معذور بھی انسان ہوتے ہیں
ڈاکٹر بابر جاوید
اورنج
ٹرین کئی کہانیوں کو ساتھ لے کر چلتی ہے،اس میں سفر کرتے ہوئےمیں روز ایک نئی بات سیکھتا
ہوں۔میں سمجھتا ہو ں کہ اس میں جتنے بھی مسافر سفر کرتے ہیں،سب اپنی اپنی ذات میں ایک مکمل کہانی ہوتے ہیں،یہ الگ بات ہے کہ یہ کہانیاں
کبھی کھلتی نہیں ۔آج صبح سات بجے میں ٹرین میں سوار ہوا تو اکا دکا مسافر ہی تھے۔ایک
دو اسٹیشن چھوڑ کر اس میں چار لڑ کیاں سوار ہوئیں،جن میں سے ایک معذور تھی،وہ غالباً
پولیو کا شکار تھی،جب کہ باقی تین لڑکیاں خاصی
شوخ تھیں اور شاید اس بات پر اترا رہی تھیں
کہ وہ کسی یونیورسٹی کی طالبات ہیں لیکن افسوس کہ ان کو تمیز چھو کر بھی نہیں گزری
تھی۔یہ لوگ آپس میں باتیں کر رہی تھیں اور باتو ں باتوں میں ان میں سے ایک لڑکی نے
معذور لڑکی کو اس کے اپاہیچ ہونے کا طعنہ دے دیا۔اچھا، میری توجہ ان کی طرف نہ تھی
لیکن ان کی باتٰیں مجھے سنائی دے رہی تھیں۔ کچھ دیر بعد میں نے دیکھا کہ وہ معذور لڑکی
آنکھوں میں نمی لیے باہر کی جانب دیکھ رہی تھی،مجھے تب بھی محسوس نہ ہوتا کہ وہ کس
کرب سے گزر رہی ہے لیکن اس کی آنکھ سے گرتے آنسو ئوں نے مجھے بھی رنجیدہ سا کر دیا۔اچانک
اس نے دیکھا کہ میں نے اس کے آنسو دیکھ لیے ہیں تو وہ شرمندہ سی ہو گئی اور آنکھ صاف کر کے یو ں ظاہر کرنے لگی جیسے کچھ ہوا
نہیں،میں نے اسے آواز دی اور کہا بیٹے ادھر میری ساتھ والی نشست پر آ جائیں،
میں آپ کو ایک کہانی سنانا چاہتا ہوں،شاید میری نرم آواز نے اسے اعتماد دیا اور وہ میری ساتھ والی سیٹ پر آن بیٹھی۔ میں نے اسے بتایا
کہ
آپ
جیسی ایک اور بھی بیٹی دنیا میں آئی تھی لیکن اس نے اپنی معذوری کو اپنی کمزوری نہیں
بننے دیا۔اس کا نام ویلما روڈولف تھا،وہ ایک
معمولی گھرانہ میں پیدا ہونے والی لڑکی تھی جو پولیو کی وجہ سے چلنے سے معذور تھی،
ڈاکٹروں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ وہ کبھی چل نہیں پائے گی،ڈاکٹروں نے اس کے پیر میں
Brace
لگادیا تاکہ اس کے سہارے وہ چل سکے۔ جب وہ نو برس کی ہوئی تو ڈاکٹروں
نے آرتھوپیڈک جوتے کے استعمال کی صلاح دی۔ ویلما کے پیر گرچہ کمزور تھے مگر ا س کے
حوصلے انتہائی بلند تھے، وہ دوسرے بچوں کو دوڑتے بھاگتے دیکھتی تھی تو سوچتی تھی کہ
وہ بھی دوڑنا چاہتی ہے، ایک روز ویلما نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ نہ صرف دوڑنا چاہتی ہے،
بلکہ وہ دنیا کی سب سے تیز دوڑنے والی لڑکی بننا چاہتی ہے۔ اس فیصلے کے بعد اس نےتکلیف اور درد کے باوجود چلنے کی پریکٹس شروع کر دی اوراس نے آہستہ آہستہ چلنا شروع کیا
اور ایک دن ایسا آیا کہ وہ بغیر کسی سہارے کے چلنے لگی۔ 1952ء یعنی گیارہ سال کی عمر
میں وہ دوڑنے لگی۔ ویلما کہتی ہے کہ ا سوقت میں اپنی گلی اور محلہ کے تمام لڑکوں اور
لڑکیوں سے کودنے پھاندنے اور ریس کا مقابلہ کرنے لگی تھی۔
ویلما
جس اسکول میں پڑھتی تھی وہاں وہ کھیل کود میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھی اس کے اسکول
میں باسکٹ بال کھیلاجاتا تھا جس میں وہ دوسرے طلباء کے ساتھ کھیلتی تھی مگر ویلما کی
ایک خوبی ایسی تھی جو دوسرے بچوں میں مفقود تھی، وہ دوڑتی بہت تیز تھی، اسکول کے کوچ
نے ویلما کی اس خوبی کو نوٹ کیا اور اسے مشورہ دیا کہ باسکٹ بال کے بجائے وہ اسپرنٹس
میں حصہ لے۔ اسپرنٹس مختصر فاصلے کے دوڑکے مقابلے کو کہا جاتا ہے۔ ویلما نے دوڑنے کی
باقاعدہ ٹریننگ لینی شروع کی اور بہت جلد ہی نیشنل اور انٹرنیشنل مقابلوں میں حصہ لینے
کے قابل ہوگئی۔ اسی درمیان آسٹریلیا کے میلبورن میں اولمپک کا مقابلہ ہونے والا تھا
، ویلما نے اس میں حصہ لیا اور کانسی کا تمغہ جیتا۔ یہ1956ء اولمپکس گیم تھا اور ویلما
کی یہ پہلی جیت تھی، اس وقت ویلما کی عمر سولہ سال تھی۔ 1960ء کے اولمپک گیمس سے پہلے
ہی ویلما نے دوسو میٹر کی ریس 22.9سیکنڈ میں جیت کر ورلڈ ریکارڈ قائم کردیا تھا، اور
1960ء میں روم کے اولمپکس ریس میں سو میٹر11.3سیکنڈ، دو سو میٹر23.2سیکنڈ اور
4×100میٹر کی ریس جس کی وہ ٹیم ممبر تھیں 44.4سیکنڈ میں جیت کر تین گولڈ میڈل جیت لیا۔اس
طرح ایک معذور لڑکی امریکہ کی وہ پہلی خاتون کھلاڑی بن گئی جس نے ایک ہی اولمپک میں
تین ریسوں میں لگاتار جیت کر تینوں گولڈ میڈل اپنے نام کیے تھے۔ ویلما کو جہاں بہت
سارے انعامات و اعزازات سے نوازا گیا وہیں امریکی حکومت نے ویلما کے نام سے ایک ایوارڈ
کا آغاز کیا جو خواتین کھلاڑیوں کی شاندار کارکردگی پر دیا جاتا ہے۔ اس ایوارڈ کا
نام ویلما روڈولف کریج ایوارڈ ہے ۔
بیٹے
اس کہانی سے اپ کیا نتیجہ نکالتے ہو ،یہ آپ پر منحصر ہے۔اس اثنا میں میرا اسٹیشن آ
گیا اور میں خدا حافظ کہہ کر دروازے کی طرف لپکا لیکن جانے سے پہلے میں نے دیکھا کہ
اس لڑکی کے چہرے پر ایک تمانت تھی جیسے وہ بھی ویلما بننا چاہیتی ہو،جب کہ اس کی ساتھی
لڑکیوں کے منہ پر شرمندگی کہ لہر دیکھ کر اطمینان ہوا کہ شاید ان کو میری کہانی کا
کوئی اثر ہوا ہے۔
*****
Comments
Post a Comment