کرسمس اور مسلمان
✍️ حافظہ خنساء
اکرم
ابتدائے آفرینش ہے ۔۔۔۔۔
رب کبریا کی جانب سے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہِ تعظیم
کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔ ۔
جسے سنتے ہی فرشتے سربسجود ہوگئے ہیں۔۔۔۔۔ مگر ایک مخلوق
جو آگ کی پیداوار ہے اپنے خالقِ حقیقی کے سامنے
متکبر بننے کی جہد مسلسل میں مصروف ہے ۔ ۔۔۔۔
اور اپنے شیطانی عمل کی بدولت راندہ درگاہ ہونے لگی ہے مگر
پھر بھی خالق کائنات کے مقابلے
میں کھڑا ہونے کی جسارت کر رہی ہے۔۔
اور گھمنڈ کا یہ
عالم ہے کہ وعدہ کر رہی ہے کہ میں آدم اور اس کی اولاد کو بھی اس جنت سے نکلوانے کا
ہر حربہ استعمال کروں گا کیونکہ میری اس نعمت سے محرومی کا سبب یہی مٹی کا پتلا ہے۔۔
جواب الہیٰ دیا جاتا ہے۔
اِنَّ عِبَادِىْ لَـيْسَ
لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَـعَكَ
مِنَ الْغٰوِيْنَ۔( الحجر:42)
"بے شک، جو میرے حقیقی بندے ہیں ان پر تیرا
بس نہ چلے گا تیرا بس تو صرف اُن بہکے ہوئے لوگوں ہی پر چلے گا جو تیری پیروی کریں."
پھر
منزل منظر بدلا اور موجودہ صدی میں خود کو مکین
دیکھا مگر اس دور میں پہنچنے تک بہت
سے لوگوں کے قصص سے بھی سابقہ پڑا اور ہر بار
ابلیس اپنا وعدہ وفا کرتا دکھائی دیا۔
آفرین ہے اس مٹی کے پتلے اور اس آگ کی مخلوق کے شرف میں
جہاں اتنا فرق تھا وہیں اپنے قول کو نبھانے
کا جذبہ برعکس ثابت ہوا تھا۔
جو اشرف المخلوقات
تھا وہ اپنے مالک سے کیا وعدہ پورا نہ کرسکا اور ناری اپنے وعدے پر قائم رہتے
ہوئے اپنی روش کو کبھی فراموش نہ کرسکا۔۔
اس بزم کونین کو سجانے اور اشرف المخلوقات کو اس کا بھولا
وعدہ یاد دلانے بہت سے انبیاء کرام علیہم السلام آتے رہے۔
مگر یہ اس نے خاکی
وجود نے ناری سے دوستی استوار رکھتے ہوئے
اپنے نبی علیہ السلام کی تعلیمات کو اہمیت نہ دی۔۔
اور دین میں داخل ہو کر بھی دین میں داخل نہ ہوسکے۔
یہی وجہ تھی کہ جب حقیقی رب سے تعلق استوار نہ کیا تو روحانی
تشنگی کو بجھانے کے لئے باطل خداؤں کا مقرّب بننے کی کوشش شروع ہوئی۔۔۔
اور دنیا بھر میں نت نئے مذاہب کا قیام عمل میں آیا۔ان کو
دیکھ کر جو چند لوگ اپنی شریعت پر عمل پیرا
تھے احساس کمتری میں مبتلا ہونے لگے اور اپنے مذہبی تہوار کے طور پر دوسروں کی خود
ساختہ رسومات کی ادائیگی کرنے لگے۔ تاکہ مذہب کی چار دیواری میں محفوظ بھی رہ سکیں
اور غیروں کے ساتھ مسرور بھی۔۔
ایسی سوچ کے ہی
حامل لوگوں میں شامل اہل کتاب بھی ان خرافات کا بڑے پیمانے پر شکار ہوئے۔ یہود
نے فرعونِ مصراور بابل کے فرما ں روا بخت نصر کی غلامی میں ذہنی طور پر مغلوب اور متاثر
ہو کر مصر و بابل میایمان بالجِبتیعنی جادو سیکھا اوراسیریٔ بابل (Babylonish
Captivity)کے زمانہ میں فارس کے اہرمن پرستوں سے 'ایمان
بالطاغوت' یونی شیطان پرستی کا درس لیا ۔ پھر بالکل اسی طرح عیسائیوں نے یونانیوں(Greeks)،رومیوں(Romans)،طیوتانیوں(Tutains)اوردیگرمشرک(Pagan) اقوام سے بہت سی بدعات مستعار لیں ۔مثلا عید میلادالمسیح (Christmas) ،عید قیامۃ المسیح (Easter)، بپتسمہ (Baptism)اور صلیب(Cross)
جیسی رسومات کو
مذہب کے نام پر فروغ ملا ۔
اور متنازعہ ترین رسم
"کرسمس " کی اہمیت کو سب
سے اجاگر کیا گیا۔
مسیحیت میں کِرِسْمَس، بڑا دن، جشن ولادت مسیح، عید ولادت
مسیح اور عید ولادت خداوند ایسٹر کے بعد سب
سے اہم تہوار سمجھا جاتا ہے۔ اس تہوار کے موقع پر یسوع مسیح کی ولادت کی سالگرہ منائی
جاتی ہے۔
اگر ہم اس تہوار کی حقیقت جاننے کی کوشش کریں تو یہ بات
بہت مایوس کن ہے کہ عیسائیوں نے غیروں کی تقلید میں اپنے مذہب میں جن رسومات کی ادائیگی
کا سلسلہ شروع کیا ان میں سے ایک بڑی رسم" کرسمس" تھی ۔
کرسمس کا لفظ بائبل میں موجود نہیں یہ اصطلاح دو الفاظ"
Christ" یعنی "مسیح" اور "Mass " یعنی "کیتھولک رسم" ۔
مراد یہ ہے کہ ایسی کیتھولک رسم جو 25 دسمبر کی رات کو مسیح
کی ولادت کے دن کی یاد میں منائی جاتی ہے۔
جسے ابتدا میں پوپ کی جانب سے روکا گیا مگر پھر آبائے
کلیسا نے 325ء میں منعقدہ نیقیہ کونسل میں 24 دسمبر کی رات سے 25 دسمبر کی
شام تک ولادت مسیح منانے کا دن قرار دے دیا۔
۔ عموماً یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ولادت کا وقت
نصف شب کو رہا ہوگا، پھر پوپ پائیس یازدہم نے کاتھولک کلیسیا میں سنہ 1921ء میں نصف
شب کی ولادت کو باقاعدہ تسلیم کر لیا۔ کہا جاتا ہے کہ مسیحیت سے قبل بھی روم میں
25 دسمبر کو آفتاب پرستوں کا تہوار ہوا کرتا تھا چنانچہ ولادت مسیح کی حقیقی تاریخ
کا علم نہ ہونے کی بنا پر آبائے کلیسیا نے یسوع مسیح کو "عہد جدید کا سورج"
اور "دنیا کا نور" خیال کرتے ہوئے اس تہوار کو یوم ولادت تسلیم کر لیا۔ کرسمس
کو "عشرہ کرسمس" کا ایک حصہ خیال کیا جاتا ہے، عشرہ کرسمس اس عرصے کو کہتے
ہیں جس میں اس یادگار سے جڑے دیگر واقعات مثلاﹰ
بشارت ولادت، ولادت یوحنا اصطباغی اور ختنہ مسیح وغیرہ پیش آئے۔ چنانچہ اس پورے عرصے
میں گرجا گھروں میں ان تمام واقعات کا ذکر ہوتا ہے۔
****
اب اگر کرسمس کی حقیقت جاننے کے لیے مزید اقدامات کیے جائیں
تو بہت سے ایسے انکشافات سامنے آتے ہیں کہ انسان
اس تہوار کو منانے والوں سے کچھ کہنے کے الفاظ موجود نہیں پاتا۔
لیکن خوش قسمتی سے عیسائیوں میں کچھ حقیقت پسند مکاتبِ فکر
تاحال موجود ہیں جو یہ تسلیم کرتے ہیں کہ25 دسمبر حضرت مسیحؑ کی و لادت کا دن نہیں
بلکہ دیگر بت پرست اقوام سے لی گئی بدعت ہے۔ فقط یہی نہیں بلکہ تاریخِ کلیسا میں کرسمس
کی تاریخ کبھی ایک سی نہیں رہی ،کیونکہ جنابِ عیسیٰ ؑ کا یومِ پیدائش کسی بھی ذریعے
سے قطعیت سے معلوم نہیں۔
عیسیٰ کا دور ِ حیات اور آپ
کے بعد آپ کے حواری برسوں تک کسمپرسی کی حالت میں رہے۔ رومیوں اور یہودیوں کے مظالم
سے چھپتے پھرتے تھے اور عیسائیت کو عام ہونے میں ایک صدی لگی ۔رومن سلطنت کے عیسائیت
کو قبول کرنے سے قبل اس خطے میں رومی کیلنڈر رائج تھا۔ سلطنت ِروما کے قیام سے ہی اس
کیلنڈر کا آغاز ہوتا ہے۔ چھٹی صدی عیسوی کے راہب ڈائیونیزیوس(Dionysius Exiguus 470-544 AD)کا
کہنا ہے کہ ولادتِ مسیح رومن کیلنڈر کی ابتدا کے 753 سال بعد ہوئی۔سن عیسوی کا قیام
صدیوں بعد رومن کلیسا نے کیا ۔البتہ میلاد المسیح کو بحیثیتِ عید منانے کا رواج حضرت
عیسیٰ اور آپ کے حواریوں کے دور سے کافی عرصہ بعد شروع ہوا ۔دوسری صدی میں پاپاے اعظم
ٹیلیس فورس نے اس بدعت کو باقاعدہ طور پر منانے کا اعلان کیا ،لیکن اس وقت کرسمس کی
کوئی متعین تاریخ نہ تھی۔اسکندریہ مصرمیں اسے20مئی کو منایا جاتا تھا۔اس کے بعد 19،20اور21
اپریل کو منایا جانے لگا ۔کچھ خطے اسے مارچ میں بھی مناتے تھے۔
انسائیکلوپیڈیا
Britannica میں کرسمس ڈے آرٹیکل کے مطابق 525ء میں سیتھیا
کے راہب ڈائیونیزیوس(Dionysius Exiguus 470-544 AD)جو
کہ ایک پادری ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ماہر کیلنڈر نگار بھی تھا،اس نے اپنے اندازے کے
مطابق حضرت مسیح کی تاریخِ ولادت 25 دسمبر مقرر کی ہے ۔''
یہ بات درست ہے کہ ڈائیونیزیوس ایک مشہور تقویم نگار تھا،اس
نےAnno Domini یعنی عیسوی کیلنڈر
بھی 525ء میں متعارف کروایا تھامگر انسائیکلوپیڈیا ویکی پیڈیا کے مقالہ نگار کے مطابق
جدید تحقیق کی روشنی میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اس مشہور تقویم نگارنے کبھی یہ دعو
یٰ نہیں کیا کہ حضرت مسیح کی تاریخِ ولادت 25 دسمبر ہے۔
بازنطینی بادشاہ کانسٹنٹائن(Constantine
the Great 272-373AD)نے اس تاریخ کو عالمی طور پر حضرت عیسیٰ
کی ولادت کا دن مقرر کیا ۔
چوتھی صدی عیسوی سے اب تک کرسمس کا تہوار دنیا بھر میں
25 دسمبر کو ہی منایا جا رہا ہے۔لیکن عیسائی فرقہ
آرتھوڈکس جو گریگوری کیلنڈر کو ہی معتبر مانتا ہے،وہ کرسمس 7 جنوری کو مناتے
ہیں اور آج بھی ایسے خطے جہاں آرتھوڈکس کی اکثریت ہے، وہاں کرسمس7 جنوری کو ہی منایا
جاتا ہے جن میں روس ،آرمینیا ،مشرقی تیمور ،فلپائن ،شا م اور بھارت کی ریاست کیرالہ
بھی شامل ہیں۔جبکہ بعض خطے ایسے بھی ہیں جہاں کے عیسائی 6 جنوری اور 18 جنوری کو کرسمس
مناتے ہیں ۔
جبکہ بعض مؤخرین
اپنے ثبوتوں کے ساتھ اس مقام پر کھڑے ہیں کہاگر مسیح کی تبلیغ تب شروع ہوئی جب آپ
تیس سال کی عمر کے تھے اور ساڑھے تین سال میں عید فصیح کے موقع پر آپ کی وفات پر اختتام
پذیر ہوئی تو محتاط طریقے سے ماضی میں واپس لوٹتے ہوئے 25؍دسمبر کی بجائے ہم ستمبر
یا اکتوبر کے مہینوں میں پہنچتے ہیں ۔''
انجیل لوقا کی آیات بھی یہی رائے پیش کرتی ہیں۔اسی طرح
متروک اناجیل میں سے ایک انجیلِ متّی بھی ہے جو در اصل عبرانی
میں لکھی گئی تھی۔بعد میں سینٹ جیروم نے اسے لاطینی زبان میں منتقل کر دیا۔ یہ انجیل
سیدہ مریم علیہا السلام کی پیدائش سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لڑکپن تک کے واقعات
کو قدرے تفصیل سے بیان کرتی ہے ۔اس میں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کے موسم
کے متعلق بڑی واضح دلیل ملتی ہے کہ یہ سردی کا موسم نہیں بلکہ گرمی کا موسم تھا ۔اس
انجیل کے مطابق ''سیدنا مسیح کی ولادت سے چند دن بعد سیدہ مریم علیہا السلام اپنے خاوند
یوسف نجّار کے ہمراہ بیتِ لحم سے مصر کو اس لیے روانہ ہوئیں کہ کہیں ہیرودیس بادشاہ
ننھے عیسیٰ کو قتل نہ کر دے ۔اس سفر کے تیسرے دن جب وہ ایک صحرا سے گذر رہے تھے تو
صحرا کی تپش اور سورج کی چلچلاتی دھوپ نے اُنہیں نڈھال کر دیا۔وہ اور اُن کے جانور
پیاسے بھی تھے۔ وہ ایک کھجور کے درخت کے سائے میں کچھ دیر آرام کرنے کے لیے رکے ۔اور
وہ درخت پھل سے لدا ہواتھا۔''
اور اب ان تمام دلائل و قرائن سے یہ بات روزِ روشن کی طرح
عیاں ہو جاتی ہے کہ سیدنا مسیح علیہ السلام کی ولادت انجیل کے مطابق سردیوں کے موسم
کی بجائے گرمیوں میں ہوئی تھی۔
**
قرآن کریم اور ولادت ِ عیسیٰ کا تعین:
قرآنِ کریم میں حضرت عیسیٰ کی ولات کے متعلق سورہ مریم
کے دوسرے رکوع میں بالتفصیل تذکرہ ہوا ہے ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
﴿فَحَمَلَتهُ فَانتَبَذَت بِهِ مَكانًا قَصِيًّا
﴿٢٢﴾ فَأَجاءَهَا المَخاضُ إِلىٰ جِذعِ النَّخلَةِ قالَت يـٰلَيتَنى
مِتُّ قَبلَ هـٰذا
وَكُنتُ نَسيًا مَنسِيًّا ﴿٢٣﴾... سورةمريم
''تو وہ اس (بچے) کے ساتھ حاملہ ہو گئیں اور اُسے
لیکر ایک دُور کی جگہ چلی گئیں پھر دردِ زہ اُن کو کھجور کے تنے کی طرف لے آیا۔کہنے
لگیں کہ کاش میں اس سے پہلے مر چکی ہوتی اور بھولی بسری ہو گئی ہوتی ۔''
اس کے بعد سیدہ مریم علیہا السلام کو بارگاہ ایزدی سے یہ
فرمان صادر ہوتا ہے :
﴿فَنادىٰها مِن تَحتِها أَلّا تَحزَنى قَد جَعَلَ
رَبُّكِ تَحتَكِ سَرِيًّا ﴿٢٤﴾ وَهُزّى إِلَيكِ بِجِذعِ النَّخلَةِ تُسـٰقِط
عَلَيكِ رُطَبًا جَنِيًّا ﴿٢٥﴾فَكُلى وَاشرَبى وَقَرّى عَينًا...﴿٢٦﴾... سورة مريم
''اس وقت اُن کے نیچے کی جانب سے فرشتے نے اُن
کو آواز دی کہ غم ناک نہ ہو تمہارے ربّ نے تمہارے نیچے ایک چشمہ جاری کر دیا ہے ۔ اور
کھجور کے تنے کو پکڑ کر اپنی طرف ہلاؤ تم پر تازہ تازہ کھجوریں جھڑ پڑیں گی۔ تو کھاؤ
اور پیو اور آنکھیں ٹھنڈی کرو۔''
حضرت عیسیٰ کے جائے پیدائش کے متعلق رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا:
«صلیت ببیت لحم حیث ولد عیسی»
''میں نے بیت اللحم میں نمازپڑھی ، جہاں عیسیٰ
پیدا ہوئے تھے-
اب توجہ
طلب بات یہ ہے کہ فلسطین میں موسم گرما کے وسط یعنی جولا ئی اور اگست میں ہی کھجوریں
پکتی ہیں۔ اس سے بھی یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کی ولادت جولائی یا اگست
کے کسی دن ہوئی تھی ۔
بہر حال خلاصۂ کلام یہ کہ 25دسمبر کی تاریخ کو یوم ولادت مسیح علیہ السلام منانا سراسر غلط ہے۔
امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب ترین امت اہل کتاب ہی ہیں ۔ اور ان کے مذہبی
تہواروں کی حقیقت جاننے کے بعد آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ وہ امت تھی جس کو
تمام عالموں ( بنی اسرائیل) پر فضیلت حاصل تھی
مگر اس نے اپنے انداز زندگی مشرکین
کی تقلید میں شریعت سے متصادم کر لئے۔اب ان اہل کتاب کے اطوار و کردار کے درمیان نمو پانے والی نسل مسلمان کے اخلاق کس طرح کے ہوں گے ۔ کیا اندازہ لگانا مشکل
امر ہے؟
یہی وجہ ہے کہ جن اخلاق رذیلہ کے مالک اہل کتاب تھے ان کی
پیروی کرنے والوں میں اب مسلمان سر فہرست شامل
ہیں۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے
فرمان فراموش کر چکے ہیں۔
جن میں سب سے اہم بات یہ تھی :
مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ
"جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہیں
میں سے ہے۔ "
مگر اہل کتاب کی نقالی میں مسلمانوں کو اس بات کی ضرورت
محسوس ہوئ کہ وہ بھی اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت باسعادت کو ایک
عید کی صورت میں منانا شروع کریں۔۔
[12 ربیع
الاول کو عید میلاد النبی ( صلی اللہ علیہ وسلم) منانا بالکل بے اصل وبے بنیاد ہے ،
شریعت سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے]۔
اور اس شریعت مطہرہ پرکاربند ہونے کی بجائے اس جیسے اور
بھی رسوم وقیود میں خود کو محصور رکھیں جو
واضح طور پر ہندؤوں اور غیرمسلم اقوام سے درآمد شدہ ہیں۔
اور مگر ستم یہ
ہوا کہ ہم نے اپنے نفس امَارہ کی پیروی میں
ان غیر مسلموں کی خوشیوں میں شریک ہونے کا بہانہ الحاد کی خوبصورت چادر اوڑھ کر تراشا
کہ ہم مسلمان ہونے سے پہلے انسان ہیں اور انسانیت کے ناطے فرض ہے کہ غیروں کی محافل
میں شریک ہواجائے ۔ اور اسلام بھی ہمیں انسانوں سے ہمدردی کا اظہار کرنا سکھاتا ہے۔
( چاہے وہاں سے اسلام کے تمام احکامات کو پامال کیا جارہا ہو ) مگر ہم اپنی اعلیٰ ظرفی
کی دانست میں یہ بات پس پشت ڈال گئے کہ غیر مسلموں کی خوشیوں میں شامل ہونا ا، ان کے
تہواروں پر تحائف و مبارک باد پیش کرنا جیسے سب امور
اپنے اسلام سے غداری ہے ۔
عالم ارواح میں رب العزت کے سامنے الست بربکم کے سوال کے جواب میں کئے جانے والے اقرار سے عہد
شکنی ہے۔
خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے روگردانی ہے
اور
اپنے اللہ رب العزت کی نمک حرامی ہے۔۔۔۔۔!!!
کیونکہ
"کفار کی عید پر انہیں مبارکباد پیش کرنا
ایسے ہی ہے جیسے کسی کو صلیب کے آگے سجدہ کرنے پر مبارکباد پیش کرنا۔"
📒(ابن القیم رحمہ اللہ|| احکام اھل الذمة: ٢١١/٣)
تو آج کا مسلمان اپنی
نا فہمی کی بنا پر اللہ تعالیٰ سے جنگ جاری رکھے ہوئے ہے یہ جانے بغیر کہ مسلمان
کا مطلب ہی فرمانبرداری ہے اور اگر اطاعت و فرمانبرداری اور بندگی کے بندھن سے خود
کو جدا کر لیا تو امت مسلمہ میں شمولیت کا ہمارا کیا حصَہ رہ گیا؟؟
اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے
اور ہمیں اپنے اعمال اس کے مطابق ڈھالنے اور دنیا و آخرت
کی فلاح میسر فرمائے۔آمین یارب العالمین۔
ختم شد
Comments
Post a Comment