کرتا تھا اب اُسے ایک متروک اور رجعت پسند تصور بنا دیا گیا
ہے۔
امریکہ کے پبلک ایجوکیشن سسٹم میں اوائل عمری ہی سے اخلاقی
اقدار کی نفی بالکل اظہرمن الشمس ہے۔ ہمیں
ان مسائل کا حل تلاش کرنے سے پہلے بنیادی طور
پر اپنے ہاں رائج نظامِ تعلیم پر غور کرنا ہو گا۔ جو انسان سازی کا بنیادی آلہ (Instrument)ہے۔
برصغیر پاک وہند میں انگریزوں کی آمد نے جہاں نظامِ سیاست
کے ساتھ ساتھ کم وبیش زندگی کا ہر شعبہ تہہ وبالا کردیا تھا، وہاں تعلیمی شعبہ کا متاثر
ہونا ایک لازمی بات تھی؛ تاہم یہ کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ نئی روشنی کے علم بردار
اس موضوع پر بھی اپنی رعایا سے وہ بدترین انتقام لیں گے جس کی مثال صدیوں میں بھی نہیں
ملے گی۔
بہ قول ڈاکٹر احسن اقبال:
”انگریزوں کی پوری کوشش یہ تھی کہ ہندوستانی باشندے
زیادہ سے زیادہ جاہل رہیں،ان کا خیال تھا کہ تعلیم حاصل کرکے یہ لوگ ہمارے اقتدار کے
لیے خطرہ بن جائیں گے؛ اس لیے اگر تعلیم کا نظم کیا بھی تو وہ محض عیسائیت کے لیے؛
ورنہ اعلیٰ تعلیم کا ہندوستانی باشندوں کے لیے کوئی نظم نہ تھا“۔
اقبال حسن
خان، ”شیخ الہند مولانا محمود حسن حیات اور علمی کارنامے“ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی
گڑھ ۱۹۷۳/ ص:
* ۳۹
دراصل انگریز اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ اگر برصغیر
میں مغربی طرز کے تعلیمی ادارے کھولے گئے تو اس سے عوام میں بیداری آئے گی اور جس طرح
امریکہ وغیرہ میں جدید علوم کی درس گاہیں قائم ہوجانے کے بعد ہمیں امریکیوں کو آزادی
دینی پڑ گئی تھی اسی طرح برصغیر جوکہ سونے کی چڑیا سے کم نہیں ہے؛ اگر ہم نے یہاں پر
جدید تعلیمی ادارے قائم کردیے تو ایک نہ ایک دن ہمیں یہاں سے لازماً بوریا بستر گول
کرنا پڑے گا؛ اس لیے بہتر یہی ہے کہ یہاں کے لوگوں کو تعلیمی لحاظ سے پسماندہ رکھا
جائے۔"
"تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کو اپنی
رائے بدلنی پڑی؛ چنانچہ وائسرائے ہند لارڈمنٹونے اس مقصد کے لیے ایک طویل یادداشت کورٹ
آف ڈائریکٹر ان کو بھیجی کہ علم کا روز بہ روز زوال ہورہا ہے اور ہندوؤں اور مسلمانوں
کی مذہبی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے دروغ حلفی اور جعل سازی کے جرائم بڑھ رہے ہیں؛ اس
لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیم وتربیت پر زیادہ سے زیادہ روپیہ خرچ کیاجائے اور کالج
وغیرہ کھولے جائیں۔ آخر بڑی تگ ودو کے بعد ہندوستانیوں کو تعلیم دینے کے لیے ایک کمیٹی
قائم ہوئی جس کی سفارش پر تعلیم دینے کے لیے ایک لاکھ روپیہ کی سالانہ گرانٹ منظور
کی گئی؛ تاہم اس قانون کا سب سے زیادہ فائدہ چارلس گرانٹ کی طرح عیسائی مبلغین کو پہنچا
جو برصغیر کو بحیثیت مجموعی عیسائی بنانے کی آرزو رکھتے تھے۔ اس طرح حکومتی سرپرستی
میں کئی تعلیمی ادارے قائم ہوئے جہاں انگریزی کی آڑ میں عیسائیت کی تعلیم دی جاتی تھی۔
مثلاً کلکتہ کا اینگلوانڈین کالج (۱۸-۱۸۱۷/)
بنارس کا جے نرائن کالج (۱۸۲۱/) اور آگرہ کالج (۱۸۲۳/) وغیرہ"
"۱۸۳۳/میں جب اتفاق سے یہی چارلس
گرانٹ ایسٹ انڈیا کمپنی کے بورڈ آف کنٹرول کے صدر منتخب ہوئے تو برطانوی دارالعوام
میں ہندوستان کی مذہبی اور اخلاقی ترقی کے متعلق ان کی تجویز کثرت رائے سے منظور ہوگئی۔
اس طرح برصغیر میں پادریوں کی آمد اور عیسائیت کی نشر واشاعت کے لیے گویا وہ پورا پھاٹک
ہی کھل گیا ،جس کی پہلے صرف ایک کھڑکی کھلی تھی۔"
منگلوری،
طفیل احمد سید ”مسلمانوں کا روشن مستقبل“ حماد الکتبی شیش محل روڈ لاہور (س ن) ص:۱۶۲-۱۶۴,ص:۱۶۸-۱۶۹،ص:۱۷۰۔
ان پادری حضرات نے اہلِ ہند کے مذاہب؛ خاص کر دینِ اسلام
پر تابڑ توڑ حملے کرکے پورے ملک کو فرقہ وارانہ مناظروں کی آگ میں جھونک دیا جس کے
نتیجے میں مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا رحمت اللہ کیرانوی، مولانا منصور علی خان
اور ڈاکٹر وزیر خان کی طرح علماء حق نے میدان میں آکر اہلِ باطل کا مقابلہ کیا اور
اسلام کی حقانیت پر عیسائیوں اور ہندوؤں سے فیصلہ کن مناظرے کرکے دنیا کو وہ علمی سرمایہ
فراہم کیا جو اپنی مثال آپ ہے اور ہماری ملی تاریخ کا جلی عنوان ہے۔"
الف: رضوی،
سید محبوب ”مکمل تاریخ دارالعلوم دیوبند“ میرمحمد کتب خانہ مرکز علم وادب آرام باغ
کراچی جلد۱،
ص:۱۱۷-۱۲۰۔
***********
جاری ہے۔
Comments
Post a Comment