Aman kese qaim ho Article by Hina Shahid

امن کیسے قائم ہو۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟

تحریر     حناء شاہد

ہم اس وقت تاریخ کے لہو رنگ موڑ پر کھڑے ہیں۔ ہلاکو اور چنگیز کے وارث انسانیت کی قبائے نور کو تار تار کر رہے ہیں۔ انسانی خون آب ارزاں کرنے والے عصر حاضر کے نمرود انسانی لاشوں کے ڈھیر پر کھڑے ہیں۔ اور زرائع ابلاض کی چکا چوند کا سہارا لے کر طاقت ور کمزور پر حکمرانی کا دعویدار ہے۔ اچانک تاریخ انسانیت اس اولاد تار تار کے سامراجی طلسم کو پارا پارا کر دیتی ہے۔ اور وقت کی ایک ہی جست میں ہمیں چودہ سو سال پہلے کے خطہ حجاز میں لے جاتی ہے۔ وہ خطہ حجاز جہاں امن و سلامتی کا بول بالا تھا۔ جہاں حقوق و فرائض سرانجام دیے جاتے تھے۔ جہاں آنکھوں میں بینائی، زبان میں گویائی، قوتوں میں رسائی اور سوچ میں دانائی تھی۔ لیکن آج چہار سو قتل و غارت گری کا سامان ہے۔ عصمت و عفت کے آبگینے بے لگام ہاتھوں میں اپنی وقعت کھو رہے ہیں۔ جہاں سچ عیاری کی زد میں ہے اور جہاں ظلم و ستم حد سے تجاوز کر گیا ہے۔

کہاں ہے ارض و سماں کا خالق کہ چاہتوں کی رگیں کریدیں

ہوس کی سرخی رخ بشر کا حسین غازہ بنی ہوئی ہے

کوئی مسیحا ادھر بھی دیکھے کوئی تو چارہ گری کو اترے

فلک کا چہرہ لہو سے تر ہے زمین جنازہ بنی ہوئی ہے

امن کا مطلب سکون، چین، آرام صلح، پناہ اور حفاظت کے ہیں۔ اس کے دو پہلو ہیں۔ بین الاقوامی امن اور دوسرا وطن عزیز کا معاشرتی امن۔۔۔۔۔۔!!!

ہر معاشرہ دوسرے معاشرے سے منسلک ہے۔ ایک ملک دیگر ممالک کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا۔ یوں پوری دنیا گلوبل ویلج بنی ہوئی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ہونے والی سیاسی معاشی، علمی و سائنسی سرگرمیاں لامحالہ ہر ملک کی معیشت پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ لہذا ایک معاشرے کے امن کا سلسلہ بین الاقوامی امن سے پیوست ہوتا ہے۔ اور اسی سطح پر امن قائم کرنے کی پذیرائی نصیب ہوتی ہے۔ تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت آشنا ہوتی ہے۔ کہ انسان نے جب سے دریاؤں اور سمندروں کے قریب جا کر بستیاں بسا کر رہنا شروع کیا۔ تو اسی وقت سے تمدن کا سورج بھی طلوع ہوا۔ نیم وحشی اقوام یا صحرائی اقوام متمدن معاشروں کو لوٹ کھسوٹ کے بعد آگ لگا دیتے تھے۔ اس طرح کچھ عرصہ بعد افواج رکھنے کا خیال پیدا ہوا۔ معیشت کی مضبوطی کے لیئے ہر ملک اس طرح کے اقدامات کرتا ہے۔ جس سے وہ ملک میں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھ سکے۔

جدھر بھی جانا محبتوں کی ایک محفل اجال رکھنا

ہمارے بس میں نہیں ہے یارو! عداوتوں کو سنبھال رکھنا

کہیں ہیں سنی، کہیں وہابی، کہیں ہیں سندھی، کہیں بلوچی

ہزار ٹکڑوں میں بٹ رہا ہے، میرے وطن خیال رکھنا

پاکستان کا قیام اسلام کی مرہون منت ہے۔ اسلام امن و آشتی کا مذہب ہے۔ یہ واحد نظریاتی ریاست ہے۔ جو اسلام کی سربلندی کے لیے وجود میں آئی۔ پاکستان کو وجود میں لانے کے لیے اس سرزمین نے خون کے فوارے اگلے تھے۔ اس کے لیے مسلمان خواتین نے عزت و ناموس کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ وہ نظریاتی مملکت جو اس عزم کے ساتھ وجود میں آئی تھی کہ وہاں اسلامی ضابطہ حیات کو فروغ حاصل ہو گا۔ تمام لوگ امن و امان سے زندگی بسر کریں گے۔ آج ہم بحیثیت ایک قوم اس عزم کو شرمندہ تعبیر نہیں کر سکے ہیں۔

لہو برسا، کٹے رہرو، بہے آنسو، کٹے رشتے

ابھی تک نامکمل ہے ، مگر تعمیر آزادی

ہمارے معاشرے میں امن و امان کی خراب صورتحال کے بےشمار اسباب ہیں۔ علاقائی سیاست، سیاسی فرقہ بندی، لسانی امتیازات الغرض۔۔۔۔۔! مذہبی و نسلی منافرت بھی ان اسباب میں سے ایک سبب ہے۔ پاکستان کی سرحدوں پر امریکی افواج کا تسلط اور وزیرستان میں ڈرون حملوں نے امن و امان تباہ کر دیا ہے۔پاکستانی سیاست کا اگر جائزہ لیا جائے تو مسلسل فوجی آمریت نے جو زخم لگائے ہیں ۔ وہ آج ناسور بن گئے ہیں۔ قوم اور ملک کے نام پر لوگوں کے جذبات کا بھڑکایا جاتا ہے۔ مذہبی و نسلی اقلیتوں کے خلاف اکثریت کو اکسا کر جنگ و جدل برپا کر دی جاتی ہے۔ جمہوریت کا جائزہ لیا جائے تو یہ جاگیرداروں اور سرمایہداروں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ عوام اپنی فلاح و بھلائی کے لیے کسی نجات دہندہ کے منتظر رہ جاتے ہیں۔ مقتدر طبقہ عوام کے ووٹ کو حصول زر کے لیے نہایت بےرحمی سے استعمال کرتا ہے۔ فراڈ، دھاندلیاں،ناجائز مراعات کا حصول ایک دوسرے پر الزامات کی سیاست، احتجاج، دھینگا مشتی سے پورے معاشرے میں افراتفری پھیلی ہوئی ہے۔

عصر حاضر امن کے لیے تباہ کن اثرات کا حامل بنا ہوا ہے۔ کرپشن، رشوت،چوربازاری،ذخیرہ اندوزی،دہشت گردی، گن پوائنٹ پر لوٹ مار دھوکہ دہی الغرض۔۔۔۔۔۔! حکمت و دانش کی روشنی سے تخلیق کردہ ایٹم بم، ہائیڈروجن بم، میزائل، بارودی سرنگیں اور زہریلی گیسیں وغیرہ اور دیگر بدعنوانیوں نے بھی حقداروں کی احساس غیرت کو سخت دھچکے دیے ہیں۔ جرائم اور تشدد کی روزافزوں وارداتوں نے عوام کو عدم تحفظ کا شکار کر دیا ہے۔ محنت کش طبقہ سخت ہیجان میں مبتلا ہے۔ غریب اور سفید پوش طبقہ کے لیے افراط زر اور بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عزت سے جینا دوبھر کر دیا ہے۔ دانش ور طبقہ فرقہ پرستی اور مذہبی مناقشات سے امن عامہ کی تباہی کا تماشہ دیکھ رہا ہے۔ الغرض۔۔۔۔۔!!! امن قائم رکھنے کے لیے قرآن جو واحد سرچشمہ حیات ہے اور سنت نبوی جو تمام امت مسلمہ کے لیے بہترین اسوہ حسنہ کی اہمیت رکھتی ہےکومدنظر رکھنا بھی ضروری ہے۔ امن کی صورتحال قائم رکھنے کے لیے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی ضرورت ہے۔ نیکی کی ہدایت دینے سے قبل اپنا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔جب معاشرے کے تمام افراد اپنے فرائض ادا کرتے ہیں تو حقوق خودبخود ادا ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ تعلیم یافتہ معاشرہ اور تربیت یافتہ افراد امن کا ضامن بنتے ہیں۔ حضرت علی کا قول ہے؛ "جہالت موت کی مانند ہوتی ہے اور علم مثل حیات ہوتا ہے۔" غیبت، چغل خوری سے امن تباہ ہو جاتا ہے۔ دوسروں سے حسد کرنے سے بھی امن تباہ ہو جاتا ہے۔ امن کی بحالی ملک میں طبقاتی اونچ نیچ ختم کر کے ہی ممکن ہے۔ لہذا سیاسی کلچر کی خرابیاں دور کرنے کے لیے جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ ضروری ہے۔ امراء سے ٹیکس وصول کر کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے اداروں کو مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے روزگار کے وسائل بھی پیدا ہو جائیں گے۔ نوجوانوں کے لیے دن کو تعلیم اور شام کو فیکٹریوں میں کام کرنے کے لیے قوانین وضع کرنے ہوں گے۔ بھوک، افلاس، غربت، بےروزگاری بڑھتی ہوئی آبادی پر کنٹرول اور سیاسی اصلاحات پر زور دینا ضروری ہے۔ ذخیرہ اندوزوں کا قلع قمع کیا جائے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کو فروغ دے کر توانائی اور دیگر بحرانوں پر قابو پایا جائے۔ ماوزے ننگ؛ لکھتے ہیں: " امن قائم کرنے کے لیے طاقت اور معیشت کو قائم کرنا ضروری ہے۔ " پاکستان اسلامی جمہوریہ ریاست ہے۔ اس کے حکمرانوں کو خلیفہ وقت حضرت عمر فاروق اعظم کی طرح باخبر ہانا چاہیے۔ جو اس خوف سے لرزاں تھے کہ فرات کے کنارے بھوکے رہنے والے کتے کے بارے میں بھی بازپرس ہو گی۔ آج پاکستان کا ایٹمی طاقت بن جانا مضربی ممالک کے لیے خطرناک ہے۔ پوری قوم کو سانحات پر ماتم کرنے اور احتجاجی ریلیاں نکالنے کی بجائے صبروتحمل ، برداشت ، بھائی چارے اور ایثار کے جذبے سے سرشار ہو کر یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم وقت کے تیور جانچیں، ہوا کے رخ کو پہچانیں تاریخ کی رو کو سمجھیں، ہوا کے زمزموں اور گھٹا کے اشاروں کو دیکھیں اور وقت کے اس تناظر میں اپنے فکروعمل کی تمام صلاحیتوں کو بامقصد جدوجہد کے لیے عبارت کردیں۔ تاکہ پاکستان نہ صرف اسلام کا ناقابل تسخیر قلعہ بن سکے۔ بلکہ دنیا کی اقوام کے مینار نور کی حیثیت بھی اختیار کر جائے۔

راہ پر خار پہ بھٹکیں نہ اندھیروں میں قدم

دیپ ہر موڑ پر محبت کے جلائے رکھنا

اس چمن میں رہے ہر سمت اخوت کی مہک

پیار کی جوت ہر دل میں جلائے رکھنا

درگزر کرنا اگر ہم سے خطا ہو کوئی

اس وطن پہ صدا رحمت کے ہی سائے رکھنا

 

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                                                                 

Comments