’’بھارتی دلت‘‘ کی بیٹی پروفیسر کیسے بنیں؟
ڈاکٹر بابر جاوید
کل
رات ٹیلی ویژن پر بھارت کے سٹار ہدایت کار،پیش کار اور اداکار عامر خان کسی خاتون کا
انٹرویو کر رہے تھے۔خاتون نے بہت نفیس مگر سادہ کپڑے پہنے تھے اور وہ بہت ہی شاندار
شخصیت کے طور پر سوالوں کے جواب دے رہی تھیں۔ان کے چہرے سے تقدس جھلک رہا تھا ،وہ انتہائی
نرم لہجے میں باتوں کے پھول برسا رہی تھیں،ایک موقع پر بات کرتے ان کی آنکھوں سے آنسو
بھی ٹپکے لیکن جس حوصلے اور برداشت سے وہ بات
کر رہی تھیں وہ قابل تحسین ہے۔رہی سہی کسر عامر خان نے پوری کر دی، عامر خان بھی انتہائی
انہماک سے اس خاتوں کی بات سن رہے تھے اور ساتھ ساتھ اپنے چہرے کے تاثرات سے اس خاتون
کی بات کو اہم بنا رہے تھے،ایک موقع پر عامر خان بھی رو دئیے۔اب میں آپ کو بتا ہوں
کہ یہ خاتون کون تھیں،ان کا اب کا تعارف دہلی یونیورسٹی کی سینئر پروفیسر کا ہے۔نام
ان کا کوشال ہے اوروہ ایک ڈیپارٹمنٹ کے ڈین
ہیں اور اگر ان کے ماضی کا تعارف کروایا جائے تو ان کا تعلق دلت کھرانے سے ہے،اب سوال
ہے کہ دلت کون ہوتے ہیں؟
دلت
بھارت میں ایک اقلیت ہیں جن کی آبادی لگ بھگ 20 کروڑ ہے جو تاریخ میں ہندو طبقاتی
نظام میں اچھوت کے طور پر رہے ہیں اور انہیں ہمیشہ معمولی نوکریاں دی جاتی تھیں۔ یہ
اس سے قبل اچھوت، یا جن کو چھوا نہ جا سکے، کے نام سے بھی جانے جاتے تھے۔یہ ایسی اقلیت
کی نمائندگی کرتے ہیں جسے مختلف طریقوں سے دبایا جاتا ہے اور ان کی سماجی ترقی کی راہ
میں مشکلات کھڑی کی جاتی ہیں اور تعصب برتا جاتا ہے ہمارے یہاں ان لوگوں کے چوڑے کہا
جاتا ہے،اور یہ لوگ پہلے گھروں کا کوڑا کر کٹ اٹھایا کرتے تھے اب تو فلیش سسٹم آ گیا
ہے اس سے پہلے یہ لوگ لیٹرینیں بھی صاف کیا کرتے تھے۔
کوشال
بتاتی ہیں کہ کس طرح ان لوگوں کو استحصال کیا جاتا رہا،وہ بچپن سے ہی اپنی تائی کے
ساتھ لوگوں کی غلاضت اٹھانے کا کام کیا کرتی تھیں لیکن اسے سکول جانے کا شوق تھا،اس
کے باپ نے تمام تر مخالفتوں کے باجود اسے سکول داخل کروایا جہاں اسے باقی کلاس سے الگ
بٹھایا جاتا تھا ،وہ ہر روز ان اونچی ذات کے بچوں کے ہاتھوں تضحیک کا نشانہ بنتی تھیں
لیکن اس کے تعلیم حاصل کرنے کے عزم میں کبھی فرق نہیں آیا،ایک مرتبہ اس کی استانی
نے اسے صرف اس بات پر شدید تشدد کا نشانہ بنا ڈالاکہ اس نے اونچی ذات کے ایک دوسری
طالبہ کے برتن کو چھو لیا تھا۔ بھارت میں اچھوت سمجھے جانے والے دلتوں کے قتل، اغوا
اور ان کی خواتین کو زیادتی نشانہ بنانے کے واقعات اکثر منظرعام پر آتے رہتے ہیں۔لیکن
کوشال پڑھتی رہی ،نہرو یونیورسٹی سے انہوں نے ایم اے کیا اور ایم اے کرنے کا خرچ سڑکوں
پر جھاڑو لگا کر اور بننے والی سڑکوں پر بجری
پھینک کر ملنے والی اجرت سے کیا۔اس جرات مند کوشال کو سلام،
وہ معاشرے میں دبے ہوئے طبقات کی نمائیندہ خاتون ہیں،اور
غریب لڑکیوں کے لیے ایک رول ماڈل ہیں۔
یہ
انٹرویو دیکھ کر میں بھی پُر نم ہوا اور سوچنے لگا،یہ کیا ہے؟ہم ذات پات میں کیوں اٹکے
ہوئے ہیں،یہ لعنت صرف بھارت میں ہی نہیں ہمارے یہاں بھی ایسی تقسیم بدرجہ اتم موجود
ہے۔ یہاں بھی چھوٹی ذاتوں سے نفرت کی جاتی ہے۔اللہ پاک تو یہ فرماتے ہیں کہ ’’ہم نے
تمہیں مختلف قبیلے اس لئے بنایا کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو۔اللہ کے نزدیک عزت والاوہی ہے جو تم میں پرہیزگارہو۔‘‘
یہ حقیقت ثابت ہو چکی کہ معاشروں
میں نسل، ذات پات اور فرقہ وارانہ تقسیم اور اس کی بنا پہ نفرت وہ طبقہ پیدا کرتاہے جو معاشی وسائل پر قابض ہو کر استحصال کرتا ہے۔
اور مظلوم نسلوں یا ذاتوں کی کمتری کو ثابت کرنے کے لیے فضول اور من گھڑت دلیلیں پیش
کرتا ہے۔ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ ہر فرد کو، بلا تفریق رنگ، نسل، ذات اور مذہب، خدا
نے قابلیت دی ہے اور عزتِ نفس دی ہے۔ اگر برابری کے حقوق اور مواقع دیے جائیں تو ہر
قسم کا فرد ترقی کے مراحل طے کرسکتا ہے۔ آج ہمیں چاہیے کہ شعور حاصل کریں، تاریخ کا
مطالعہ کریں۔ انسانیت دوست نظریہ اپنائیں اور ہر مسئلے کا سیاسی اور معاشی پہلو سے
جائزہ لیں۔ اسی میں ہی ہماری نجات ہے۔
*************
Comments
Post a Comment